احمد نورانی پر ایک اور حملہ: اس مرتبہ کردار نشانہ


احمد نورانی کو پانچ روز کے اندر دو بار ہدف بنایا گیا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو ان پر جسمانی طور پر حملہ کیا گیا جس سے انہیں سر پر شدید چوٹیں آئیں اور تازہ ترین کوشش منگل کے روز ان کے کردار کو ہدف بنا کر ان کی ساکھ کو تباہ کرنے کے لئے کی گئی۔ اگرچہ پہلے واقعے کے حملہ آور اب تک نامعلوم ہیں لیکن وہ جس نے ہتک آمیز معلومات کے ذریعے انہیں بدنام کیا ہے وہ نہ صرف معلوم ہیں بلکہ ان کا تعلق میڈیا کمیونٹی سے ہے۔ ایک غیر معروف سے اخبار نے دی نیوز کے بستر علالت پر دراز تحقیقاتی صحافی کے خلاف بے بنیاد الزامات پر مبنی خبر شائع کر کے انہیں ہدف بنایا ہے۔ اسٹوری میں دعوی کیا گیا ہے کہ اسلام آباد پولیس ایک نامعلوم لڑکی کے ساتھ احمد نورانی کےمبینہ چکر کی تحقیقات کر رہی ہے۔

کہا گیا ہے کہ یہ لڑکی جامعہ کی طالبہ ہے اور اس کے ہم جماعتوں نے ردعمل میں حملہ کیا ہے۔ ایس ایچ او آبپارہ خالد اعوان کا اس من گھڑت اخباری رپورٹ میں حوالہ دیا گیا ہے جیسے معلومات کے مستند ہونے کی تصدیق کی جا رہی ہو۔ جب دی نیوز نے ایس ایچ او آبپارہ سے تبصرے کے لئے رابطہ کیا تو انہوں نے رپورٹ کے مندرجات کو فوری طور پر بکواس قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے اخبار سے احتجاج کیا ہے جس نے نہ صرف زخمی صحافی بلکہ پولیس افسر کو بھی بدنام کیا ہے۔ ایس ایچ او آبپارہ نے اسٹوری میں ان کا حوالہ دینے والے صحافی سے اپنی گفتگو کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے رپورٹر سےا س کی معلومات کے ذرائع کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتانے سے انکار کردیا۔ ایس پی (سٹی) زبیر شیخ نے بھی اسٹوری کے مندرجات کو مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں (اخبارکو) کم سے کم ہمیں اس لڑکی کا نام بتانا چاہیے جسے احمد نورانی سے جوڑا جا رہا ہے ، چاہے وہ اپنے ذرائع کا انکشاف نہ کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نہ تو ایسی کوئی معلومات ہیں اور نہ ہی پولیس اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ یہ رپورٹ صبح سویرے ہی سوشل میڈیا پر پھیل گئی تھی کیونکہ جس اخبار نے اسے شائع کیا ہے، اسے خریدنا تو ایک طرف رہا، اس کا نام پاکستانیوں کی اکثریت نے نہیں سنا ہے۔ مخصوص پس منظر کے حامل اینکرز اور تجزیہ کاروں نے اپنے ٹوئیٹر ہنڈلز اور فیس بک کے ذریعے اور دیگر مشکوک اکاؤنٹس سے اسے پھیلانا شروع کردیا۔ منگل کے روز احمد نورانی کو بیدار ہونے پر فون کالز موصول ہوئیں اور اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنے میں انہیں بڑی عجیب و غریب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ احمد نورانی کو اس کے ساتھیوں سے زیادہ شاید ہی کوئی اور جانتا ہو۔ اس کے خلاف الزامات میں معمولی سی صداقت بھی نہیں۔ وہ پہلا صحافی نہیں ہے جسے اس طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اس طرح کی بدنام کرنے والی مہم ہر اس صحافی کے خلاف شروع کی گئی جس پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا۔ ستمبر 2010 میں میرے اغوا کے بعد بھی ایسی ہی بے بنیاد مہم شروع کی گئی تھی۔
افواہیں پھیلانے والوں نے دعوی کیا تھا کہ ایک لڑکی جس کا نام معلوم نہیں، جلد پریس کانفرنس کرنے والی ہے۔ اس پریس کانفرنس کا سات برس گزرنے کے بعد اب بھی انتظار ہے۔ ایک اور ’’ذرائع کی معلومات‘‘، جو ایک سینئر صحافی کی جانب سے پھیلائی گئی، یہ تھی کہ میں نے کینیڈین امیگریشن حاصل کرنے کے لئے اپنے اغوا کا ڈرامہ رچایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں کبھی کینیڈا نہیں گیا، نہ تو واقعے سے قبل اور نہ ہی بعد میں۔ اسی طرح کے الزامات کا سامنا اعزاز سید کو بھی ہوا جب نامعلوم حملہ آوروں نے ان کے گھر پر گولیاں برسائیں۔ مقتول صحافی سلیم شہزاد کو جسمانی طور پر قتل کرنے کے بعد ان کی کردار کشی بھی کی گئی۔ مبینہ افیئرکے علاوہ غیرملکی ایجنسیوں کے ساتھ ان کے تعلق کے حوالے سے بے بنیاد کہانیاں بھی گردش میں تھیں۔ جیو ٹی وی کے اینکر حامد میر پر بھی افواہوں سے حملہ کیا گیا۔ ان پر عائد کردہ الزامات میں ناجائز افیئرز سے بیرون ملک قیام کرنے تک کے الزامات شامل تھے۔ افواہیں بنانے والی فیکٹریوں نے جنگ گروپ کے گروپ چیف ایگزیکٹو اور ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کی شادیوں اور افیئرز کی من گھڑت خبریں بھی بنائیں۔اس بات کو دس برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ’’نامعلوم‘‘ معلومات کے ذرائع نے اپنے دعوؤں کے حق میں اب تک کچھ بھی پیش نہیں کیا۔

(بشکریہ روز نامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).