ڈاکٹر خالد سہیل اچھے آدمی ہیں!


عزیر دوست وقار ملک، مجھے تمہاری درست عمر معلوم نہیں لیکن گمان کیا جا سکتا ہے کہ میں اور تم ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ ہمارا مدارِ تعلق سوال سے محبت اور حیرت کی کشش ہے۔ یوں ہمارے مزاج کی نچلی ترین تہوں میں ایک ہی مٹی موجود ہے، لیکن اس سے بالا پرتوں میں ہمارے ذہنی رجحانات ایک دوسرے سےقدرے مختلف ہو جاتے ہیں۔ تم سوالوں کے ساتھ ساتھ حتمی جوابوں کی جستجو پر بھی مائل ہو۔ میرے لئے جوابوں سے زیادہ جوابوں کی ماہیت اور سوالوں سے ان کا جدلیاتی تعلق زیادہ کشش رکھتا ہے۔

ہم دونوں بہرحال کسی نہ کسی شکل میں ’’ریاضیاتی انسان‘‘ ہیں، لیکن جہاں تمہارے لئے ریاضی دلیل کی تراش خراش اور اسے استحکام دینے کے لئے مال مسالہ فراہم کرتی ہے، میرے لئے وہ حقیقت اور حقیقت کی خاکہ بندی کے درمیان ایک پُراسرار مابعدالطبیعاتی تعلق فراہم کرتی ہے۔ ہماری مختصر ملاقاتوں میں ہمیشہ تم نے ہی میری نفسیاتی تحلیل کی ہے، کبھی مجھے اس کا موقع نہیں دیا، لہٰذا کبھی پوچھنے کا اتفاق نہیں ہوا، لیکن مجھے یقین ہے کہ میں کچھ نظری تجربات سے ثابت کر سکتا ہوں کہ تم ریاضیات میں رسمیت پسند ہو اور میں فلاطونیت پسند۔ اگر مکالماتِ افلاطون کو نفسیاتی تہوں میں عینیت پسندی کی جانچ پڑتال کے لئے استعمال کیا جائے تو گمان ہے کہ تمہارا پسندیدہ مکالمہ ’’یوتھائفرو‘‘ ہو گا اور میرا تو خیر ہے ہی ’’مجلسِ طرب‘‘۔ ہم دونوں کا ذہنی بکھراؤ بظاہر تو انحراف پر مائل ہے، لیکن یہ ایک ایسا عددی سلسلہ ہے جو لامتناہیت پر جا کر مرتکز ہو جاتا ہے۔ ریاضیاتی زبان میں ہم دونوں ایسے ثبات پذیر انضباطیاتی نظام ہیں جوبظاہر اپنی ذات کے مقامی حصوں میں بے شمار بے ثباتیاں رکھتے ہیں۔ تمہیں خوفِ حصار ہے اور میں بالا ترس واقع ہوا ہوں۔

(مجھے یہ جان کر حیرانی نہیں ہوئی کہ تم نےبچپن میں ’’شاہین‘‘ دیکھ کر فصلوں کا کیا حال کیا، لیکن مجھے اینجلا، بدر بن مغیرہ اور ربیعہ کی تکون پسند تھی ۔ کیا وہ واقعی ایک تکون تھی؟ یا یہ محض کوئی فرائیڈین جبلت تھی؟ کیا یہ میری دبی دبی خواہش تھی کہ بدر بن مغیرہ ربیعہ کی بجائے اینجلا سے عشق کرے ؟ کیا میں خود کو بدر بن مغیرہ سمجھتا تھا اور اینجلا پر فریفتہ تھا؟)

ہم دونوں کی نفسیاتی ساخت میں ایک اور قدرِ مشترک تجزیےکی کشش ہے۔ لیکن جہاں میرا تجزیہ ایک ناگزیر لامتناہیت رکھتا ہے تمہیں امید ہے کہ تمہارا تجزیہ بالآخر ختم ہو جائے گا ۔ یوں تم منزل کے شیدا ہو اور میں راستے کا شیدائی۔ فکر و عمل میں علت و معلول کا فطری رشتہ تم میں شدت کے درجے پر ہے، لیکن میں خود کو فکر و عمل میں سمجھوتے پر مجبور پاتا ہوں۔ میری تشکیک مجھے مزید تجربے پر اکساتی ہے، تجربے کے نتائج مجھے مزید سوال اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں اور پرانے سوالوں کی ساخت تبدیل کر کے انہیں نئی شکل دے دیتے ہیں۔ یوں میرے اعتقادات صرف مسلسل تبدیل ہی نہیں ہوتے رہتے بلکہ اس تسلسل کی لامتناہیت ہی میرا اعتقاد ہے۔ تمہاری تشکیک بھی تمہیں تجربے پر اکساتی ہے لیکن تجربے کے نتائج تمہارے اعتقادات کو کہیں نہ کہیں استحکام فراہم کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس استحکام کے بعد تم مزید جوابوں کی جستجو نہیں کرتے کیوں کہ پرانے سوالوں کی تسکین ہو جاتی ہے اور نئے سوال تمہارے منتظر ہوتے ہیں۔ مجھے سوالوں کی جانب لوٹنا ہی پڑتا ہے۔ کوئی بھی پرانا سوال میری جان نہیں چھوڑتا۔

قصہ مختصر، مجھے تم سے شدید اختلاف ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل ایک اچھے آدمی ہیں۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں ڈاکٹر صاحب کو بہت زیادہ عرصے سے نہیں جانتا، لیکن میرا دعوٰی ہے کہ وہ یقیناً ایک اچھے آدمی ہیں۔ اُن سےمیرا واحد تعلق انٹرنیٹ کے جہانِ برق میں کچھ اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے متن اور دو چار تصاویر کا ہے۔ تصویر میں ان کے چہرے پر ایک بھرپور مسکراہٹ ہے۔ میرا دعویٰ کسی تجربے، تعقلی استدلال اوربراہِ راست مشاہدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس اندھے اعتقاد کی بنیاد پر ہے کہ یہ مسکراہٹ سچی ہے۔ مجھے اس مسکراہٹ میں جذبے کی پاکیزگی نظر آتی ہے۔ میں نے انہیں کبھی نہیں چھوا، لیکن میں خود کو ان کے گرد پائے جانے ایک محبت کے ہالے سے بغل گیر پاتا ہوں۔ یہ ہالہ بیک وقت منقسم و غیر منقسم ہے۔ منقسم کہ ان کے چاہنے والوں میں محبت مستقل تقسیم ہو رہی ہے اور غیرمنقسم کہ ان تمام چاہنے والوں کے گرد بھی محبت کا ایک جسیم، مرکز مائل دائرہ تخلیق کر رہی ہے۔ میں جب اپنے اس اعتقادیت پسند دعوے کی گہرائی کو تشکیک پسند نگاہ سے دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا اعتقاد رتّی برابر بھی متزلزل ہوتا محسوس نہیں ہوتا۔ میں تمہاری تمام عقلی دلیلوں کو پورے زور سے ردّ کرتا ہوں ۔ میں کیسے مان لوں کہ وہ ایک اچھے انسان نہیں!

تم ہی بتاؤ یہ کیا ماجرا ہے؟ میں جانتا ہوں تم جلد ہی کوئی ارتقائی توجیہہ تلاش کر لو گے۔ کیا میرا یہ اعتقاد کہ ڈاکٹر خالد سہیل ایک اچھے انسان ہیں مذہبی یا نیم مذہبی اعتقاد ہے؟ اس اعتقاد کو کس قسم کے سائنسی، نیم سائنسی یا تجرباتی حقائق متزلزل کر سکتے ہیں؟ بالفرض میں تمہارے تمام تجرباتی ثبوت مان لوں اور یہ تسلیم کرنے پر مجبور بھی ہو جاؤں کہ ڈاکٹر صاحب ایک اچھے انسان نہیں، تو تمہارے دلائل کے آگے یہ بے بسی،یہ مجبوری، یہ اعترافِ عاجزی میرے دل کی کایا بھی پلٹ دے گا؟ میں کیا کروں کہ میرا دل نہیں مانتا ؟ میرے دل کے کسی گوشے میں میرا اعتقاد پھر بھی سر اٹھاتا رہے گا۔ محبت یقیناً اندھی ہوتی ہے اور مجھے تو فی الحال ڈاکٹر صاحب سے محبت بھی نہیں۔ میرا اعتقاد محبت سے نہایت کم تر درجے کا ہے۔ میں تو صرف اس پھیلتے ہوئے پُراسرار ہالے کا شکار ہوں۔ سو میں ایک نیم ریاضیاتی قطعیت کے ساتھ یہ دعوٰی کر رہا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب ایک اچھے انسان ہیں اور یقین رکھتا ہوں کہ تمہاری کوئی بھی تجرباتی یا تاریخی دلیل مجھے قائل نہیں کر سکتی کہ واقعہ اس کے برعکس ہے۔

کیا میں کسی دقیانوسی’’ چشمِ باطن‘‘ کے جھانسے میں تو گرفتا ر نہیں ہو گیا؟ کیا میں اپنی نفسیاتی تہوں میں اعتقاد کے ساتھ وجدان، ادراک، تجربہ اورمشاہدہ جیسے متغیرات اور عوامل کا تال میل دیکھنے پر قادر ہوں؟ مجھے شک ہے کہ کیا میں اپنے اعتقادات کو واقعی ’’مذہبی‘‘ اور ’’غیرمذہبی ‘‘ میں تقسیم کر سکتا ہوں؟ میں مسلسل اس مریضانہ شک میں گرفتار ہوں کہ میں خود سے ناواقف ہوں۔ کیا میں اپنی ہی سلطنتِ ذات میں استدلال کے تخت پر براجمان میں کوئی بھی دلیل تراشنے پر قادرہوں؟

تم جانتے ہو کہ میں بنیادی طور پر ادب کا آدمی نہیں۔ سیدھا سادھا سا انجینیر ہوں۔ نہ تو تمہارے متن کے ساختیاتی تجزیے پر قادر ہوں اور نہ ہی کسی قسم کی ایسی تعبیراتی تھیوری کاا طلاق کر سکتا ہوں جو تمہارے بیان کے ذریعے تمہاری نفسیاتی گرہوں تک رسائی ممکن بنائے۔ بتا ہی چکا ہوں کہ تمہیں رسائی مرغوب ہے اور مجھے نارسائی۔ لہٰذا میں تمہارے متن کی اوپری تہہ سے نیچے اترنے کے قابل نہیں۔ تمہارا دعویٰ ہے کہ(تمہاری) ’’عقل‘‘ کو دلیل مرغوب ہے۔ لیکن ساتھ ہی تم یہ بھی کہتے ہو کہ ڈاکٹر صاحب کی کتاب پڑھنے کے بعد تم دیر تک حیران رہے کہ ان کی بات نہ جانے کیوں تمہارے’’دل ‘‘ کو لگی!

 میں جانتا ہوں تم ایک عاشق مزاج شخص ہو۔ کیا تم بھی عشق و عقل کی دوئی میں گرفتار ہو؟ کہیں تم نے د ل کے جھانسے میں آ کر یہ فیصلہ کرنے میں جلدی تو نہیں کر دی کہ ڈاکٹر صاحب ایک اچھے انسان نہیں؟

میں تمہاری مدد کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ دیکھو ڈاکٹر صاحب کا متن بتاتا ہے کہ وہ نہ صرف سچائیوں کی تقسیم پر یقین رکھتے ہیں بلکہ ان میں ترجیح کے بعد انتخاب کا حق بھی استعمال کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ تمہاری طرح وہ بھی کچھ جوابوں تک اس طرح پہنچ چکے ہیں کہ منزل پا لی ہے۔ اب سفر آگے کا ہی ہے۔ سوالوں سے جوابوں تک کا یہ خاکہ ایک خطی خاکہ ہے۔ اس خاکے میں پرانے سوالوں کی جانب واپس لوٹنے کی گنجائش نہیں۔ اُن کا متن بتاتا ہے کہ جسم و روح کی کارتیزی توڑ پھوڑ پر بھی ان کا مکمل ایمان ہے۔ ان کے نزدیک انسانی ’’روح‘‘ ایک ’’قدیم‘‘ لسانی منطقے کا وہ تصور ہے جو اب ’’ جدید‘‘ زمانےکی اصطلاح’’ ذہن‘‘ میں ڈھل چکا ہے۔ ’’ذہن‘‘ کی اصطلاح محدود ہو کر ’’دماغ‘‘ کی شکل میں انسان کی کھوپڑی میں موجود ہے۔ چونکہ وہ شاعر بھی ہیں لہٰذا ان کا اعتقاد ہے کہ ہم جسے چُھو نہ سکیں اس کو خدا کہتے ہیں! چونکہ ایسی کوئی ’’شے‘‘ نہیں جسے ہم چُھو نہ سکیں لہٰذا خدا ہے محبت، محبت خدا ہے۔ یاد رکھو ڈاکٹر صاحب ایک ’’ہیومنسٹ‘‘ ہیں۔ ہیومنسٹ انسان دوست ہوتے ہیں، لہٰذا وہ ایک اچھے آدمی ہیں۔

ان کا متن یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ مادی حقائق اور شعری منطقوں میں فرق کے قائل ہیں۔ ظاہر ہے وہ توہم پرست نہیں اور تماری میری طرح ایک عملی انسان ہیں۔ ہماری ہی طرح ان کا بھی اعتقاد ہے کہ تمام حقائق کی علتیں لازم ہیں، لہٰذا موجود ہیں اور دریافت کا موضوع ہیں۔ ہماری ہی طرح ڈاکٹر صاحب بھی تقسیم، خطوط اور دائروں کے آدمی ہیں۔ نہ جانے وہ تمہیں کیوں اچھے نہیں لگتے!

تمہارے مضمون پر اُن کا تبصرہ میرے لئے کئی تجزیاتی سامان پیدا کرتا ہے۔ ان کا منہج تقسیم ہے سو وہ اپنے تبصرے کے آغاز میں دو دائرے بنا ڈالتے ہیں۔ ’’الف‘‘ دائرہ ’’سائنسی دریافت‘‘ کا دائرہ ہے اور ’’جیم‘‘ دائرہ ’’مذہبی اعتقاد یا عقیدے ‘‘ کا دائرہ ہے۔ یہ دراصل زیرِ متن موجود چار دائروں کی ’’ الف‘‘ اور’’ جیم‘‘میں تحدید ہے۔ یہ چار دائرے ’’سائنس‘‘، ’’مذہب‘‘، ’’اعتقاد‘‘ اور ’’دریافت‘‘ کے ہیں لیکن نئے دائروں میں ڈھل کر ڈاکٹر صاحب کے ذہن میں اپنے معانی کے ابہام پر اصرار ترک کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنے ذہن میں موجود ان چار دائروں میں سے ترجیحاً دو دو دائرے ایک دوسرے میں مدغم کرتے ہیں تو ’’الف‘‘ اور’’ جیم‘‘ ان کے متن سے باہر سر اٹھاتے ہیں۔ نظریاتی دنیا میں اس تقسیم وترجیح اور ادغام کے بعد وہ انسانوں کی دنیا کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور (تمام؟) انسانوں کو ’’الف‘‘ اور’’ جیم‘‘میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ ان کے بقول اس دائروی تقسیم کی وجہ انسانوں کے سائنسی یا مذہبی’’رجحانات‘‘ ہیں۔ اب ادغام کا عمل پورا ہو چکا ہے، پہلے ایک غیرمرئی تسلسل آمیز پیچیدگی (الموسوم’’ مزاجی رجحانات‘‘)سے ایک چاربُعدی دائروی کائنات تخلیق ہو ئی اور پھر اس چہار بُعدی کائنات کی دو بُعدی کائنات میں تحدید۔ کیا تم اب ان کے ذہن میں پیچیدگی سے سادگی کی جانب ایک دلچسپ سفر دیکھ سکتے ہو؟ شاید تمہیں وہ اس لئے اچھے نہیں لگتے کیوں کہ تم صرف ’’ الف‘‘ اور’’ جیم‘‘ ہی دیکھ سکتے ہو!

تبصرہ آگے بڑھتا ہے تو وہ دو مزید دائروں کو سامنے لاتے ہیں۔ یہ دائرے ’’ریزن‘‘ اور ’’ریوی لیشن ‘‘ کے ہیں۔ وقار، کیا میں ان انگریزی اصطلاحات کے لئے ’’عقل و استدلال‘‘ اور ’’الہام و وحی‘‘ کے الفاظ استعمال کر سکتا ہوں؟ ڈاکٹر صاحب تو طبیب اور استاد ہیں لیکن میں اور تم تو مریضانہ اور طالبعلمانہ انداز میں ان سے یہ جاننے کی ضد کر سکتے ہیں کہ ان اصطلاحات سے بنتے دائرے اور ان کے اوپر بنتے مزید چار دائرے کہیں ان معنویاتی گروہوں میں گرفتار تو نہیں ہو جاتے جو کسی تہذیبی دھارے میں بہتے بہتے اب ایک گلوبل تہذیب میں معانی کے کچھ نئے گروہ تخلیق کر رہے ہیں؟

 ہم اس اہرامی خاکہ بندی اور دائروی اکھاڑ پچھاڑ کو کیونکر مان لیں؟ کیوں نہ ہم سب کچھ الٹ پلٹ کر دیں اور دیکھیں کیا نیا خاکہ بنتا ہے؟ چھ دائروں اور دو مرکبات کے ترکیب و امتزاج سے کتنے دائرے وجود میں آ سکتے ہیں؟ پندرہ؟ کیا ہم ’’مذہبی دریافت‘‘ اور ’’سائنسی اعتقاد‘‘ کو پیش قیاس نہیں کر سکتے؟ کیوں نہ ہم ’’رجحانات‘‘ کی اصطلاح کو کھول دیں اور کئی نئے دائرے تخلیق کریں؟ شعور، لاشعور، وجدان، ادراک، تجربہ، تعقل کے دائرے؟ کیوں نہ ہم یہ سوال اٹھائیں کہ عقل کیا ہے؟ کیوں نہ ہم یہ سوال اٹھائیں کہ کیا یہ سوال سائنسی ہے یا غیرسائنسی؟ کیا اس سوال کے جواب کے لئے سائنسی علم لازم ہے؟ ڈاکٹر صاحب چونکہ زمانی تقسیم میں جدید و قدیم کے قائل ہیں اور ’’روایتی‘‘ مزاج اور ’’تخلیقی‘‘ مزاج کو باہم متضاد سمجھتے ہیں لہٰذا ہم یہ سوال کیوں نہ اٹھائیں کہ کیا ان کی نظر میں یہ سوال جدید ہے یا قدیم؟ کیا قدیم انسان ’’عقل و استدلال‘‘ کو جدید انسان جتنا نہیں جانتاتھا؟ کوئی کم عقل کیوں کر خدا کو تخلیق کر سکتا ہے؟

ڈاکٹر صاحب کی طرح ہم بھی ان سائنسدانوں سے کبھی نہیں ملے جو سائنسی دریافت کو الہامی متون کے حوالوں پر پرکھیں لیکن کیا یہ منہجی فرق ہے یا تقسیم آمیز توڑ پھوڑ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ایک سہل فکر اعتراف ؟ کیوں نہ ہم اس سوال کو یوں اٹھائیں کہ ’’سائنس‘‘ اور ’’مذہب‘‘ کے دائروں کو انسانی مزاج کے ایک جسیم و پیچیدہ دائرے میں گم کر دیں؟ کیوں نہ ہم ڈاکٹر صاحب کے محبوب دائروں ’’ الف‘‘ اور’’ جیم‘‘ کو سامنے رکھیں اور کسی نشست میں یہ جاننے کے لئے نیوٹن سے لیکر آئن سٹائن اور لائیبنیز سے لے کر وائٹ ہیڈ تک کے متون پڑھیں کہ نفسیاتی تناظر میں ’’ سائنسی‘‘ رجحانات اور’’ مذہبی‘‘ رجحانات کا آپس میں کیا تال میل ہے؟

میں نفسیات کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ تمہیں میری مدد کرنا ہو گی۔ ابھی تو میں ڈاکٹر خالد سہیل کےہالۂ محبت میں گرفتا ر ہوں۔ نہ جانے محبت کی منزل ابھی کتنی دُور ہے۔ منزل پر پہنچوں گا تو اختلاف کی جسارت بھی کر لوں گا۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments