کیا بیرونی ایجنٹوں پر ہی گزارا رہے گا؟


میں جب مئی 2009ء کے ایک دن سہارن پور سے اگلے مقام دیوبند پہنچا تو یوں لگا گویا بگلوں کے شہر میں آن نکلا ہوں۔ جسے دیکھو سفید کرتے پاجامے اور ٹوپی میں تیز تیز چلا جارہا ہے۔ اگر کوئی السلام علیکم کہے تو مغالطہ پکا۔ کم از کم وضع قطع سے تو پتہ نہیں چلتا کہ ان میں کون محمد ریاض ہے اور کون بنواری لال گپتا۔ دیوبند کی لگ بھگ ایک لاکھ کی آبادی میں آدھے مسلمان ہیں تو آدھے غیر مسلمان۔ ہندو مسلم کشیدگی؟ یہ کس جانور کا نام ہے؟ میرے میزبان ہیڈ ماسٹر روپ چند نے بتایا کہ باہر کے ہندو ہماری وضع قطع، رہن سہن اور رکھ رکھاؤ کے سبب دیوبندی ہندو کا طعنہ دیتے ہیں مگر ہم اس طعنے کو ایک تمغے کے طور پر لیتے ہیں۔ کبھی آپ سردیوں میں آئیے یہاں شہر سے باہر میلہ لگتا ہے۔ کہنے کو تو ہندوؤں کا ہے پر شرکت میں مسلمان بھی اتنے ہی ہوتے ہیں بلکہ اکثر زیادہ ہی ہوتے ہیں۔ شیخ الہند حضرت مولانا حسین احمد مدنی مرحوم کے پوتے محمود مدنی صاحب نے بتایا کہ بھائی آپ آموں کے موسم تک اگر یہاں رہیں تو بہت اچھا ہوگا۔ سالانہ دعوتِ آم میں جامع مسجد کے صحن میں قصبے کے تمام عمائدین بلا تفریقِ مذہب و ملت شریک ہوں گے تو سب سے ملاقات ہوجائے گی۔ دیوبند میں دو دن گزار کے جب میں دلی کی ٹرین میں سوار ہوا تو ایلس ان ونڈر لینڈ بن چکا تھا۔

کلکتہ پہنچ کے معلوم ہوا کہ مغربی بنگال کے طول و عرض میں دینی مدارس کھلے ہوئے ہیں۔ ان کا انتظام مدارس کا ایک ریاستی بورڈ کرتا ہے۔ مارکسسٹ حکومت ( 1909ء ) ان مدارس کو مالی امداد بھی دیتی ہے۔ کئی مدارس میں ہندو بچوں کی تعداد مسلمان بچوں سے دگنی تگنی ہے۔ نصاب میں سیکولر مضامین اور عربی اور دینیات شامل ہیں۔ امتحان سب بچوں کو سب مضامین میں پاس کرنا پڑتا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دو ہزار برس سے آباد لاکھوں کشمیری پنڈت 1991ء کے ایک دن گورنر جگ موہن کے بہکاوے میں آ کر گھروں کو چھوڑ گئے کیونکہ شدت پسندوں نے چند پنڈتوں کو قتل کردیا تھا۔ اننت ناگ کے ایک چوبارے پر رہنے والے معمر پنڈت جوڑے سے ملاقات ہوئی۔ چاچا کمل ناتھ کول نے بتایا کہ یہاں سے سب پنڈت جموں اور دلی چلے گئے۔ ہم بھی چلے گئے۔ مگر پھر محلے کی محبت میں مجبور واپس آگئے کیونکہ مسلمان ہمسائے چٹھی پہ چٹھی بھیجتے تھے کہ اگر تم بھی نہیں آؤ گے تو ہماری ناک کٹ جائے گی کہ کیسے مسلمان ہیں جن کے درمیان ایک ہندو تک نہیں ٹک سکتا۔ تم بھلے زندگی بھر نہ آؤ مگر تمہارا مکان ہم کسی کو نہیں خریدنے دیں گے۔ تم ہی آؤ گے تو تالہ کھولو گے۔ ہمارے دونوں بچے دلی میں سیٹ ہیں مگر ہمیں کوئی فکر نہیں۔ سارا محلہ ہمارے بچوں جیسا ہے۔ اب انتظار ہے کہ بی ایس ایف ( بارڈر سیکورٹی فورس ) والے ہمارے گھر کے سامنے سے چوکی ہٹائیں تو اس چوبارے کے ایک کمرے کی قید سے نکلیں۔ اس دوران آنٹی کول نے جو پراٹھا گھر کے اچار کے ساتھ میرے آگے چوبی تخت پر پروسا‘ اس کی خوشبو آج پانچ برس بعد بھی نتھنوں سے نہیں جاتی۔

مشرقی دلی کی نیم متوسط ملی جلی بستی ترلوک پوری میں زیادہ تر وہ خاندان آباد ہیں جو 1976ء میں پرانی دلی کو غیرقانونی تعمیرات سے صاف کرنے کے سنجے گاندھی کے جنون کا شکار ہوئے تھے۔ دو ہفتے پہلے اسی ترلوک پوری میں شراب میں دھت چند نوجوانوں میں جھگڑا ہوا اور پھر ہندو مسلم فساد میں بدل گیا۔ ایک مسجد کو آگ لگی۔ قریباً ستر لوگ اینٹوں پتھروں سے زخمی ہوئے۔ پینتیس چالیس برس میں جب سے یہ بستی بنی ہے پہلی بار فرقہ وارانہ جھگڑا ہوا۔ تب سے ترلوک پوری میں لگ بھگ ایک ہزار پولیس والے متعین ہیں۔ قریبی علاقے بوانہ میں مقامی بی جے پی قیادت نے مقامی کانگریسیوں کے ساتھ مل کے عام لوگوں کی ایک مہا پنچائت بلائی جس نے مطالبہ کیا کہ دس محرم کا جلوس ان راستوں سے نہ گزرنے دیا جائے جہاں ہندو آبادی اکثریت میں ہے۔ چنانچہ جلوس کا روایتی روٹ چھوٹا کردیا گیا مگر ترلوک پوری میں بلوے کے بعد تشکیل پانے والی مشترکہ امن کمیٹی والوں نے عجب حرکت کی۔ انہوں نے پولیس ہائی کمان سے کہا کہ آپ کو چنتت ہونے کی ضرورت نہیں۔ محرم کا جلوس ترلوک پوری میں ہرسال کی طرح اس دفعہ بھی نکلے گا اور ہندو رضاکار جلوس کے آگے پیچھے چلیں گے۔ اور پھر ترلوک پوری میں عاشورے کا روایتی جلوس نکلا اور کچھ بھی نہ ہوا۔

پاکستان میں تمام قابلِ ذکر سیاسی و مذہبی جماعتیں کسی اور نکتے پر متفق ہوں نہ ہوں اس پر بہرحال متفق ہیں کہ اس ملک میں کسی فرقے میں کسی فرقے کے خلاف متعصبانہ جذبات اگر ہیں بھی تو اس سطح کے نہیں کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوجائیں۔ اگر کوئی شرپسندی، قتل و غارت یا دہشت گردی ہوتی بھی ہے تو اس کی ذمہ دار بیرونی قوتیں اور ان کے خفیہ ہاتھ اور ان کے زرخرید ایجنٹ اور ان کے ہاتھوں گمراہ مٹھی بھر عناصر ہیں۔ ان کا ایجنڈا قومی و فرقہ وارانہ اتحاد پارہ پارہ کرکے عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت کو کمزور کرنا ہے۔

اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس بیرونی ایجنڈے کو ناکام کیسے بنایا جائے؟ چلئے بطور پائلٹ پروجیکٹ ایک لٹمس ٹیسٹ کرتے ہیں۔ آنے والے ربیع الاول کے جلوس کی حفاظت فی الحال پورے پاکستان میں نہیں صرف لاہور اور کراچی میں شیعہ نوجوان رضاکار کریں گے۔ لاہور اور کراچی میں اگلے برس دس محرم کے جلوسوں کا تحفظ دیوبندی اور بریلوی علما کے پیروکاروں اور شاگردوں کی ذمہ داری ہوگی۔ پولیس سمیت سکیورٹی دستے صرف معاون کردار ادا کریں گے۔

آئندہ کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی پر حملہ ہوگا تو کوئٹہ کے شہری احتجاجی دھرنے، جلوس یا جلسے میں اجتماعی شریک ہوں گے۔ شیعہ اور غیر شیعہ علما جاں بحق افراد کا ایک ہی مقام پر باری باری نمازِ جنازہ پڑھائیں گے اور کوئٹہ کی تمام کاروباری انجمنیں متاثرین کے محض روایتی مذمت کے بجائے مالی نقصان کا اجتماعی ازالہ کریں گی۔

تمام مسلمان ارکانِ پارلیمان و صوبائی اسمبلی 25دسمبر اپنے اپنے مسیحی ووٹروں کے ساتھ گزاریں گے اور کرسمس کیک کاٹیں گے۔ ہولی کے اگلے تہوار میں ہندو ووٹروں کو تحائف بھیجیں گے اور تحائف قبول بھی کریں گے اور چھوٹی و بڑی عید پر پڑوس میں کوئی غیر مسلم پاکستانی آباد ہے تو اسے عیدین پر الگ تھلگ نہیں رہنے دیں گے۔

اگلی عید پر تمام عید گاہیں‘ بیت اللہ اور مسجدِ نبوی کی طرح تمام مسلمانوں پر بلا امتیاز کھول دی جائیں گی۔ جو چاہے ایک ہی صف میں ہاتھ باندھ کے اور نہ چاہے ہاتھ کھول کے نماز پڑھے یا ایک مسلک کی نماز ختم ہونے کے بعد اسی جگہ اپنی نماز کا اہتمام کرلے۔

اگر تم نے یہ بھی کرلیا تو بھی کچھ نیا نہیں کرو گے۔ بس خود پہ کرم کرو گے۔ 1970ء تک کا پاکستان عمومی مزاج میں کم و بیش ایسا ہی تھا۔ شک ہو تو کسی بھی ساٹھ برس سے اوپر کے آدمی سے پوچھ لو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).