غریب کی جورو حلال ہے


مولاناعبدالستار ایدھی ایک سوچنے والا ذہن رکھتے تھے۔ انسانیت کے جذبے نے ان کی زبان کو لگام لیکن پیروں میں پہیے دے رکھے تھے۔ انسانیت کی خدمت سے یوں بھی انہیں اتنی فرصت نہ تھی کہ دینی اور دنیاوی راگ الاپتے۔ لیکن ایک روز پتہ نہیں کس دھن میں انہوں نے یہ بیان دے دیا کہ مرد و عورت کے مابین معاہدہ ہی در اصل نکاح ہے اگر لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے سامنے ایجاب و قبول کر لیں تو گواہوں کی ضرورت نہیں۔

اس بیان پر دینی حلقوں اور علمائے دین کی جانب سے بڑا جائز واویلا کیا گیا کہ وہ ایک سماجی رہنما ہی رہیں عالمِ دین بننے کی کوشش نہ کریں۔ مگر آج مفتی عبدالقوی صاحب کا ایک فتویٰ پڑھا تو یقین نہیں آیا تصدیق کے لیے یو ٹیوب پر ان کی ویڈیو دیکھی جس میں وہ بہ نفسِ نفیس فرما رہے تھے کہ بحیثیت طالب علم قرآن و سنّہ جو میں نے سمجھا ہے وہ یہ کہ آج اکیسویں صدی کے اندر جب ہم نے بد اخلاقی اور بد کرداری کا دروزہ بند کرنا ہے۔ قرآن و سنّت کا خلاصہ یہ ہے کہ شادی ایک ہو گی اور نکاح متعدد ہوں گے ہر وہ محترمہ جو کسی کی منکوحہ نہ ہو اور آپ کی محرم نہ ہو اس سے آپ جو نکاح کریں گے، جو معاہدہ کریں گے۔ وہ شر عاً نکاح ہے اور آپ کے لئے حلال ہے، حلال ہے۔ حلال ہے۔

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ بات ایک مرد نے دوسرے مردوں کی آسانی کے لیے کی ہے اور جس چیزکو معاہدہ یا نکاح کے ذریعے حلال کیا گیا ہے وہ عورت ہے۔ جسے بستر پر لانے کے لیے قرآن و حدیث کا حوالہ دے کر مردوں کو اس جنسِ عام کو حلال کرنے کی کھلے عام دعوت دی گئی ہے۔ لیکن اگر یہ ہی شہہ کسی خاتون کی جانب سے خواتین کو دی گئی ہو تی تو کیا اسے بے حیائی پھیلانے کا ذمد دار نہ ٹھہرایا جا تا۔

مفتی صاحب نے یہ بیان نا صرف بقائمی ہو ش و حواس دیا ہے بلکہ تین بار دہرا کر اسے نافذ بھی کر دیا ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ اب مملکت خدا داد پاکستان میں کسی کو شیطانی قوت کے ہاتھ نظر نہیں آ ئیں گے۔ یہو دیوں کی سازش کا رو نا رو یا جا ئے گا اور نا ہی معاہدوں کی تیزی سے گھبرا کر میڈیا کی آزادی کو موردِ الزام ٹھہرا یا جا ئے گا۔

مفتی قوی صاحب کا فتویٰ سن کے مادر پدر لبرل اذہان بڑی گو مگو کی کیفیت میں ہیں۔ اور دوسری طرف جن کے پاس تھوڑا سا پیسہ ہے اور مصرف سمجھ نہیں آرہا وہ دولت مند مسلمانوں کی عظیم روش پر بنا کھٹکے عمل کر سکتا ہے۔ یوں بھی ہمارے ہاں با شرع مرد کے پاس پیسہ آجائے تو اسے یہ ہی ایک کام سوجھتا ہے۔ چار شادیوں پر تو یوں بھی کوئی قدغن نہ تھی۔ اب نکاح رچائیں گے ہم معاہدوں کے زور پر۔

اوروہ خواتین جن کے شوہر معاہدوں میں مصروف ہوں، ان پر گھریلو کام کاج کی بھی ایسی ذمہ داریاں نہ ہو اورجو اپنے فطری جذبات کی تسکین شرعی ا نداز سے چاہتی ہوں وہ شوہر سے طلاق مانگیں یا بیوہ ہو نے کی دعا تاکہ ان سے بھی کوئی معاہدہ کرے اور وہ بھی اپنے عورت ہونے کی کچھ جزا پائیں۔

خوشی ہے کہ اب ہمارے علما ء کرام میں سے کسی عالمِ دین نے سماج کے ایک اہم مسئلے کے فرو گزاشت کے لیے تو آواز بلند کی۔ مگر اس کے ساتھ افسوس بھی ہے کہ یہ آزادی بھی وہ مرد کے لیے اسی طرح مانگ رہے ہیں، جیسے اذان، نعت و حمد کی تعظیم میں سر ڈھکنا صرف عورت کے لیے ہی واجب سمجھا جا تا ہے۔ ایک نورانی داڑھی والے صاحب نے مجھے ٹوک دیا نعت اور حمد پڑھی گئی، سب خواتین نے اپنے سروں پر دوپٹہ رکھا لیکن میں نے نوٹ کیا کہ آپ نے نہیں رکھا تھا۔ وہ مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے اور میں ان کے سر کو دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی تھی۔

بات کسی اور طرف چلی گئی ہاں تو تذکرہ تھا معاہدے اور نکاح کا۔ اگر عورت کسی مرد کا ساتھ چاہے اور اس سے معاہدہ کر لے تو یہ بھی نکاح ہو گا یا اسے عریانی اور فحاشی کا نام دیا جا ئے گا۔ مطلب ہو سکتا ہے اس مرد کے چہرے پر داڑھی نہ ہو اور بد قسمتی سے عالمِ دین بھی نہ ہو تو کو ئی شرعی حد تو نہیں لگے گی نا۔ مولانا قوی کے اس فتوے کے بعد سناٹا ہے کہیں سب اکابرین آہن کو اپنے لیے سہولت تو نظر نہیں آرہی ہے۔ اچھا ایک بات کو اچھی طرح واضح کر دیا گیا ہے آپ لوگ بھی اچھی طرح پڑھ لیں ورنہ دین خطرے میں پڑ سکتا ہے مولانا قوی صاحب نے واضح کہہ دیا ہے کہ کوئی مرد ایسی عورت سے معاہدہ کر سکتا ہے جو کسی کی بیوی نہ ہو، کیا عورت کے کہے پر اعتبار کافی ہو گا یا شرعی تقاضے پورے کرنے کے لیے اس بات کا ثبوت بھی مانگا جا ئے گا۔ لیکن اگر معاہدے کے بعد عورت کے پچھلے شوہر نے دعویٰ کر دیا کہ اس نے عورت کو طلاق نہیں دی تو اس معاہدے کی رو سے دونوں پر کوئی حد لگے گی؟ یہ معاہدہ ان ہی خواتین کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جو غیر شادی شدہ، طلاق یافتہ یا بیوہ ہوں۔ اور آپ کی محرم نہ ہوں۔ یعنی سیدھے الفاظ میں ’غریب کی جورو سب کی بھابی ‘ کی روشن مثال ہو۔

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ محرم والی شرط اس لیے بھی ہے کہ ’ آپ ‘ کی محرم کسی اور سے بھی یہ معاہدہ نہیں کر سکتی، کیوں؟ اس لیے کہ آپ کی محرم خواتین انتہائی باکردار اور باحیا ہوتی ہیں۔ اپنے جذبات اور بدن کو ڈھانپے رکھتی ہیں، جس کی وجہ سے کسی نا محرم کی اگر ان پر نظر پڑ بھی جائے تو اس ( نا محرم )کے جذبات بھڑکنے کا احتمال نہیں ہو تا اور آپ کے گھر کی باکردار ( محرم ) خواتین کبھی اپنے بھڑکتے جذبات کو بوتلوں میں پانی کے ساتھ بھر کر فرج میں ٹھنڈا ہو نے کے لیے رکھ دیتی ہیں۔ کبھی گرائنڈر میں پیس لیتی ہیں، کبھی واشنگ مشین میں کپڑوں کے ساتھ دھو لیتی ہیں، کبھی سالن میں بھون دیتی ہیں، کبھی گھر کی صفائی کر کے کوڑے میں ڈال دیتی ہیں، کبھی برتنوں کی صفائی میں انہیں بھی گھس دیتی ہیں اور رات جب بدن تھکن سے چور ہو تو گہری نیند میں چلی جاتی ہیں اور جو کبھی خواب خود کو کسی فلمی ہیروئین کی طرح ہیرو کے قریب دیکھیں تو استغفار پڑھ کے تہجد کے کے لیے وضو کرتے ہوئے اپنے فطری جذبات کو گندے خیالات جان کر پانی سے بہا دیتی ہیں اور تولیہ سے منہ پو نچھ کر مصلّے پر کھڑی ہو جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).