کتابی ادرک اور ڈارون کے بندر!


سب سے پہلے اس بات کا ذکر کر دوں کہ جب ہم کتاب کہتے ہیں تو اس سے خدانخواستہ نصاب کی کتاب مطلب نہیں ہوتا۔ اس سے مراد ہر وہ کتاب ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے جو اس وقت ہمارے نصاب میں شامل نہ ہو، بے شک کسی زمانے میں اس کے مضامین ہمارے نصاب کا حصہ رہے ہوں۔ کتاب کا کتاب ہونے کے لئے اس وقت نصاب نہ ہونا شرط اول ہے۔ دوم سوم کچھ بھی نہیں ہے، شرط کے ساتھ اول لکھا ہو تو رعب زیادہ پڑتا ہے۔

کتاب سے تعارف نویں دسویں میں ہوا جب اپنے نصاب کی کتب زہر لگتی تھیں۔ عمران سیریز سے پڑھنا شروع ہوئے۔ بھلا ہو والدہ کا کہ جاسوسی اور سسپنس ڈائجسٹ پڑھتی تھیں سو ہم بھی اپنی نصاب کی کتب اور کاپیوں کے اندر چھپا کر نِک ویلوٹ کی چوریاں، دیوتا اور مختلف کہانیاں پڑھا کرتے تھے۔ اب شکر ادا کرتے ہیں کہ یہ چوری چھپے پڑھتے رہے جس کی وجہ سے میٹرک میں نمبر کم آئے اور ہم ڈاکٹر اور انجینئر بن کر خوار ہونے سے بچ رہے۔

والدہ نے جاسوسی اور سسپنس ڈائجسٹ منگوانا چھوڑ دیا کہ ہم اپنا پڑھتے نہیں تھے، مگر منہ کو خون لگ چکا تھا لہذا نصاب کے علاوہ جو کچھ ملتا پڑھنے بیٹھ جاتے۔ گھر میں مذہبی کتب کی بہتات تھی، اور دوسری کتب مہیا نہیں تھیں تو وہی پڑھ گئے۔ اس دوران اپنی نصابی پڑھائی میں بھی کارہائے غیر نمایاں انجام دیتے رہے (یعنی بمشکل فرسٹ ڈویژن لیتے رہے)۔ صرف کچھ سال ہم نصاب کی پڑھائی میں سنجیدہ ہوئے جب سنجیدہ ہوئے بغیر گزارہ نہیں تھا۔ خیر، جیسے ہی یہ دور کامیابی سے گزرا اور اب تو ہم کمانے بھی لگے تھے، تو پھر پڑھ پڑھ کر ہلکان ہو گئے۔ فلسفے نما کتب اور خالی خولی ناولوں سے ہمیں شروع سے ہی چڑ تھی، لہذا ہلکے پھلکے طنزو مزاح سے راستہ بناتے ہم ابن انشاء، پطرس، یوسفی کو کودتے پھاندتے سنجیدہ تحریریں بھی پڑھنے لگے۔

کتابیں پڑھنے سے ہمیں کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، کم از کم اتنا پکا ہے کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔ جہاں سگریٹ پر اتنا پھونک دیتے ہیں وہاں کتاب بھی سہی۔ ہمارے ارد گرد زیادہ تر دوست یار کچھ نہیں پڑھتے۔ بلکہ حیران ہوتے ہیں کہ ہم اتنا ٹائم کہاں سے نکالتے ہیں حالانکہ ان سب کی بیگمات پھر بھی ان کو ٹائم نہ دینے کے طعنے مارتی ہیں، تو جب طعنہ ملنا ہی ہے تو کم از کم مرضی تو اپنی کرنی چاہئیے۔

ہمارے دوست اور احباب اگر بوجہ مجبوری ہی پڑھنا شروع کر دیں تو بےتحاشہ وجوہات مل جائیں گی۔ کتاب پڑھنے کا مقصد وقت کا سقراط نہیں بننا ہوتا، بلکہ اکثر تو وقت کو کسی طرح گزارنا ہوتا ہے۔ اب یہ ڈھلتی جوانی کھیلوں کے قابل تو رہی نہیں، بچوں کے ہوم ورک کے دوران فلموں کا شوق بھی نہیں پال سکتے تو لے دے کر یا کتاب بچتی ہے یا بیگم کی رام کہانیاں۔ اب آگے آپ کی ہمت، ہم نے تو کتاب کے آگے ہتھیار ڈالنا زیادہ مناسب سمجھا، کم از کم زن مریدی کے طعنے سے تو بچ رہے۔

ہم جب بھی دوستوں کو کتاب پڑھنے پر اکساتے ہیں وہ آگے سے کہتے ہیں کہ یار اگر کتاب ہی پڑھنی ہے تو نصاب کی نہ پڑھ لیں۔ ہم جل بھن کر کہتے ہیں کہ نصاب کی کتاب تو تم لوگوں نے پڑھنی نہیں، اور غیر نصابی اس کی ضد میں ویسے ہی چھوڑے بیٹھے ہو۔ مگر بات وہی کہ بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔

کتاب پڑھنا ایک نشہ ہے، بشرطیکہ نصاب کی نہ ہو، اور اگر آپ اس قسم کے نشئی نہیں ہیں تو آپ زندگی کی اس خمارانہ عیاشی سے محروم ہیں جس کے نشے کا اثر تب ٹوٹتا ہے جب ایک کتاب ختم کرنے اور دوسری شروع کرنے کے درمیان وقفہ ہوتا ہے۔ بچپن میں کتابوں پر لکھا ہوتا تھا ’کتاب بہترین ساتھی ہے‘ جس کو ہم ’لڑکیاں بہترین ساتھی ہیں‘ پڑھتے تھے۔ دونوں قسم کے اشغال کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سیانے ٹھیک ہی کہتے تھے کہ ’کتاب‘ ہی بہترین ساتھی ہے، کم از کم کتاب کی زبان تو نہیں ہوتی نا۔

ویسے زباں کے اساتذہ کو بھی محاورے اور ضرب الامثال سوچ سمجھ کر بنانے چاہئیں۔ کہتے ہیں کہ طالب علم کے لئے کتاب ایک زیور ہے، بس اسی لئے طالب علم سارا سال اس زیور کو لاکر میں بند رکھتا ہے اور صرف فنکشن والے دن (یعنی پیپر کے لئے) اس زیور سے آراستہ ہوتا ہے۔ اب اس طرح جو پود نکل رہی ہے وہ فیس بک اور ٹویٹر پر جا بجا (بقول محمد حنیف صاحب) منہ کے گٹر کھولے بیٹھی ہوتی ہے۔

دیکھیں جی، انہی کتابوں کو پڑھ پڑھ کر ہمیں اردو کے مشکل مشکل الفاظ اور ان کی عبارتوں میں کشیدہ کاری کے کچھ ٹوٹکے آ گئے ہیں اور ہم بھی آ پ کو اردو پر آپ کی گرفت کی کم مائگی کا احساس دلا سکتے ہیں مگر اس سے آپ کتاب پڑھنے کی بجائے مجھے شوخے کا خطاب دے دیں گے۔ خیر، آپ کتاب پڑھیں نا پڑھیں، ہماری حالت کا عکس تو اعتبار ساجد نے خوب کھینچا ہے کہ

جب کتابوں سے میری بات نہیں ہوتی ہے
تب میری رات میری رات نہیں ہوتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).