پیسوں کا لالچی بھوت


جمعرات کا دن گداگروں کا دن ہے اور رات فقیروں اور درویشوں کی رات۔ بزرگوں کے تکیوں پہ آستانوں پہ، درباروں پہ جمعرات کی رات کو خوب چراغاں ہوتا ہے۔ ذکر اذکار چلتا ہے، چلی کشی کی جاتی ہے مست الست فقرا حال کھیلتے ہوئے بے حال ہوتے ہیں۔ نیاز بٹتی ہے، لنگر تقسیم ہوتا ہے۔ ڈھول کی تھاپ پہ کہیں دھمال ہوتی ہے تو کہیں چمٹے کی تال پہ پیروں میں گھنگھرو باندھے درویش خود سے بےخود ہو کر رقص کناں ہوتے ہیں۔ کہیں قوالی چل رہی ہے تو کہیں سے درود سلام کی صدائیں آ رہی ہیں۔

میں گورنمنٹ کالج لاہور میں دوسرے سال میں تھا۔ انٹرمیڈیٹ کے دوسرے سال کیوبییکل کمرے مل جاتےتھے۔ مجھے سترہ نمبر کیوبییکل ملا گراؤنڈ فلور پہ۔ کھڑکی اس کی ہاسٹل کے عقب میں کھلتی تھی جہاں ایک سنسان ویرانہ تھا۔ خودرو جھاڑیوں اور بےہنگم گھاس سے بھرا ہوا۔ ویرانہ ختم ہوتا تو کالج کی باؤنڈری وال آجاتی جس سے پرے چٹرجی روڈ گزرتی تھی جو آگے جا کر کبیر سٹریٹ سے ملتی جو اردو بازار کی طرف جا نکلتی تھی۔ کالج کا ایک متروک گیٹ چٹرجی روڈ پہ کھلتا تھا اس گیٹ کے سامنے ایک مزار تھا اورینٹل کالج کے احاطہ میں، ساتھ برگد کا بوڑھا درخت تھا۔ نہ میں نے کبھی مزار پہ حاضری دی نہ میرے فرشتوں کو پتہ تھا کہ صاحب مزار کون ہیں۔ مزار کے دیواروں میں طاقچے بنے ہوئے تھے، متولی سر شام ان طاقچوں میں رکھے دیوں کو شعلہ دکھا دیتا۔ مدھم لو کے ساتھ وہ دیے جل اٹھتے اور ان کی دھواں دیتی لو پہلے سے سیاہ طاقچوں کو اور بھی سیاہ کر دیتی۔ چونکہ جمعرات کا دن پیروں فقیروں کا دن ہوتا ہے تو جیسے ہی جمعرات آتی مزار پہ خوب گہما گہمی ہوتی۔ رات کو چراغاں ہوتا، دیر تک ڈھول پہ دھمال ہوتی رہتی اس ایک رات کے علاؤہ تمام راتیں گونگی اور چپ راتیں ہوتیں۔

رات ہاسٹل کے اس عقبی ویرانے میں اتنی خاموش ہو کر داخل ہوتی کہ کھڑکی کے پاس بستر پر لیٹے لیٹے دل خودبخود ڈوبنے لگتا۔ اوپر سے یہ بھی مشہور تھا کہ ہاسٹل کی عمارت ایک قدیم قبرستان پر تعمیر کی گئی ہے۔ اس ویرانے پہ بھوت پریت راج کرتے ہیں اور بدروحیں ساری ساری رات آوارہ پھرتی ہیں۔ رات جوں جوں گزرتی کئی خوف خدشے اور وسوسے دل کو گھیر لیتے۔ سناٹا اتنا گہرا ہوتا کہ ہول سا اٹھنے لگتا۔ کبھی کبھار کوئی رکشا گزر جاتا۔ اس کے انجن کی پھٹ پھٹی آواز کچھ دیر کے اس سناٹے کو توڑتی۔ کبھی کبھار تیز ہوا گزرتی تو سوکھے پتے اڑتے اور کھڑکھڑاتے، ہوا کی زد پہ ان سوکھے پتوں کا شور ایک عجیب پراسرار سا راگ الاپتا محسوس ہوتا۔ رات کو کئی بار ایسا ہوتا کہ دروازہ دھڑا دھڑ بج اٹھتا۔ جا کر کھولا تو کوریڈور خالی ہوتا۔ میں اسے لڑکوں کی شرارت قرار دے کر دل کو تسلی دیتا اور کلمے درود کا ورد کرتے ہوئے جوں توں کر کے سو ہی جاتا۔

ایک دن گاؤں سے میرا منی آرڈر آیا، امی نے فیس بھیجی تھی۔ میں نے پیسے گن کر بریف کیس میں رکھے جسے نمبروں والا تالا لگا ہوا تھا۔ بریف کیس کو الماری میں رکھ کر الماری کو بھی تالا لگا دیا۔ شام کو میس سے کھانا کھایا۔ انارکلی چہل قدمی کے لیے نکل گئے۔ واپس آ ئے تو سٹڈی پیریڈ شروع ہو چکا تھا۔ بارہ بجے تک پڑھتا رہا۔ سوکھے پتوں کا شور سنتے پتہ نہیں کب نیند آ گئی۔ صبح اٹھ کر کالج گیا۔ آدھی چھٹی کے وقت سوچا فیس جمع کروا لیتا ہوں۔ ہاسٹل جا کر کمرہ کھولا الماری کھولی، بریف کیس میں دیکھا تو پیسے غائب تھے۔ کبھی ملازم پہ شک ہوتا جس کے پاس کمرے کی چابی تھی پر الماری اور بریف کیس کے تالے اسی طرح سے بند تھے نہ ٹوٹے ہوئے تھےنہ کھلے تھے اور ان کی چابی ملازم کے پاس تھی بھی نہیں۔ کبھی لگتا یہ اس ویرانے میں آباد کسی غیبی مخلوق کی کارستانی ہے جس کے وجود عقل نہ تب مانتی تھی نہ اب مانتی ہے۔ مگر پیسے کہاں گئے یہ عقدہ دماغ آج تک حل نہیں کر پایا۔ جب بھی یہ واقع یاد آئےحیرت کی ایک عجیب سی کیفیت ہے جو طاری ہو جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).