شہباز تاثیر۔۔۔ کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے


\"farnood\"

شہباز تاثیر کی رہائی کیسے ممکن ہوئی۔ سچ پوچھیئے تو خبر ہمیں خود اپنی بھی نہیں ہے، البتہ ایک مشاہدہ ہے، ایک تجربہ ہے، بغیر کسی تجزیئے کے بیان کئے دیتے ہیں۔

 

سال دوہزار بارہ اور تیرہ میں اسلامی اغوا کاری کی منہ زور وبا چلی۔ غیر ملکی تو کالا بچھو بنے ہوئے تھے، جنہیں طالبان بطور خاص سونگھتے پھررہے تھے۔ جہاں دکھائی پڑے وہیں داڑھ گرم ہوگئی۔ فورا ٹینٹوا دباتے اور سیدھا لاہوت ولامکان پہنچا دیتے۔ سب سے بڑی منڈی کوئٹہ میں لگی۔ برطانوی جرمن اور کینیڈین شہری اسی شہر سے اغوا ہوئے۔ وہ سوئس جوڑا یاد ہے آپ کو؟ وہی جو شام سائیکل پہ ٹہلنے نکلا تھا، آنکھوں پہ اندھیرا آیا، روشنی ہوئی تو خود کو وزیرستان میں پایا۔ یاد آیا؟ ارے وہی جوڑا جو ایک سال بعد سیکورٹی فورسز نے بازیاب کروا لیا تھا، جوڑا منظر عام پہ آیا تو سوئس شہری وضع قطع سے کوئی شیشانی جنگجو لگ رہا تھا۔ چلیں خیر جانے دیں۔ اغوا کی یہ وبا جب زوروں پہ تھی تو میں کوئٹہ میں ہی آب و دانہ کے لئے جوتیاں چٹخا رہا تھا۔ سردی نقطہ انجماد کو چھو رہی تھی، برفباری تھی کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ چھٹی ہوچکی تھی، دفتر کے دروا زے پہ بادام پھاکتے ہوئے استخارہ کر رہا تھا کہ قیام گاہ تک پہنچوں تو کیسے پہنچوں۔ گومگو کی اسی کیفیت میں تھا کہ موبائل پہ بی بی سی کے نمائندے ایوب ترین کا خط موصول ہوا

’’مقامی این جی او بی آر ایس پی کی وین گیارہ ملازمین سمیت اغوا ہوگئی ہے‘‘

یہ اغوا کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، مگر ایک جھٹکے میں گیارہ ملازمین کا اغوا ایک دل دہلا دینے والی خبر تھی۔ یہ وین خراماں خراماں ژوب پہنچی، ایک مارکیٹ کے پاس رکی اور چار مسلح نقاب پوش برآمد ہوئے۔ دو نقاب پوش گاڑی کے دروازے سے لگ کر کھڑے ہوگئے اور دو ہنستے کھیلتے سودا سلف لینے مارکیٹ میں داخل ہوگئے۔ ایک دنیا نے یہ منظر دیکھا۔ پشتونخوا پارٹی کے ایک مقامی سرگرم کارکن نے یہ سب دیکھا تو وقت ضائع کئے بغیر پشتونخواپارٹی کے رہنما نواب ایاز خان جوگزئی کو بذریعہ فون باخبر کردیا۔ نواب صاحب نے اسی لمحے محمود خان اچکزئی اور میر حاصل خان بزنجو کو اطلاع کردی۔ ان تینوں صاحبان نے دس سے پندرہ منٹ میں تقریبا تمام سیکورٹی اداروں کو گاڑی کے رنگ، نمبر پلیٹ، گاڑی کا رخ، مقام، اغواکاروں کی تعداد اور مغویوں کی تعداد سے آگاہ کردیا۔ اب اگلی چیک پوسٹوں کو الرٹ کرنے میں کتنا وقت درکار ہے؟ آدھا گھنٹہ؟ چلیں ایک گھنٹہ کرلیتے ہیں۔ مجھے تینوں حضرات سے ملاقات کا اتفاق ہوا، تینوں کا کہنا یہ ہے کہ ہمیں اطلاع ملنے کے بعد وین پونے دو گھنٹے ژوب کے حدود میں موجود رہی ہے۔ ہم مطمئن تھے، مگر صبح تڑکے خبر آگئی کہ بی آر ایس پی کی وین اور ملازمین ساتھ خیریت کے وزیرستان پہنچا دیئے گئے ہیں۔ اندازہ کیجیئے کہ اس کشاں کشاں گزرتی وین نے میران شاہ تک انیس مرکزی چیک پوسٹوں کو پورے اطمینان کے ساتھ عبور کیا۔ بر وقت سیکورٹی الرٹ کے بعد بھی اگر یوسفِ مصر کے لئے  ایک کے بعد ایک دروازہ رضاکارانہ طور پہ کھلتا چلا جا رہا ہے تو اس کی دو ہی وجو ہات ہوسکتی ہیں۔ یا تو اغواکاروں کے ہاتھ اسمِ اعظم لگ گیا تھا، یا پھر آسمانی فرمان کے تحت چیک پوسٹوں پہ نصرت کے فرشتے تعینات کر دیئے گئے تھے۔ فتح و نصرت کے بغیر تو یہ معرکہ سر ہونے والا نہیں تھا۔ اب جوبھی تھا، کنٹینر کسی کمی بیشی کے بغیر بحفاظت وزیرستان کے پہاڑوں میں اتارا جا چکا تھا۔ شام تک تیس کروڑ تاوان کا پیغام بھی موصول ہوگیا تھا۔

مغویوں میں ایک لشکری رئیسانی صاحب کا بھانجا یا بھتیجا بھی تھا۔ اول تو ملازمین کے اہلِ خانہ میں سے سب اپنے اپنے بچے کی بازیابی کے لئے  کوشاں رہے۔ معاملے نے طول پکڑا تو سنگین نتائج سے آگاہ کر نے کے لئے  طالبان نے مغویوں میں سے ڈرائیور کو کلمہ پڑھوا دیا۔ ڈرائیور کو شاید اس لئے بھی قتل کردیا گیا کہ اس غریب کے اہلِ خانہ سے خیر کی ویسے بھی کوئی توقع نہیں تھی۔ وہ تو کوئی شہباز تاثیر ہی ہوتا ہے جسے ہاتھ کا چھا لہ بنائے غاروں غاروں گھومنا پڑتا ہے۔ معاملہ نے جونہی سنگین رخ اختیار کیا، مغویوں کے اہل خانہ نے لشکری صاحب کو اپنا نمائندہ کر لیا۔ لشکری صاحب بہت سے پاپڑ بیلنے کے بعد مغویوں کو رہا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ لشکری صاحب کی مجھے تلاش تھی، لاہور میں ملاقات ہوپائی۔ کارگزاری کا پوچھا تو اول ہنسے، پھر بولے

’’عالم جان قسم قرآن کیا بتاؤں تم کو میں، ایسا لگتا تھا کہ ہمارے ساتھ چوری کی گاڑیوں کا سودا ہورہا ہے‘‘

جو کہانی اس کے بعد سننے کو ملی وہ کچھ یوں ہے کہ معاملات کو حتمی شکل دینے کے لئے  لشکری صاحب کو میران شاہ جانا پڑا۔ یہاں ان کی میزبانی ٹی ٹی پی کی معروف ہستی قاری شکیل کر رہے تھے۔ رئیسانی صاحب نے چونکہ اس معاملے میں بہت نامی گرامی شیوخ کو ڈال دیا تھا، اس لیئے ٹی ٹی پی کی قیادت اخلاقی دباؤ کا شکار تھی۔ معاملہ اول پچیس کروڑ پہ پھنسا رہا پھر سوئی بیس کروڑ پہ اٹک گئی۔ پانچ دن کی بار گیننگ کسی نتیجے پہ نہ پہنچ سکی تو قاری شکیل نے بال براہ راست حکیم اللہ محسود کے کورٹ میں پھینک دی۔ قاری شکیل کسی اور مقام پہ طلب کئے گئے۔ ایک دن بعد واپس لوٹے تو رئیسانی صاحب سے بولے کہ

’’دیکھیں امیر صاحب کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمارے لئے نہایت محترم ہے، آپ خود ہمارے پاس چل کر آیا ہے، ہم آپ کی عزت کرتے ہے، ہم جائز بات کرے گا جس میں نہ تو آپ کا نقصان ہو نہ ہمارا نقصان ہو، نہ آپ کی بات نہ ہماری بات، بس جتنے میں ہمارا خرید ہے اتنے میں لے لو، سولہ کروڑ روپے دو اور سب کو لے جاؤ۔ جاؤ عیش کرو‘‘

یہاں رئیسانی صاحب نے مزید گنجائش نکالنے کی بات کی تو جواب آیا کہ دیکھو جی سولہ کروڑ میں ہم کو پڑا ہے، سولہ کروڑ میں تم کو دے رہا ہے، اس سے کم میں ہمیں تاوان (نقصان) ہے، ہم کو وارا نہیں کھاتا، ہم نے بالکل بھائی بندی والا بات کیا ہے تم سے۔ لشکری صاحب نے پانچ روز تک امید باندھے رکھی کہ پٹھان اپنا دس ہزار کا قالین آٹھ سو میں بیچ ہی دے گا، مگر انہیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ ڈمپر دوڑاتی یہ قوم روپے جوڑنے کے معاملے میں میمن برادری سے زیادہ سیانی واقع ہوئی ہے۔ خواستہ نخواستہ معاملہ سولہ کروڑ نقد سکہ رائج الوقت پاکستانی میں طے پا گیا۔ تمام ملازمین کے اہل خانہ نے مل ملا کے سولہ کروڑ رئیسانی صاحب کے ہاتھ پہ رکھے، اس ہاتھ سے جانے وہ کہاں گئے۔ بس کچھ دیر کو سناٹا ہوا، چراغ بجھے، جب روشن ہوئے تو پتہ خبر ملی کہ

’’سیکورٹی فورسز نے بی آر ایس پی کی وین مغویوں سمیت بازیاب کروالی ہے‘‘

جو بھی ہو، بالآخر یہی ادارے ہمارے کام آتے ہیں۔ شہباز تاثیر شہر کے بیچوں بیچ سے اغوا کیسے ہو گیا؟ مت پوچھیئے۔ شہر سے نکال کیسے لیا گیا؟ مت پوچھیئے۔ بلوچستان کیسے پہنچا دیا گیا؟ مت پوچھیئے۔ وزیرستان کیسے پہنچا دیا گیا؟ اور ہاں، مت پوچھیئے۔ چار برس کہاں رہا؟ کیوں پوچھتے ہو، مت پوچھیئے۔ زبان موڑ کے پیٹ میں رکھ لیجئے، بس اتنا یاد رکھیے کہ فورسز نے ایک کارروائی کے نتیجے میں اسے بازیاب کروا لیا ہے۔ اس سے زیادہ کیا کریں؟ بچے کی جان لینی ہے کیا؟

کرکٹ کا موسم پھر آ گیا ہے۔ ہم تلخ موضوعات لے کر بیٹھ گئے، کھیل کے موسم میں کھیل کی بات ہونی چاہیے۔ کہتے ہیں کھیل تو مقدر کا تماشا ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف ایک میچ میں کنگ آف سوئنگ وسیم اکرم ، ٹخنہ توڑ بالر وقار یونس اور ٹکر مار بالر شعیب اختر کھیل رہے تھے۔ پچ بالنگ کے لئے  موزوں ہونے کی وجہ سے یہ بالرز حریف کی وکٹوں پہ وکٹیں اکھیڑے جا رہے تھے۔ لاسٹ وکٹ تھی شین وارن سامنا کر رہے تھے۔ آف اسپینر ثقلین مشتاق بالنگ کرنے آئے، قدرے آہستہ بال پھینکی، شین وارن کی بیچ کی وکٹ تڑاخ سے دو ٹکڑے ہوگئی۔ ڈریسنگ روم میں وسیم اکرم نے ضرور کہا ہوگا کہ آج تو ہم نے وکٹیں ہی وکٹیں اڑائی ہیں بھئی کمال ہو گیا۔ پلٹ کر ثلقین مشتاق نے ضرور کہا ہوگا

’’بس اتنا یاد رکھنا کہ وکٹ میں نے توڑی تھی‘‘

اس میں کوئی شک ہے کیا؟ بالکل بھی نہیں۔ تو پھر؟ یا مقدر یا نصیب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments