امرتا اور امروز


رنجیت سنگھ کے علاوہ بھی یہاں خالصہ دربار کی نشانیاں ہر سو بکھری پڑی ہیں۔ ہری پور کی بنیاد رکھنے والے ہری سنگھ نلوہ کی حویلی (اب اس جگہ کو اندھوں کی مسجد کہا جاتا ہے) بھی یہیں ہے اور مانسہرہ بسانے والے مہان سنگھ کا گھر بھی۔ مہاراجہ کے ساتھ ایک شکار پہ مہان سنگھ نے خالی ہاتھ شیر مار گرایا۔ رنجیت سنگھ نے اس کی دلیری دیکھی تو اسے باگھ مار کا لقب دیا اور ہری سنگھ کی کمان میں سونپ دیا مگر پھر اس کی بہادری کو سکھ دربار کی نظر لگ گئی۔ مہان سنگھ کی تیسری نسل بالآخر موہیال راجپوتوں کی روایات کا بوجھ نہ اٹھا سکی۔ 1857 کی جنگ آزادی میں انہوں نے انگریزوں سے صلح کی اور جاگیریں لے کر زمیندارہ شروع کر دیا۔

رنجیت سنگھ کے باپ مہان سنگھ کی بارہ دری بھی اسی شیرانوالہ باغ میں ہے جس کے چبوترے سے شہر کی ہر سیاسی اور سماجی تحریک کا آغاز ہوا کرتا تھا۔ اس بار ہ دری پہ قائد اعظم، مولانا عطاللہ شاہ بخاری اور پنڈت نہرو جیسے سیاستدانوں نے خطابت کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہ جگہ شہر کی بے نیازی کا بوجھ نہ اٹھا سکی اور گرنے لگی۔ پھر چند اہل دل نے اپنے بچوں کی تاریخ کو سنبھالا دیا اور اسے اپنی موجودہ حالت میں بحال کیا۔

سکھوں کے بعد پنجاب جب انگریزوں کے ہاتھ لگا تو انہوں نے ہیئت قلبی کی ایک اور تر کیب نکالی۔ شہر کی ساری آبادی ریل کے پار تھی۔ لہٰذا انگریزوں نے اپنی آ بادی کے لئے پٹڑی کے دوسری طرف کا علاقہ منتخب کیا اور ریلوے لائن شہر کے درمیان ایک حد فاصل ٹھہری۔ لکیر کے اس طرف حکمران طبقے کا بسایا گیا ایک چھوٹا سا شہر تھا اور دوسری جانب رعایا اپنی زندگی کرتی تھی۔ مقامی لوگوں میں مشہور تھا کہ ادھر بھی ایک لال کڑتی اور صدر بنے گا، مگر اتنی دیر میں ہٹلر آ گیا اور برطانیہ کو اپنی بساط لپیٹتے ہی بنی۔ محکمہ مال کے ریکارڈ میں البتہ اب بھی یہ علاقہ چھاؤنی ہی شمار ہوتا ہے۔ ہسپتال، گرجا گھر، کلکٹر کا بنگلہ اور سول لائینز، سب پٹڑی کے ادھر تھا۔ 1930 تک کوئی ہندوستانی یہاں زمین تک نہیں لے سکتا تھا۔ گوجرانوالہ بار کے چالیس ممبر تھے، ان میں سے تیس سکھ راجندر سنگھ اور خوشحال سنگھ وغیرہ تھے جبکہ باقی مسلمان تھے۔

یہیں، انہی گلیوں میں برج بھاشا کے ایک استاد کرتار سنگھ ہتکاری ہوا کرتے تھے۔ سردار جی اپنی بیوی راج کور کے ساتھ تیجا سنگھ بسور کے سکول میں پڑھاتے تھے۔ یہ 1918 کی بات ہے کہ گرودوارے میں کیرتن جاری تھا۔ دعا مانگنے کا وقت آیا تو تیجا سنگھ کی دونوں بیٹیاں اٹھیں، ہاتھ جوڑ دعا مانگنے لگیں کہ گرو ہمارے ماسٹر کرتار سنگھ جی اور ان کی بیوی کو ایک بٹیا دیدے۔ گھر آ کر کرتار سنگھ بی بی پہ بہت بگڑے کہ ایسی بھی کیا نا امیدی، مگر اس میں راج کور کا کوئی قصور نہ تھا، دراصل دونوں لڑکیاں چاہتی تھیں کہ ان جیسی بیٹی ان کے ماسٹر جی کو بھی ملے۔ 1919 میں وہ بیٹی پیدا ہو گئی۔ ما ں باپ دونوں ہی استاد تھے لہٰذا بیٹی نے بھی جلد ہی لکھنا پڑھنا شروع کر لیا۔ ابھی وہ گیارہ سال کی تھی کہ کرتار سنگھ کی بیوی چل بسی۔ باپ بیٹی گوجرانوالہ چھوڑ کر لاہور آ بسے۔

گھر میں مذہب کا زور تھا اس لئے بیٹی نے بھی سب سے پہلے گروؤں کی تعریف میں نظمیں کہیں۔ یہ نظمیں کرتار سنگھ کے ایک دوست جگت سنگھ کو بہت پسند تھیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے پریتم کے لئے اس سولہ سال کی لڑکی کا ہاتھ مانگ لیا۔ لوگ جاننے والے تھے، لڑکا بھی دیکھا بھالا تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کی انارکلی میں ہوزری کی بڑی سی دکان تھی۔ کرتار سنگھ نے فوراً ہاں کر دی اور یوں سولہ سال کی یہ لڑکی عورت بن گئی۔ اس سال اس کی نظموں کی پہلی کتاب بھی چھپی۔ گھر گرہستی کے بعد اسے اپنے پسماندہ ہم وطنوں کی فکر شروع ہو گئی۔ کچھ وقت ریڈیو پہ گزرا اور کچھ سیاست کی نذر ہوا۔ اتنے میں ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ کہتے ہیں بہترین ادب بد ترین دور میں تخلیق ہوتا ہے۔ جب قریب قریب دس لاکھ لوگ اپنا گھر چھوڑ کر اپنے آدرش کی طرف چلنا شروع ہوئے تو اس لڑکی کی سسکی نے پورے پنجاب کے قدم روک لئے۔ ہندوستان کی تقسیم کو اس نوحے کے اثر سے باہر آتے آتے شاید جگ بیت جائے۔

اج آکھاں وارث شاہ نوں کِتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی تو لِکھ لِکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کین
اٹھ دردمنداں دیا دردیا اٹھ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دتی زہر رلا
تے اونہاں پانیاں دھرتی نوں دتا پانی لا
اج سبھے کیدو بن گئے ایتھے حُسن عشق دے چور
اج کتھوں لیاواں لبھ کے میں وارث شاہ جیا ہور

امرتا پریتم کی زندگی بغاوتوں کا سلسلہ تھی۔ ایک ٹرین اسٹیشن پہ رک کر جب ہندو پانی، مسلم پانی کی آوازیں اس کے کان پڑیں تو اس نے اپنی ماں سے پوچھا کہ کیا پانی بھی ہندو اور مسلمان ہوا کرتا ہے۔ گیانی کی بیوی نے جواب دیا ابھی تو صرف پانی بٹا ہے خدا جانے آ گے چل کر کیا کیا تقسیم ہو۔ اس نے اگلا حملہ خاندانی روایات پہ کیا اور اپنی دادی کی خوب سرزنش کی جو اس کے باپ کے مسلمان دوستوں کے لئے برتن علیحدہ رکھتی تھی۔ معاشرے کے بعد مذہب بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ اپنی مرتی ہوئی ماں کے سرہانے کھڑے ہو کر امرتا نے صدق دل سے اپنی ماں کے لئے زندگی مانگی مگر زندگیاں مانگے سے کہاں ملتی ہیں۔ ماں کے انتقال کو اس نے خدا کے وجود سے مشروط کر دیا اور اس کے بعد خدا اس کے لئے بس کہانی کے کردار جیسا بن گیا۔

پریتم سے امرتا کی شادی 1960 میں اپنے منطقی انجام کو پہنچی، جس کے بعد اس نے ساحر کے عشق کو اپنے وجود پہ اوڑھ لیا۔ ساحر اس کی زندگی میں آنے والا واحد مرد تھا جو اس کے دل تک پہنچا۔ ایک فیصلے کی خواہش میں اس نے ساحر کو گھر بلوایا، سلگتا ہوا شاعر آ تو گیا مگر فیصلہ نہ کر پایا اور واپس لوٹ گیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں مذہب کو دخل تھا، کچھ کا ماننا ہے کہ ساحر اور امرتا دونوں اپنے وقت کی دھنوان تھے سو ان کا سنجوگ نا ممکن تھا۔ مگر ان حقیقتوں سے قطع نظر، امرتا ساحر کی محبت سے ساری عمر فرار نہ حاصل کر سکی۔ کبھی کسی پریس کانفرنس میں وہ کاغذ پہ بے دھیانی میں سینکڑوں بار ساحر لکھتی تو کبھی اس کے نام آخری خط لکھ کر افسانوں کی صورت چھپواتی۔ وہ ملنے آتا تو دونوں گھنٹوں ایک لفظ بولے بنا چپ چاپ بیٹھے رہتے، ساحر سگریٹ پھونکتا رہتا اور امرتا اپنی نگاہوں سے اس کی آرتی اتارتی رہتی۔

ساحر کے جانے کے بعد وہ البتہ کسی اور وجود میں ڈھل جاتی۔ بچے کھچے سگریٹ کے ٹکڑے جمع کرتی، انہیں سلگاتی اور ساحر کو یاد کر کے آہیں بھرتی۔ کئی سالوں بعد جب امرتا نے اس نامکمل اور مختصر کہانی کا ذکر خشونت سنگھ سے کیا تو خوشونت سنگھ نے از راہ مذاق کہا کہ اتنی مختصر کہانی تو ڈاک ٹکٹ کے پیچھے لکھی جا سکتی ہے۔ امرتا نے اپنی آپ بیتی رسیدی ٹکٹ کے نام سے ہی شائع کروائی۔ ساحر کے جانے کے بعد امرتا نے زندگی کے باقی ماندہ دن امروز کے ساتھ گزارے اور 2005 میں پنجاب کی یہ بیٹی دلی کے حوض خاص میں انتقال کر گئی۔ امروز، ایک مصور جو امرتا کی آنکھوں کے عشق میں مبتلا تھے اور آ خری وقت تک اس کی دیکھ بھال کچھ سیواکاریوں جیسی ہی کرتے رہے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو صرف محبت دینا جانتے ہیں، معکوس رابطوں پہ ایمان نہیں رکھتے۔ جب سے امرتا گئی ہیں انہوں نے بھی برش اور کینوس کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اب حوض خاص والے اس گھر میں جابجا امروز کی بنائی ہوئی امرتا کی تصویریں، سندھی اجرکیں، بلھے شاہ کی خطاط ہوئی کافیاں، مختلف چائے کی پتیاں اور ڈھیروں کتابیں ہر سانس کے ساتھ امرتا کو یاد کرتی ہیں۔ یوں تو یہ گھر چالیس برس کی رفاقت کی بہت سی یادوں سے اٹا پڑا ہے مگر ایک نظم ہے جو امرتا نے خاص امروز کے لئے کہی۔

میں تینوں فیر ملاں گی
کتھے؟ کس طرح؟ پتہ نہیں
شاید تیرے تخیل دی چھنک بن کے
تیرے کینوس تے اتراں گی
یا ہورے تیرے کینوس دے اُتے
اک رہسمئی لکیر بن کے
خاموش تینوں تکدی رہواں گی
(جاری ہے)

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).