یاسر پیرزادہ کے کالم “ہالینڈ کے وزیر اعظم کی سائیکل”پر ایک ناقدانہ رائے


قریبا  سو برس ہوچلے کہ اردوکالم نگاری اب کالم نویسی کے روپ میں ڈھل چلی ہے اورایک پختہ روایت و سند کے ساتھ اس کی حدود و قیود بھی متعین ہوچکی ہیں، جناب مجید لاہوری ہو ں یا  حاجی لق لق   اب نئے  کا لم نویسوں کے لئے اساتذہ و معلم کے روپ میں سامنے آتے ہیں ، نئے کالم نگار اپنی نگارشات کا آغاز اانہی خطوط پر پر کرتے ہیں جو اب  ایک روایت بن چکے ہیں  (جن ناموں کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے  ) اور جوں جوں قلم  کی روانی  میں اضافہ ہوتا جاتا ہے نئے قلم کار اپنا ایک مخصوص طرز بیاں کے ساتھ پہچانے جانے لگے ہیں ، ان نئے کالم نگاروں  میں ایک نمایاں نام یاسر پیرزادہ کا بھی ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی شناخت کو مستحکم  اور برقرار رکھے ہوئے ہیں ، ابتدائی حوالہ تو عطاالحق قاسمی  کا ہی تھا جو  یاسر پیرزادہ کے والد محترم ہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں میں اپنے  منفرد اسلوب و بے ساختہ پن  کی بدولت  اب نمایاں کالم نگاروں میں شامل ہیں ۔پاکستان کے  موقر ترین اردو اخبار میں بحیثیت  کالم نویس  اپنی جگہ بنانایقینا  قابل تعریف  ہے مگر اس کے لئے جو مسلسل محنت و مطالعہ کا عمل درکار ہوتا ہے وہ اس مختصرتحریر کو لکھتے ہوئے  محسوس  ہورہا ہے ، تاہم   ہر لکھنے والے کی تحریر میں کچھ  افراط و تفریط کا ہونا بحیثیت انسان ایک  یقینی  امر ہے ، 25 اکتوبر 2017 کو لکھے گئے کالم پر ایک تنقید ی نظر اسی جذبہ کا نتیجہ ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں کہ ایک کالم نویس اپنی تحاریر کے باوصف دیگر لکھنے والوں کی بہ نسبت  ایک نمایاں مقام اور خواص و عوام کی پسندیدگی کا درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔ اس تنقیدی جائزہ کو ہم کئی   عنوانات کے تحت تقسیم کرکے سمھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

یہ بات قابل غور ہے کہ مستند لکھاری اپنے مخصوص اسلوب و انداز بیاں  سے بھی پہچان بناتے ہیں چناچہ اس ضمن میں یارسر پیرزاد کی سوچ کے زاویوں کو ان کی تحریر کی روشنی  میں پرکھا جاسکتا ہے کہ تحریر شخصیت کی بھی نشاندہی کرتی ہے ،  زیر بحث کالم بھی یاسر پیرزادہ کی اسی عقلیت پسند ی یا عملیت پسندی کا مظہر ہے جس کا اظہار ان کے چند ایک کالم پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے ، اس کالم میں اپنی روایتی عقلیت پسندی (۔جسے انگریزی میں پریگمیٹک ازم   کہا جاتا ہے ) کے زیر اثر  مغربی تماثیل کو پاکستان کے روایتی  اور   تہذیبی پس منظر کے تضاد   کوسمجھانا مقصود ہے، اس کو سادہ الفاظ میں مغربی  مملک کی امثال کو پاکستان پر منطبق کرنے کی کوشش کو  غلط قرار دینا ہے ۔ اور یہ  بات قابل تعریف ہے کہ عام قاری کو یہ بات انتہائی سادہ  مثال کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مغرب کے سیاسی یا تہذیبی پس منظر کو سمجھے بغیرمغرب  کی بنیادی   جمہوری اقدار  کا پاکستان میں اطلاق کس قدر غیر ضروری اور  مشکلات کا باعث ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان کے مخصوص سیاسی ، تعلیمی و تاریخی عوامل کو جانے بغیرمغربی  جمہوری اقدار  ہمارے لئے نفع کے بجائے نقصان کا سودا ثابت ہوسکتی ہیں  ۔

بحث  کا لم میں  حس لطافت کا سہارا لیا گیا تاکہ ایک بوجھل موضوع کو  قاری کے لئے قابل قبول  بنا جاسکے ، اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ طنز لطیف کا  سہارا جس ہنر مندی  اور خداداد صلاحیتوں کا محتاج ہوتا ہے کئی  کالم نگار اس  صلاحیت سے نا واقف ہونے کے باوصف پھکڑ پن  کا شکار ہوجاتے ہیں ، جس سے شاید سوقیانہ مزاج رکھنے والے تو شاید لطف اندوز ہوں لیکن  شائستہ تہذیب سے آشنا افراد بیزاری حتی  کہ  ناگواری محسوس کرتے ہیں ۔ بلاشبہ اس ضمن میں  یاسر پیرزادہ   ہم عصر کالم نویسوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں کہ بات بھی کہہ جاتے ہیں انداز اتنا لطیف کہ  قاری  عش عش کر اٹھتا ہے ، قابل ذکر بات یہ کہ جناب عطاالحق قاسمی بھی اس ہنر میں طاق ہیں لیکن چونکہ قاسمی صآحب ایک مستند و احترام کی نظر سے دیکھے جانے والے بڑے مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں ، جب کہ یار پیر زادہ  یہاں اپنا ایک منفرد و قابل قبول لہجہ اپنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ قاری بھی  ان کے اس  اسلوب کے عادی ہوگئے ہیں ،، ۔

تمام اہل علم متفق ہیں کہ  تحریر کئے گئے الفاظ کے  سماجیاتی اثرات  زبان سے ادا کئے گئے الفاظ کی نسبت ناصرف    زیادہ ہوتے ہیں  بلکہ لکھی گئے تحریر کے اثرات بھی دیرپا ہوتے ہیں ، یقینا اخبار اگلے دن کے لئے شاید ایک ردی  کاغذ کی حیثیت رکھتا ہو لیکن آج کے جدید دور میں کالم کا ابلاغ  روزمرہ خبروں کی بہ نسبت زیادہ تسلیم کیا گیا ہے ، سماج سدھار کے لئے  لکھی گئی تحریر ، کالم بسا اوقات قاری کو بور کردیتے ہیں مگر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ  یہ کڑوی مگر مفید دوائی قاری کے لئے زود ہضم بھی ہوتی ہے بلکہ اس کے سماجی شعور  میں اضافہ کا سبب بھی بنتی ہے ، اب   روز روشن کی طرح ہر پڑھے لکھے افراد کو علم ہے کہ سماج کی بنت کاری میں غیر ملکی  عوامل کا در آنا اب ایک عام بات ہوچکی ہے تاہم ان  عوامل کا معاشرہ و سماج کے لئے مفید ہونے کا تعین وقت کرتا ہے اور اہل علم  بیرونی سماجیاتی اثر  کو جلد پہچان کر اسے رد یا قبول کرنے کا مشورہ یا ابلاغ  کرتے ہیں ، یہی کوشش اس کالم میں کی گئی ہے کہ سادہ لوح  عوام کو محض  تصویر کا ایک رخ  دکھا کر موجودہ سماجیاتی تضاد کو  ابھارنے کی کوشش کو ناکام کیا جاسکے اور تصویر کا دوسرا رخ  صاحب تحریر (یاسر پیرزاڈہ)نے بڑی خوبصورتی سے واضح  کیا اور اس  روایتی محاورہ کو دہرائے بغیر  (کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی) اپنی سوچ و فکر کو قاری پر واضع کرنے کی کوشش کی ۔ یوں دانستہ طورپر   سماجی صورت گری کے علاقائی و سماجی  فرق کو آگاہی دینے کی کوشش کی ، اور بظاہر وہ اس  میں کامیاب بھی  نظر آتے ہیں ۔

ہالینڈ کے وزیراعظم کی بائیسکل اس کالم کی بنیاد بنی کہ مارک  رتتے (وزیراعظم ) ہالینڈ کے بادشاہ سے ملاقات کے لئے بائسکل پر گئے اور  پارکنگ کے بعد اس سائیکل کو تالا  بھی لگایا ۔۔یہ پیرا گراف ایک دلچسپ صورتحال پر متنج ہوتا ہے ، جب کالم نویس اس سائیکل کی تصاویر  سوشل میڈیا پر مشتہر ہوتے دیکھتا ہےبعد ازاں طنزیہ  ریمارکس جو سوشل میڈیا پر مشتہر ہوئے ۔  جوہالینڈ کا   تقابل پاکستان سے  اور پاکستان کے وزیر اعظم کی سواری و پروٹوکول سے کررہے ہیں ۔  ۔ اس کالم میں تجزیہ ہی ان افراد کی سوچ کا کیا گیا ہے جو مغربی سانچہ پر مبنی سوچ کے تحت پاکستان کو بالکل مغربی اقدار کے تحت دیکھنا چاہتے ہیں ، کالم یہ کہتا ہے کہ تقابل بری چیز نہیں لیکن معروضی حالات کا فرق نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے ،اس کالم کا یہ سوال بہت دلچسپ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو سائکل پر سواری کرتے دیکھنے والے آخر ہالینڈ کے ٹیکس کی شرح کے مماثل پاکستانیوں کے ٹیکس  گزاروں کی شرح سے کیوں کرنے پر تیا ر نہیں کہ  جوشرح ہالینڈ میں 40 فیصد ہے وہ پاکستاں میں محض 10 فیصد ہے ۔

 ( کالم کی دم )یہ کہ اگر آپ  پاکستان کے وزیر اعظم یا آئینی عہدہ داروں کو  ہالینڈ جیسی سادگی  وتصعنات سے مماثل دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ جمہوری اقدار اور اداروں کے مضبوط کئے بنا محض ایک  خواب یا ذہنی عیاشی ہی کہلائے گی کہ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق و ربط نہیں ہوگا ۔ اور ٹیکس دئے بنا مضبوط معیشت کی استواری اور پھر امن وامان کا قیام ایک دوسرے سے مشروط ہیں ، لہذا  ہالینڈ کے وزیراعظم کا سائیکل پر سفر کرنا ایک آئیڈئیل کے طور پر تو خوب ہے لیکن اس کےلئے جو جدوجہد و امکانات کی  جنگ لڑنی پڑے گی اس کی تیاری کئے بنا  ہم خودکو  اس قابل نہیں بناسکیں گے  ۔ بلا شبہ کالم نگا ر کی سوچ میں موجود خلوص سے انکار ممکن نہیں جب کہ وہ اس کے لئے درکا ر مدارج و دائرہ کار کی بھی نشاندہی کررہے ہیں۔

)کالم کی دم ) کالم نویس ایک دلچسپ تجربہ  کرتے ہوئے اپنے اکثر کالموں  کے آخر میں انگریزی لفظ مورال کی جگہ یہ الفاظ ۔ کالم کی دم ۔ استعمال کرتے ہیں تو بحیثیت تبصرہ نگار میں  بھی یہ حق استعمال کرتے ہوئے کہوں گی کہ عقل ودانش محض کالم نگاروں یا اخباری دانشوروں کی ملکینت نہیں ہوتی بلکہ قارئین بھی اس نعمت سے مالا مال ہوتے ہیں ، لہذا ہالینڈ یا ایران توران کی مثالیں دینے سے بہتر ہے کہ پاکستان میں موجود خامیوں یا خوبیوں کی نشاندہی کے لئے پاکستانیوں کا مورال ڈاؤن کرنا ضروری نہیں۔

http://www.humsub.com.pk/81294/yasir-pirzada-141/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).