امیروں کے شوق نرالے


خبر نشر ہوئی۔ بلکہ یوں کہیے کہ بس شر ہوئی۔ کہ قونصلاتی معاملات کی وجہ سے ہزاروں ڈالر کی خوارک کسی بارڈر پہ ضائع ہوگئی۔ پھر مملکت خداداد میں کسی آفاقی حکومت کے صدقے، گورنر ہاوس میں 60 کروڑ کی بناوٹ اور سجاوٹ دیکھنے کو ملی۔ بلکہ یوں کہیے آنکھیں سینکنے کو ملی۔ بیت الخلا سونے کا اور پیتل کا لوٹا دیکھ کے طبعیت نے یوں ہچکولہ کھایا کہ یک لخت علامہ مارکس یاد آگئے اور جھٹ دل میں آیا۔ ہونہہ۔ یہ امیر لوگ۔

پھر ہم اپنے کھانے کی ٹیبل پہ چل دیے۔ سخت بھوک لگ رہی تھی اور ہم ڈائیٹنگ کر رہے ہیں۔ جی، وہ دراصل ہمارے قریبی رشتےداروں میں ایک شادی ہے اور ہم دم لگا کے وزن کم کرنے پہ تلے ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، اتنے دن ہوگئے ہیں بریانی حلق سے نہیں اتاری۔ کتنی بھاری قربانی دینی پڑتی ہے نہ سب کے سامنے امپریشن بنانے کے لئے۔

گھر سے کسی کام سے نکلے تو تپتی گرمی میں دیکھا کہ کچھ مزدور کام کر رہے تھے۔ دل کے اندر کا کارل مارکس پھر انگڑائی لینے لگا اور ہم نے پھر زمانے کی کمظرفی اور معاشرے کی کمی بیشیوں پہ افکار کے گھوڑے دوڑائے۔ اور چونکہ گرمی بہت تھی اس لئے گاڑی کا اے سی اور تیز کیا تاکہ غریب آدمی کی بقا کے بارے میں سوچنے میں کچھ آسانی ہو۔

جب دکان میں پہنچے تو اپنی من پسند ساڑھی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مختلف رنگوں کے اور کپڑے بھی دیکھے۔ جب دکاندار نے بل دکھایا تو ہم نے پھر بہت برہمی کا مظاہرہ کیا۔ غریب کی کیا غربت ہوگی جو اسوقت ہماری جیب پہ طاری تھی۔ بھلا چار ساڑھیوں کی قیمت اتنی زیادہ؟ جب دکاندار نے ہم سے عاجز آ کے کچھ رقم کم کی تو ہم نے اپنے آپ کو تھپکی دی کہ ہم نے تو بھئی اپنی قوت گفتار سے کمال ہی کر دیا۔

باہر نکلے تو ٹریفک میں بری طرح پھنس گئے۔ سامنے ایک وین والے بھائی آگئے جو خراماں خراماں چلے جا رہے تھے۔ ہم نے لاکھ دفع کوشش کی کہ اوورٹیک کر لیں مگر ٹریفک نے اجازت نہ دی۔ نتیجتاً ہم تلملا کے آہستہ آہستہ اس وین کے پیچھے لگے رہے۔ جونہی موقع ملا، تیزی سے نکل گئے۔ اور غصے سے وین کے ڈرائیور کو دیکھا۔ ایک بوڑھا سا شخص گاڑی چلا رہا تھا اور بیک وقت راستہ بھی ڈھونڈ رہا تھا۔ ہونہہ۔ پتہ نہیں کیوں آجاتے ہیں لوگ سڑک پہ ایسے گاڑی چلانے۔

گھر واپسی پہ خیال آیا کہ گھر میں کھانے کی کچھ اشیاء بھی موجود نہیں۔ تو دوسری دکان کا رخ کیا۔ سامان کا بھاؤ دیکھ کے تو آسمان کو صدا پہنچی۔ اے اللہ تو نے ہمیں اتنا غریب کیوں بنایا۔ کہ ہم انڈے خریدنے کے لئے بھی سوچتے ہیں کہ سستے کونسے ہیں۔ آلووں کے دام کب کم ہوتے ہیں۔ ایک خریدو ایک مفت کی آفر کب لگتی ہے۔ کاش ہم فراوانی سے انڈے لے سکتے۔ سیر ہو کے آلو خریدتے۔ برتن دھونے والے صابن پہ چھوٹی ٹکیہ فری ملتی ہے یا نہیں، یہ کبھی نہ سوچتے۔

جب گھر میں داخل ہوئے تو موبائیل پہ ایک میسج پڑھا۔ کسی لڑکی کو کینسر ہوگیا ہے۔ اس کو امداد کی ضرورت ہے۔ تین لاکھ روپے سے اس کا علاج ممکن ہے۔ ہمارے قدم ایک منٹ کو ٹھہر گئے اور اپنے گزرے دن کو پیچھے مڑ کر دیکھنے لگے۔ ہم بھی کیا گفتار کے غازی رہے۔ اپنی اس بےکار سی زندگی میں ہم نے سوائے اپنی عظمت اور دوسروں کی حقارت کو ناپنے کے علاوہ کیا کیا؟ ہمارے عظیم افکار سے کس غریب کی دنیا بدل گئی؟ اس بلاگ کو لکھنے دے کتنے سرطان کے مریضوں کا علاج یوگا؟ ایک بھی نہیں۔

سچ یہ ہے صاحب کہ ہم جیسے لوگوں کے پاس باتوں کے علاوہ کچھ ہے بھی تو نہیں۔ نہ شاہ رخ خان کی طرح عالیشان محل ہے جس کے باہر لوگ لائن لگایے کھڑے ہوں۔ نہ ہم چالیس ڈگری سینٹی گریڈ میں کام کرنے والے مزدور ہیں۔ ہم ہیں ایک عجیب سی مڈل کلاس جس کی ساری عمر پیسہ جوڑنے میں لگ جاتی ہے اور جب وہ بوڑھی ہوجاتے ہے تو ایک نئی مڈل کلاس پود جنم لیتی ہے۔ جو پھر انہی تحریروں کو پڑھ کے نظام بدلنا چاہتی ہے۔ مگر تعلیم، گھر، نوکری تک یہ تمام اونچے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
ہم نے اس لڑکی کو پیسے نہیں دیے۔ ہم سستے آلو خرید کر آگئے۔ غربت پہ ایک بلاگ لکھنے بیٹھ گئے۔ اور ساتھ ساتھ یہ سوچ رہے ہیں۔ کاش ہماری لاٹری ہی نکل آئے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).