صفائی کے نظام کی نجکاری اور اقلیتوں کے حقوق


دہشت گردی، کرپشن اور خود کش حملوں کے علاوہ بھی چند ایک ایسے مسائل ہیں جو کہ اکثر اوقات وطنِ عزیز پاکستان کی جگ ہنسائی اور بدنامی کا موجب بنتے رہتے ہیں ۔ ان میں صنفی ناہمواری، جنسی ہراسانی اور جنسی تشدد اور اقلیتوں کے حقوق کے مسائل شامل ہیں۔ ان سب مسائل کی وجہ سے بھی پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر کافی بدنامی کا سامنا کرنا پڑٹا ہے کیوں کہ ہمارے ہاں ان سے متعلق واقعات کافی تواتر سے پیش آتے ہیں اور بین الاقوامی رپورٹیں پاکستان میں ہونے والے ایسے واقعات سے بھری ہوتی ہیں ۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ ماسوائے ایک محدود اقلیت کے، پاکستان میں اکثر لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد میں اپنی زندگیاں بِتا دی ہیں اور بہت نام بھی کمایا ہے۔ اسی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج ان مسائل پر کافی آگہی موجود ہے اور مجموعی طور پر ان کی حل کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ حکومت نے بھی قومی اور صوبائی سطح پر قانون سازی کرکے ان مسئلوں کے حل کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔

مگر بد قسمتی سے چند لوگ ان مسئلوں پر قومی اور بین الاقوامی حسّاسیت کو جانتے ہوئے انہیں اپنی ذاتی مفادات کے حصول کے لئے یا ان کے تحفظ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے اُن کا مقصد حاصل ہو نا ہو اُس کاز کو بہت نقصان پہنچتا ہے جس کے پیچھے لوگوں نے اپنی زندگیاں صرف کی ہوتی ہیں۔ اس کی ایک مثال میں نے آج اسلام آباد میں لگے ہوئے چند بینرز پر دیکھی۔ یہ بینر سی ڈے اے کے سینٹری ورکرز کے یونین لیڈرز کی جانب سے اسلام آباد میں کوڑے کرکٹ کے جمع کرنے اور اس ٹھکانے لگانے کے نظام کی نجکاری کے خلاف لگائے گئے تھے۔ اسلام آباد کا یہ نظام اس کے اہلکاروں کی نا اہلی کی وجہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اس لئے مجبوراً حکومت کو یہ فیصلہ کرنا پڑا۔ ایسا عمل بہت سے اداروں میں ہو چکا ہے کیونکہ ادارے عوامی مفاد کے لئے قائم کیے جاتے ہیں اور اگر وہ اپنا مقصد پورا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو انہیں یا تو ختم کر دیا جاتا ہے یا ان کی نجکاری کر دی جاتی ہے۔ سینٹری ورکرز کو پورا حق ہے کہ اس عمل کی مخالفت کریں اور اپنے مفادات کا تحفظ کریں۔ مگر ان بینروں پر لکھا تھا کہ نجکاری کر کے مسیحی کارکنوں کی حق تلفی کی جا رہی ہے اور یہ کہ صرف مسیحی کارکنوں کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے ۔ یعنی اس مسئلے کو اقلیتوں کے حقوق کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے یا یوں کہیں کہ اس نجکاری کو مسیحی قوم کے کارکنوں کے خلاف ایک سازش کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں اداروں یا ان کے چند حصوں کی نجکاری کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان میں بہت سے اداروں کی یا ان کے حصوں کی یا تو نجکاری کی چکی ہے یا انہیں مکمل طور پر ختم کیا جا چکا ہے۔ یہ صرف ایک انتظامی مسئلہ ہے اور ایک نظام کی ناکامی کا منطقی نتیجہ ہے۔ مگر چوں کہ یونین لیڈرز کو معلوم ہے کہ پاکستان بیچارہ ویسے ہی اقلیتوں کے حقوق کے معاملے میں بین الاقوامی طور پر بہت بدنام ہے لہذا اس مسئلے کو مسیحوں کے حقوق کے ساتھ جوڑ کر حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب یہ کوشش کامیاب ہو یا نہ ہو اگلی بار جب کبھی کہیں واقعی اقلیتی کارکنوں کے حقوق کا مسئلہ درپیش ہوگا تو تو یہ واقعہ یا کوشش ایک غلط مثال کے طور پر ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔

سی ڈے اے کے صفائی کے نظام کی نجکاری کا مسئلہ ہو یا کوئی اور مسئلہ، وہ صرف اس لئے اقلیتوں یا کسی گروہ کے حقوق کا مسئلہ نہیں بن جاتا کہ اس کی وجہ سے متاثر ہونے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق ایک گروہ سے ہے۔ یہ اس وقت حقوق کا مسئلہ بنتا ہے جب جان بوجھ کر اس گروہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ ماضی میں جب پنجاب اربن ٹرانسپورٹ کی نجکاری کی گئی تو کیا یہ پنجابیوں کو ٹارگٹ کیا گیا تھا یا کبھی مستقبل میں واپڈا کو نجکاری کی عمل سے گزارا گیا توکیا یہ پٹھانوں کے خلاف سازش ہو گی؟ ہر گز نہیں۔ کسی بھی سرکاری ادارے کے قیام کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے عوام کی خدمت اور سہولت۔

بد قسمتی سے پاکستان میں اکثر سرکاری ادارے عوام کی خدمت اور سہولت کی بجائے کام چوری اور بد عنوانی کا گڑھ بن چکے ہیں۔ سی ڈی اے بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ حالت صرف اس سیکشن کی نہیں جو کہ صفائی کا ذمہ دار ہے بلکہ سارے سی ڈی اے کی یہی حالت ہے مگر چونکہ نزلہ ہمیشہ کمزوروں پر گرتا ہے اس لئے سب سے پہلے سینٹری ورکرز کے سیکشن کو ختم کر دیا گیا۔ اگر اس سیکشن میں مسلمان بھی ہوتے تو بھی یہی ہوتا۔ اگر اعتراض کرنا ہے تو اس بات پر کیا جائے کہ نا اہل تو سب ہیں سارا سی ڈی اے ہی ختم کیا جائے۔ مگر اپنے مفاد کی خاطر اسے اقلیتوں کے حقوق کا مسئلہ نہ بنائیں۔ اس نعرے سے ہونی رکنی تو ہے نہیں ہو گا صرف یہ کہ اقلیتوں کے حقوق کی مہم کی ساکھ خراب ہو گی ۔ پاکستان میں اسی طرح ان مخالفوں کو اچھی مہموں کو بدنام کرنے کا موقع ملتا ہے جو ان کاموں میں روڑے اٹکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

اقلیتوں کی حالت پاکستان میں بہت بری ہے اور پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں اقلیتوں کے حقوق بت زیادہ پامال ہوتے ہیں۔ بڑی مشکل سے اس سلسلے میں کچھ کام شروع ہوا ہے۔ ہمیں اقلیتوں کے حقوق کے جینوئن مسائل کی نشاندہی کرنی ہے اور ہر اقلیتی بھائی اور بہن کو تحفظ کا احساس دلانا ہے مگر یہ ان کو ناجائز فوائد دے کر ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ہمیں ان کو حقوق دینے ہیں جو ہمارے آئین اور قانون نے انہیں دے رکھے ہیں اور ان کو وہی مل جائیں تو وہی ان کے لئے کافی ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).