مڈل کلاس کے بارےمیں اک کتھارسس


اگر ایک عام بات بیان کی جائے تو معاشرتی تبدیلی میں کیٹالسٹ کا کردار سمجھی جانے والی مڈل کلاس نے شاید معاشرتی نظام کا ہی بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟ نہیں ناں! شاید ایسا نہ ہو لیکن رجعت پسندی سے حد درجہ محبت اور آئیڈیل ازم کی تلقید بلکہ ایسی اندھی تلقید کہ ہر نکمے شخص کی محبت میں گرفتار ہو کر گھر سے بھاگنے والی بانکی لڑکی جیسی غلطیاں مڈل کلاس کے فلاپ معاشرتی ری ایکشن میں نظر آنے لگی ہیں۔

یعنی تبدیلی، تبدیلی اور تبدیلی لیکن تبدیلی کہاں؟ یہ سوال اب سوال نہیں رہا بلکہ مڈل کلاس میں تو اب تبدیلی کا لفظ ایک اکنامک ٹرمنالوجی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
بھئی سوچ کی تبدیلی لیکن کس لیے؟ اختیار کی تبدیلی لیکن کیوں؟ اور مزاج کی تبدیلی بھی اگر چاہیے تو کس بناء پر؟ مطلب اس سے فائدہ کیا ہوگا مجھے؟
معاف کیجیے گا لیکن شاید مڈل کلاس طبقے میں دیکھا دیکھی آنے والی تبدیلیوں نے اس تبدیلی نام کی چیز میں مفاد، آسائش اور غرور کی آمیزش کر دی ہے۔

میں ساری مڈل کلاس کی بات نہیں کر رہا بلکہ اس کلاس کی ایسی شخصیات کے قد آورفلسفہ پر رائے دےرہا ہوں جن میں سیکھنے کی کم اور نقل کرنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔ ایسی شخصیات اپر کلاس پر ورکنگ کلاس کو ہاوی ہوتے دیکھیں گے تو ورکنگ کلاس کے گن گائیں گے اور انہی عادات کو اپنائیں گے۔

ورکنگ کلاس کی مجبوریوں میں اپر کلاس کی چکا چوند دیکھیں گے تو ان کی نیندیں تک حرام ہو جاتی ہیں اور سمجھ نہیں آتی کہ کب وہ بھی ایسے لوگوں کی نشست سنبھال سکیں جن کے ٹھاٹ باٹ ان کی آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں اور ایسے میں سب سے اہم یہ کہ ایسے موقعوں پر انہیں تزکیہ نفس اور سیلف سٹڈی جیسی نصحیتیں قاتل نظرآنے لگتی ہیں۔

ورکنگ کلاس کے ٹیگ کو اتارتے ہوئے ہم ڈائریکٹ اپر کلاس کا وائٹ کالر پہننے میں بہت جذباتی ہوتے ہیں اور ایسے میں اپر سے بھی اپر پر نشانہ باندھ کر بعد میں اپنے ہی ہم نواؤں کو ایسی کاری ضرب لگاتے ہیں گویا نشان اگلے کی یادداشت کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاتھوں پر بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جائے۔

گو کہ میرا تعلق بھی اسی کلاس سے ہے لہذا اس کلاس کی محرومی سے کہیں نہ کہیں میں بھی واقف ہوں لیکن جناب جب ہمارا سکہ چلنے کا دور آئے تو پھر نہ پوچھیے کہ یہ محرومیاں کیسے دورہوتی ہیں۔

ٹانگیں کھینچ کر ہی محسن کو اوپر سے نیچے کیوں نہ لانا پڑے، ذرا احتیاط نہیں برتی جاتی۔
مطلب نکالنے کے لیے گدھے، گھوڑے، خچر غرض کسی کو بھی پدری منصب کیوں نہ پیش کرنا پڑے تمام باتوں کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے اور ایک خاص بات کہ کلاس تبدیل ہوتے ہی ہمیں شخصی مراعات بہت بھاتی ہیں یعنی بیٹھنے کا اشارہ کرنے والے جھکے ہاتھ اور انہماک سے سننے والے کان ہمارے تحکمانہ انداز کی رونقیں بڑھا دیتے ہیں۔

دوست احباب کی محافل میں ہمارے ہنسنے کے ساتھ قہقہے لگانے والے اور داستان غم کے دوران ”اف“ کی آواز بلند کرنے والے دوست ہمیشہ عزیز تصور کیے جاتے ہیں۔
گویا آئیڈیل کا لفظ بھی تو اسی کلاس کے دم پر ایجاد ہوا تھا، وگرنہ بھرے پیٹ کولذید اور چٹ پٹے کھانوں کی خوشبوؤں سے کیا غرض؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).