اراکین اسمبلی عوام کی نمائندگی کریں یا پارٹی کی غلامی؟


پچھلے 68 سال میں پاکستانی قوم کے سا تھ آئینی و قانونی بنیادی حقوق کی فر اہمی کے نا م پر جتنے کھلواڑ کیے گئے ہیں شاید ہی کسی اور جمہوری ملک میں ہوئے ہوں اور اس کی آڑ میں جتنی بھی آ ئینی تر میم آئیں ان کی ملکہ اگر اٹھارہویں ترمیم کو کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ اسے لے کر مجھے ہمیشہ استا د منگو ٹانگے والا اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 یا د آجاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے ہم سب استاد منگو ٹا نگے والا ہیں جو ہر نئے قانون کی منہ دکھائی اور رونمائی پر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ اب خوشحالی آئے گی۔ اب زنجیریں ٹوٹیں گی۔ اب آزادی ملے گی۔ اب انصاف ملے گا۔
آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہربار آگئے

مگر حقیقت میں تو تمام قوانین ایک ہی طبقہ کے مفادات کی حفاظت کے لئے بنتے ہیں اور وہ ہے حکمران طبقہ (کسی بھی شکل میں کسی بھی صورت میں)۔ اب آ پ اس اٹھارہویں ترمیم کو ہی لے لیجیے بنیادی حقوق کی علمبردار یہ ترمیم جس کا کریڈٹ اس کے موجدین اور خالقین لیتے اور چرچا کر تے نہیں تھکتے اصل میں انہی کے مفادات کی محافظ ہے اور اس کیآڑ میں سیاسی پارٹیوں کو پارٹی گردی کی کھلی چھو ٹ مل گئی ہے۔ اور یاد رہے کہ تاریخ میں پہلی بار کسی جمہوری ملک میں جمہوری حکومت تشکیل دینے کے لیے سیاسی پارٹیوں کو اپنے اندر آمریت اور ڈکٹیٹرشپ کا آئینی اور قانونی پرمٹ دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر آئین کا آرٹیکل 63۔ A ملاحظہ ہو جس کی رو سے اگر کسی بھی سیاسی پارٹی کا رکن پارلیمنٹ کی رکنییت کے دوران۔

( A) اپنی سیاسی پارٹی کی رکنیت سے استعفی دیتا ہے اور کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیارکرتا ہے۔ یا
(B) اپنی متعلقہ پارٹی کی ہدایات کے متصادم ووٹ دیتا ہے یا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے۔ یا
مندرجہ ذیل امور میں ووٹ نہیں دیتا یا ووٹ خلاف ہدایات دیتا ہے۔
(i) وزیر اعلی یا وزیر اعظم کا انتخاب
(ii) عدم اعتماد یا اعتما دکا ووٹ
(iii) یا پھر کسی بھی آئینی ترمیم یا مالی بل کے حوالے سے اپنی پارٹی کی ہدایات کے بر عکس ووٹ دیتا ہے

تو پارٹی کے سر براہ کی طرف سے اس کو تحریری طور پر defected قرار دیا جائے گا اور اس کی اطلاع وہ سپیکر قومی یا صوبائی اسمبلی اور چیف الیکشن کمیشنر کو ارسال کرے گا او ر دو دن کے اندر اندر اس کو آگے ریفر کیا جائے گا اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تویہ خود بخود ریفر تصور ہوگا اور چیف الیکشن کمشنر اس case کو کمیشن کے سامنے رکھے گا جو تیس دن کے اندر اس کو کنفرم کرے گا۔ ا ور کمیشن کی کنفر میشن کے بعد متعلقہ ممبر کی پارلیمنٹ کی رکنییت ختم ہو جائے گی اور اگر کمشن کسی پارٹی کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو متعلقہ پارٹی اس کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا حق رکھتی ہے۔ اب اگر غور کیا جا ئے تو یہ با ت واضع ہو جاتی ہے کہ 63/A سیا سی پارٹیو ں کے ذاتی قسم کے مفادات کی حفاظت کے لئے معرض وجودمیں آئی ہے۔ کیو نکہ اس کیرو سے اگر کوئی پارٹی ایک چور، ڈاکو یا کسی بھی کرپٹ اور ایرے غیرے کو وزیراعظم یا وزیر اعلی بنانے کا سوچ لیتی ہے یا کو ئی بھی مالی بل جس کامقصد خواہ عوام کا خون چوسنا، لوٹ مار کرنا، اشرافیہ کے بنک بیلنس کو بڑھا نا، ان کے سیاہ دھن کو سفید کرنا، کو ئی بھی الٹی سیدھی سکیم پا س کروانا، یا پھر عوام دشمنی پر مبنی بجٹ پاس کرانا ہو یا پھر کسی بھی کرپٹ حکمران کے خلاف عدم اعتماد روکنے یا پھر ایک شریف حکمران کے خلاف عدم اعتماد لانے کا سوچ لیتی ہے تو پارلیمنٹ میں موجود پارٹی کے ارکان کو ہر حال میں پارٹی کا حکم ماننا ہوگا۔ بصورت دیگر وہ نہ صرف پارٹی رکنیت بلکہ پارلیمنٹ سے بھی جواب ہی سمجھے۔ اب ایسے میں عوام کی نمائندگی کدھر ہے؟ عوام کے ووٹ کی امانتداری کدھر ہے؟ لاکھوں عوام جو پارلیمنٹ میں اپنی نمائندگی کے لئے ان نمائندوں کو ووٹ دے کر بھیجتے ہیں ان کی نمائندگی کد ہر ہے؟ کو ئی جواب دے گا کہ یہ پارلیمنٹ والے کس کے نمائندے ہیں؟ عوام کے یا پارٹی کے؟ کو ئی جواب دے گا کہ آئین پاکستان کا ابتدا ئیہ (preamble) تو کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کے نمائندوں کے پاس اختیارات اللہ اور عوام کی امانت ہیں اور وہ ان کا استعمال ایک امانت کے طور پر اور پاکستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق کریں گے۔ تو کیا یہ 63۔ A اس کے ساتھ کھلم کھلا تضاد نہیں ہے؟

آئین پاکستان کے اندر دیے گئےبنیادی حقوق میں سے ایک آزادی افکار اور آزادی رائے یا آزادی ووٹ بھی ہے تو کیا یہ ان بنیا دی حقوق کے منافی نہیں ہے؟ بنیادی حقوق کو ایک طرف رکھ دیں، آئین پاکستان کے آ رٹیکل 66 کو لے لیجیے جو کہتا ہے کہ مجلس شوری یا پارلیمنٹ کے ممبران کو مکمل آزادی اظہار حاصل ہے اور ان کی پارلیمیٹ میں دی گئی کسی بھی رائے اور ووٹ کے خلاف کو ئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی تو 63۔ A بذات خود آئین پاکستان کے متصادم نہیں ہے؟

نا صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں کسی بھی قسم کے انتخابات کے لئے رائج الوقت کم و بیش تمام قوانین خفیہ رائے دہی کو اصول کو یقینی بناتے ہیں مگر 63۔ A اس کے الٹ ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ عوام کے ووٹ لے کر ان کی آرزووں، امنگوں، ضروریات مفادات اور حقوق کے امانتدار بن کر آنے والے یہ نمائندے پارلمنٹ میں سیاسی پارٹیوں کے باجگزار بن جاتے ہیں۔ ان کو سیاسی ”بندی“ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟

ایسے میں کہاں ہے اس ملک کی عدلیہ جس کے پاس آرٹیکل 199اور 183کے تحت سو ماٹو پاور بھی ہے کہ وہ بنیادی حقوق کی پہرے دار ہے اور اس کے فرائض میں بھی شامل ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونے دے گی۔ اور اس بات کا حلف عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہر جج اٹھاتا ہے کی وہ آئین پاکستان کی نہ صرف حفاظت کرے گا بلکہ اس میں کوئی ایسی ترمیم نا ہونے دے گا جو اس مقدس آئین کی اصل روح کے منافی ہو۔ اور اس کے لئے جوڈیشل ریویو کی پاور بھی موجود ہے۔ مگر کوئی کچھ نہیں بولتا۔ اس پہ طرح یہ کہ راولپنڈی بار کے کچھ وکلاءنے جب اس شق یعنی 63۔ Aکو چیلینج کیا تو اس پر ایک گول مول فیصلہ آیا (جس پر الگ سے آرٹیکل لکھوں گی) کہ ان وکلاءکے پاس locus standi یعنی اعتراض اٹھانے کا اختیار نہیں ہے اور یہ اختیار پارلیمنٹ کے نمائندوں کے پاس ہے۔ عجیب مذاق ہے کہ جب پارلیمنٹ کے نمائندوں کے کسی فعل کو چیلنج کرنا ہو تو یہ اختیار عوام کے پاس نہیں ہوگا تو کس کے پاس ہوگا؟ اور جب معاملہ بنیادی حقوق اور آئین پاکستان کا ہو تو ہر پاکستانی کے پاس locus standi ہے۔

سیاسی پارٹیوں کی ”پارٹی گردی“ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ اگر ایک نظر ان پارٹیو ں کے مالی معاملات پر بھی ڈال لی جائے تومزید حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل 17(3) ملا حظہ فرمائیے جس کے مطابق ہر پارٹی اپنے فنڈز کے ذرائع کےلئے قانون کے مطابق جوابدہ ہے۔ مگر یہاں پر کون کدھر سے کما رہا ہے اور کدھر لگا رہا ہے کو ئی نہیں جانتا بلکہ نہ کسی کو جاننے کی خواہش ہے اور نہ کسی کو بتانے کی۔ کیونکہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آئے روز بس ایک ہی شور ہے احتساب احتساب اور نیب نیب۔ مگر اس شور کی زد میں کبھی بھی کسی سیاسی پارٹی کے اثاثہ جات یا فنڈز یا پھر اس کے زرائع نہیں آئے اور نہ اس کا حساب کتاب۔ باقی تمام زرائع کو چھوڑ دیں یہاں تو پارٹی کا ٹکٹ تک بکتا ہے۔ جتنی بڑی پارٹی اتنا مہنگا پارٹی کا ٹکٹ۔ مطلب پارٹیو ں میں بھی ہو ل سیل اور برانڈز ہیں۔ چونکہ آج کل انتخابی اکھاڑ پچھاڑکا دور دورہ ہے اس لئے پارٹیوں کی چاندی۔ پہلے امیدواروں کو عہدے بیچے اور اب ٹکٹ۔ الیکشن 2018 کے امیدواروں کے ٹکٹ پر سیل لگی ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ پارٹیاں بڑی شدو مد سے دعوے کرتی ہیں کہ کوئی بھی ٹکٹ اور عہدے بیچے نہیں جاتے اور کسی بھی ٹکٹ یا عہدے کے لئے امیدوار سے کچھ بھی نہیں لیا جاتا۔ مگر جاننے والے اچھی طرح جا نتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ ابھی کل ہی ایک پارٹی میں ضلع چیرمین کے عہدے کے لئے ایک امیدوار بتا رہا تھا کہ اس نے صرف امیدواروں کے لئے پارٹی کی انٹرویو لسٹ میں شامل ہونے کے لئے پارٹی کو 50000 روپے فنڈ میں جمع کرائے ہیں۔ مطلب پارٹی جتنے لوگوں سے انٹرویو لے گی اتنے 50000 جمع ہوںگے اور یہ قیمت درجہ بدرجہ بڑھتی جا تی ہے۔ یہ حال تو بلدیاتی الیکشن کے عہدوں کا ہے صوبائی اور قومی اسمبلی کے الیکشن کا حساب آپ خود لگا لیجیے۔

اور یہ پیسہ لیا کس نام پہ جاتا ہے پارٹی فنڈ یا پارٹی چندہ کے نام پر۔ اس کے لئے باقاعدہ فارم بھروایا جا تا ہے (تاکہ سند رہے اوربوقت ضرورت کام آوے )مگر یہ چندہ صرف امیدواروں سے ہی کیوں لیا جاتا ہے؟ اور یہ ایسا چندہ ہے جو حسب خواہش نہیں حسب حکم لیا جاتا ہے۔ اور جو بندہ دینے کے قابل نہ ہو وہ اس کار خیر یعنی عوامی خدمت کے لئے موزوں امیدوار نہیں ہے (لہذا وہ اپنی اوقات میں رہے)۔ یہ ہے عوام کی خدمت اور ایک جموری نظام حکومت پاکستان چلانے کے لئے خام مال تیار کرنے والی نرسریوں یعنی سیاسی پارٹیو ں کے حال کی صرف دو مثالیں۔
یعنی عوامی خدمت کے مواقع برائے فروخت اور اس پر الیکشن کے اخراجات الگ۔

اب آپ ہی بتائیے کہ اتنے زیادہ اخراجات، نظرآنے اور چڑھاوے دے کر پارلیمنٹ میں آنے والا بندہ اپنے اخراجات پورے کرے گا یا انصاف؟ اور پارٹی کی وفاداری کرے یا عوام کا امانتدار بنتے ہوئے اپنی رکنیت سے ہاتھ دھوئے؟ کو ئی پوچھے ان جمہوریت، انصاف اور بنیادی حقوق کا رونا رونے والوں سے!
ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر
۔ کرسیوں کے چند کیڑے ملک اپنا کھا گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).