ایک دیانت دار وزیراعظم کا عبرت ناک انجام


نامور سفارت کار جمشید مارکر نے اپنی کتاب ’’ کور پوائنٹ ‘‘ میں پاکستانی حکمرانوں کے بارے میں اپنی یادداشتیں قلمبند کی ہیں۔ اس کتاب میں لیاقت علی خان سے اپنے تعلقات کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ 10 وکٹوریا روڈ پر واقع ان کی رہائش گاہ پر برابر ان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ لیاقت علی خان کو انھوں نے ہمیشہ نہایت پرسکون عالم میں دیکھا، جن کے بشرے سے کبھی گمان نہ ہواکہ وہ کاروبار مملکت کے بوجھ تلے دبے ہوں۔ صرف ایک ہی بار ایسا ہوا کہ مارکر نے انھیں غصے میں دیکھا ،جب وہ اپنے ہاں ظہرانے میں خلاف معمول دیر سے پہنچے تو روایتی خوش گوار موڈ میں ہونے کے بجائے ناراض دکھائی دیے ۔ انھوں نے مہمانوں کو بتایا کہ دفتر میں آج انھیں ناخوش گوار صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔

حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ مہاجرین ، ہندوستان میں رہ جانے والی اپنی جائیداد کے بدل میں کلیم داخل کر کے پاک سر زمین پر متروکہ املاک حاصل کرسکتے ہیں۔ اس پر لوگوں نے جعلی کلیم داخل کئے، جس سے اس لامتناہی کرپشن نے جڑ پکڑی جو اب سارے معاشرے میں سرایت کر گئی ہے۔ خیر یہ الگ بحث ہے۔ اسے کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، بات ہو رہی تھی لیاقت علی خان کی ناراضی کی۔ خوشامدی بیوروکریٹس نے اپنے طور پر لیاقت علی خان کا کلیم فارم بھرا اور فائل دستخطوں کے واسطے ان کے سامنے پیش کی جو انھوں نے اٹھا کر پرے پھینکی اور سرکاری گماشتوں کو ہدایت کی کہ وہ ان کی فکر چھوڑیں اور مہاجرین کی آباد کاری کے لیے دوڑ دھوپ کریں۔ انھوں نے حاضرین مجلس سے کہا کہ اس قسم کے بیوروکریٹ ہم کو برباد کردیں گے۔ یاد رہے کہ لیاقت علی خان کی بہت قیمتی جائیداد ہندوستان میں موجود تھی لیکن ان کو اس کی پروا نہیں تھی، اس کی گواہی ہندوستان کے پاکستان میں پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش بھی اپنی کتاب میں دے چکے ہیں۔

جمشید مارکر نے ایک اور واقعہ بیان کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عدلیہ کی تاریخ میں،جسٹس منیر، جسٹس ارشاد حسن اور جسٹس افتخار محمد چودھری جیسے چیف جسٹس ہی نہیں رہے بلکہ جسٹس عبدالرشید جیسا روشن ضمیر بھی تھا۔ وزیر اعظم نے ورلڈ بینک کے صدر کے اعزاز میں ڈنر دیا تو چیف جسٹس کو بھی مدعو کیا لیکن انھوں نے یہ کہہ کر آنے سے معذرت کرلی کہ چیف ایگزیکٹو کی طرف سے سرکاری ڈنر میں شرکت ان کے منصب کے شایان شان نہیں۔ لیاقت علی خان نے ان کے اس طرز عمل پر برا نہ مانا بلکہ چیف جسٹس کے فیصلے کو سراہا۔

بھلے وقتوں میں ہماری عدلیہ میں ایسے لوگ موجود تھے جنھیں خوشامد کرنا گوارا تھا اور نہ ہی خوشامد کروانے کا ہوکا۔ اس بات کی سند ہمیں ذی وقار جسٹس (ر) کے ایم صمدانی کی کتاب ’’ جائزہ ‘‘ سے ملتی ہے :

’’ جب میں سیالکوٹ میں سیشن جج تھا تو جسٹس کارنیلیس چیف جسٹس آف پاکستان تھے۔ سیالکوٹ کے ایک گاؤں گوندل میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس صدیق چودھری نے ایک خیراتی کلینک کھولا تھا ، جس کے افتتاح کے لیے انھوں نے جسٹس کارنیلیس کو مدعو کیا تھا۔ چنانچہ کارنیلیس صاحب نے اس مقصد کے لیے ایک اتوار کا دن مقرر کیا۔ ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے مجھے اطلاع دی کہ چیف جسٹس صاحب آپ کے ضلع میں آ رہے ہیں ، میں نے پوچھا کہ دورہ سرکاری ہے یا پرائیویٹ۔ رجسٹرار نے کہا، پرائیویٹ۔ چنانچہ میں چیف جسٹس صاحب سے ملنے نہیں گیا اور اس بات کا ردعمل بھی کچھ نہ ہوا۔‘‘ ردعمل ہوتا بھی کیوں؟ کہ آخر کو وہ جسٹس کارنیلیس جیسا بلند قامت اور عالی ظرف تھا نہ کہ پی سی او پر حلف اٹھانے والا کوئی جج جس کو ہر دم پروٹوکول کی فکر کھائے جاتی ہو اور بلٹ پروف گاڑی جس کی کمزوری بن جائے ۔

جمشید مارکر کی کتاب سے لیاقت علی خان کے شوق مطالعہ کی خبر بھی ملتی ہے ۔ ان کی شہادت کے کچھ دن بعد دوست احباب تعزیت کے لیے ان کے گھر اکٹھے ہوئے تو رعنا لیاقت علی خان نے نم آنکھوں سے وہ کتاب جمشید مارکر کو دکھائی جو راولپنڈی کے آخری سفر میں ان کے شوہر کے زیر مطالعہ تھی۔ یہ کتاب’’ The Gods That Failed‘‘ تھی، جس میں ان چھ نامور لکھاریوں کے مضامین ہیں جو کمیونزم سے وابستہ رہنے کے بعد اس سے برگشتہ ہوئے ۔ یہ اس دورکی مشہور کتاب تھی، اور اس زمانے کی فضا کے اعتبار سے جس کا مطالعہ عالمی سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے لازم تھا۔

لیاقت علی خان دیانت میں اپنی مثال آپ تھے۔ علی گڑھ اور آکسفرڈ سے فارغ التحصیل تھے۔ کتاب سے بھی رشتہ تھا۔ باقی خدمات اس کے سوا، لیکن ان کوسازش کے تحت بھرے مجمعے میں قتل کردیا گیا۔ ان کے قاتل کون تھے؟ وہی جو اس ملک میں آئین وقانون کی حکمرانی نہیں چاہتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).