غذر کے علی احمد جان کی ناجائز فریاد!


ہوا یہ کہ ایک صحیب نامی صاحب اپنی بیوی کے ساتھ خنجراب گئے۔ انہوں نے وہاں اپنا اور بیوی کا نام پینٹ کیا تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے سند رہے۔ بس اتنی سی بات کو لے کر ہمارے غذر کے دوست علی احمد جان جو یہاں ریڈیو میں کمپئرنگ کرتے ہیں نے واویلا مچا دیا۔ پہلے ذرا علی احمد جان کا کھلا خط پڑھیں جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے

صہیب صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ کے نام کھلا خط۔

محترم صہیب صاحب اور بیگم صاحبہ۔ میرا نام علی احمد جان ہے اور میں خطہء بے آئین گلگت کا شہری ہوں۔ گزشتہ دنوں بابوسر ٹاپ سے خنجراب ٹاپ تک میں نے آپ کے اور آپ جیسے کئی لوگوں مبارک نام دیکھے جو بہت ہی محبت سے لکھے گئے تھے۔ اس میں درج تھا کہ آپ یہاں آچکے تھے۔ آپ کی تشریف آوری کا شکریہ۔ مگر یہ ضروری نہیں جہاں جائیں وہاں اپنا نام لکھ آئیں۔ آپ دوبارہ آئیں ہم دل و جان سے آپ کو خوش آمدید کہیں گے۔ مگر اتنے سنہرے حروف میں جگہ جگہ اپنا نام لکھ کر قدرتی حسن کو گہنا نہ دیں۔ آپ کی طرح اور بھی لوگ ان سیاحتی جگہوں کو دیکھنے آتے ہیں۔ اور اگر تمام اس طرح نام لکھیں گے تو چند سالوں میں گلگت بلتستان کے پہاڑوں اور دیگر مقامات کا کیا حشر ہوگا۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔

آپ کی طرح اور کئی لوگ آتے ہیں ”سیاح“ کا روپ دھار کر۔ اور وہ اپنے نام کے ساتھ اپنے علاقے کا نام اور جس تنظیم سے وابستہ ہیں وہ بھی لکھتے ہیں۔ ہم پہلے ہی ان سیاسی و مذہبی تنظیموں کے کھوکھلے نعروں سے تنگ ہیں۔ اور پھر سنیٹر طلحہ محمود نے اس علاقے میں اپنے نام کی جو چاکنگ کرائی ہیں اسے پڑھ پڑھ کر ہمارا گلگت تک سفر خراب ہوتا ہے۔

میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے گوروں کو گلگت بلتستان میں دیکھا ہے۔ ہر سال غیرملکی سیاحت کے لیے آتے ہیں مگر میں نے آج تک کسی گورے کا نام یا اس کی تنظیم کا نام کہیں لکھا ہوا نہیں دیکھا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ غیر ملکی سیاح صرف جون جولائی میں نہیں آتے۔

ہم آپ کا پھینکا ہوا کچرا اٹھا سکتے ہیں، پلاسٹک کی تھیلیاں بھی ٹھکانے لگاسکتے ہیں مگر جگہ جگہ لکھے آپ نام اور آپ کی تنظیم کے نام (سیاسی و مذہبی، بشمول کھوکھلے نعرے) مٹا نہیں سکتے۔
آپ کی تشریف آوری کا ایک مرتبہ پھر شکریہ۔ میری آپ سے التماس ہے کہ جب آپ اگلی مرتبہ آئیں تو نام نہ لکھیں۔
شکریہ
علی احمد جان٬ گلگت غذر یاسین تھوئی کنو

کے ٹو فتح کرتے ہوئے جاں بحق ہونے والی ایک کوہ پیما خاتون کے بچے ماں کی یاد میں گلگت بلتستان آئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی پتھر پر ایک یادگار تحریر لکھ کر جائیں۔ گلگت بلتستان پہنچے تو احساس ہوا کہ یہاں تو پاؤں کے نشان چھوڑنے سے بھی احساس گناہ گھیر لیتا ہے کہ ایسا خوبصورت طلسماتی پن اور کہاں ہو گا۔ پھر ہوا یہ انہوں ہر جا لاکھوں بکھرے ہوئے پتھروں سےایک پتھر کا انتخاب کیا اور چاقو سے سنگتراشی کر کے“ممیز ماؤنٹین“ لکھا کیونکہ کسی پینٹ وغیرہ سے لکھتے تو دور سے نظر آتا اور گلگت بلتستان کے حسن بے تحاشا و بے ترتیب میں عجب خامی پڑ جاتی۔ بہرحال ہو سکتا ہے آپ کو علی احمد جان کی طرح اس واقعہ نے متاثر کیا ہو لیکن میرا مدعا کچھ اور ہے۔

ممیز ماؤنٹیں والے واقعہ کے چالیس سال بعد ایک اور مہم جو صحیب صاحب اور ان کی بیگم بغیر کسی اضافی آکسیجن کے کار میں بیٹھے الپائن سٹائل کو اپناتے خنجراب جا پہنچے۔ 16000 فٹ پر دونوں میاں بیوی کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کارنامہ ان سے کیونکر سرزد ہو گیا ہے۔ کوہ پیماؤں کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اس قدر بلندی اور قلیل وقت میں ایک دوسرے کی تصویریں کھینچ ڈالیں۔ کم ازکم اب وہ دعویٰ کر سکتے تھے کہ انہوں نے خنجراب سر کیا ہے۔ پھر غالبا بھابی کی نظر ان سیکڑوں دوسرے لوگوں پر پڑی جو دھڑا دھڑ تصویریں لے رہے تھے۔ یقیننا یہ ایک انتہائی پریشان کن لمحہ تھا۔ صحیب بھائی بھی پریشان تھے اور سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ جس بیوی کو وہ پورا راستہ یقین دلاتے رہے کہ ثمینہ بیگ کے بعد اس کرہ ارض پر تم دوسری پاکستانی خاتون ہو جو سطح سمندر سے اس قدر بلند ہوئی ہو وہ دعوے کیا ہوئے۔ خنجراب پر ایک چھچھورا پن جاری تھا۔ نوجوان لڑکے لڑکیا ں اٹکھیلیاں کرتے پھرتے تھے جیسے وہ خنجراب پر نہیں بلکہ مری کی مال روڈ پر ہوں اور خنجراب پر پہنچنا ان کے لیے کوئی حیثیت ہی نہ رکھتا ہو۔
آخر کار فیصلہ کیا گیا کہ کسی جگہ بطور سند نام لکھا جائے۔ انہوں نے نام لکھا اور یوں خنجراب کے ساتھ امر ہو گئے۔

علی احمد جان کو دوسرا مسئلہ سینیٹر طلحہ محمود کے ساتھ ہے۔ ہوا یہ کہ جب پہلی دفعہ سینیٹر طلحہ محمود قراقرم ہائی وے تشریف لے گئے تو وہاں ان کی مدبھیڑ ایک ماہر آثار قدیمہ و مؤرخ سے ہو گئی۔ شومئی قسمت اس مؤرخ نے سینیٹر کو بتایا کہ دریائے سندھ کی عمر لاکھوں سال ہے بلکہ جب یہاں تینوں عظیم ترین پہاڑی سلسلے قراقرم ہندوکش اور ہمالیہ نہیں تھے اس وقت بھی یہ دریا بہتا تھا۔ سینیٹر طلحہ محمود دریائے سندھ کی یہ ڈھٹائی دیکھ کر افسردہ ہو گئے کہ یہ دریا بھلا لاکھوں سال بغیر ان کا نام جانے کیونکر بہتا رہا۔ انہوں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ ان کا نام قراقرم ہائی وے کا کچھ اس طرح حصہ بنا دیا جائے کہ سندھ کی کوئی لہر بھی ان کے نام کا عکس لیے بغیر اس سلیٹی چادر میں واپس گم نہ ہو۔ آج جو سیاح اس سڑک سے گزرتا ہے اس کو احساس ہوتا ہے کہ ان پہاڑوں کے جاہ و جلال، دریا کی روانی اور قراقرم ہائی وے کے عجوبے کے پیچھے ایک ہی شخصیت شامل ہے جن کا نام سینیٹر طلحہ محمود ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود کی اس حرکت کے خلاف سوشل میڈیا پر سیکڑوں تحریکیں چلیں۔ دستخطوں کی مہمات چلیں لیکن سینیٹر طلحہ محمود کا مؤقف کیونکہ اصولی تھا اس لیے انہوں ذرا برابر انحراف نہیں کیا۔

گلگت بلتستان کے ہوٹل مالکان جو ”بدقسمتی“ سے پڑھے لکھے لوگ ہیں انہوں نے بھانپ لیا کہ ہمیں نام امر کرنے میں کس قدر دلچسپی ہے۔ اس لیے ان ہوٹل مالکان نے اپنی ہوٹلز میں چھوٹے چھوٹے ڈھیروں پتھر رکھے کہ کوئی سا بھی خوبصورت پتھر اٹھائیں اس پر نام لکھیں یا پینٹنگ کریں اور نام امر کر کے ہوٹل کی کھڑکی میں رکھ دیں۔ لیکن ہمارے مقامی سیاح دوستوں کو اندیشہ ہوا کہ اس پتھر کو نہ جانے ہوٹل والے سنبھالیں گے یا نہیں اس لیے انہوں نے اس ایجاد پر کچھ زیادہ توجہ نہ دی اور کھلے میں پتھروں اور درختوں پر نام لکھتے رہے۔

علی احمد جان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جیسے ہمارے اور گورے کوہ پیما زندگی میں ایک ہی دفعہ کسی عظیم چوٹی پر جاتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ واپس آتے ہیں کہ یہاں دوبارہ نہیں آ سکیں گے کچھ اسی طرح سے ہمارے مقامی سیاح گلگت بلتستان جاتے ہیں کہ اب یہاں کون کب واپس آسکتا ہے۔ مہم جوئی ایک ہی بار ہوتی ہے بار بار تو نہیں ہوتی تو کیوں نہ نام لکھ کر اس جان پر کھیلی گئی مہم جوئی کو امر کر دیا جائے۔ تاکہ آنے والی صدیوں میں اور کوئی ذی روح آیا تو دیکھے گا کہ وہ پہلا نہیں ہے اس سے پہلے بھی ایک شیر جوان اپنی بیوی کے ساتھ آ چکا ہے۔


اسی بارے میں

سینیٹر طلحہ محمود ۔ شاہراہ قراقرم کے معمار

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik