کیا سورج پر بھی دھبے ہوتے ہیں؟


تم جب پیدا ہوئے تو مجھے کچھ خاص منفرد احساس نہیں ہوا تھا۔ ایک طمانیت سی محسوس ہوئی کہ اب جلد تمہاری ماں گھر کے کام کاج کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ زندگی رواں ہو جائے گی۔

پھر جب تم دو سال کے ہوئے تو تم نے میرے پاس لیٹے ہوئے چاند کے بارے میں پوچھا تھا۔ تمھیں چاند میں میری بتائی کوئی شکل نظر نہ آئی لیکن ہم متفق تھے کہ چاند پر دھبے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ اتفاق کی اس سطح پر بھی ہم ایک دوسرے سے برابر محبت کر سکتے تھے۔ محبت بنیادی طور پر اپنے وجود کے لیے کمزور ترین بہانے کی طالب ہوتی ہے۔ بے نام سی حجت کی طالب رہتی ہے۔

لیکن پھر تین سال کی عمر میں تم نے پوچھا۔ “کیا سورج پر بھی دھبے ہوتے ہیں؟” میں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا تھا اس لیے تم سے کچھ وقت مانگا۔ صبح تم سو رہے تھے۔ شدید سردیاں تھیں۔ بستر سے نکلتے ہوئے تمہارے معصوم چہرے پر نظر پڑی۔ معصومیت کی ریشمی باریک چادر کے اوپر کاڑھا سوال صاف نظر آ رہا تھا۔ “کیا سورج پر بھی دھبے ہوتے ہیں؟”

میں تمہارے چہرے کو گھورتا رہا اور سوچتا رہا کہ اگر ٹھیک ان لمحوں میں تمہاری موت ہو جاتی ہے تو بھی اس سوال کی کھوج کے لیے درکار تمام دیانت تمہارے پاس ہے۔ جستجو اور تجسس مکمل ہے۔ کائنات کی کوئی قوت، کوئی صریحی اختیار، تمہاری دیانت پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔ کس قدر خوش قسمت ہو تم۔ کس قدر حسین ہو تم۔ اے صاحب جمال۔ زندگی تمہیں مبارک ہو!

لیکن اچانک احساس ہوا سورج نکلنے میں بس کچھ ہی وقت رہ گیا ہے۔ ایک بھاری چادر کو تن سے لپیٹے کھیتوں کو عبور کرتا جوہڑ کے بنیرے پر جا بیٹھا۔ جہاں جب سورج ابھرتا تھا تو افق پر اس کی پیشانی یہاں سے واضح نظر آتی تھی۔ میں بیٹھا رہا اور دیکھتا رہا۔ تمہارے سوال کے پیچھے چھپی دیانت کی طرح تمہارا سوال بھی میرے لیے اتنا ہی اہم تھا۔۔۔ بلکہ زیادہ اہم تھا۔ دیانت کی پرکھ میں نے نہیں کرنی تھی لیکن سوال تم نے میرے ذمے لگا دیا تھا۔ افق پر خورشید کی پیشانی اگ رہی تھی۔ میری پتلیاں پھیل گئیں۔ سورج دو جگہوں پر طلوع ہو رہا تھا۔ ایک سامنے افق پر اور ایک میری پتلیوں میں جس سے میں ناواقف تھا۔ کیا میں پھیل کر دونوں جگہ سورج کے طلوع ہونے کا مشاہدہ کر سکتا تھا؟ ویسے ہی یہ سوچ آئی کہ شاید تمہارا جواب لانے میں آسانی ہو جائے۔ خیر میں آسانی کی بھی ایسی خواہش نہیں رکھتا مجھے جواب مل جائے, اصل مقصد تو یہ ہے۔

اب سورج اتنا ابھر آیا تھا کہ تم اسے آدھا سورج کہہ لو یا میں یہ کہہ لوں کہ جہاں تمہاری ناک کی وسط تک کا چہرہ ہے وہاں تک نکل آیا تھا۔ اوہ یہ سوچتے ہی مجھے اس میں دو آنکھیں دکھائی دی ہیں لیکن میں نے سر کو جھٹک دیا ہے۔ حقیقت سے دو درجہ دوری پر لطف تو رہتا ہے منزل اور مقصد دور ہو جاتے ہیں۔ میں نے تمھارے جواب کو اپنے لطف پر اہمیت دی۔ میں گھور رہا تھا۔ مسلسل۔ تم اگر زمین سے دور جا کر دیکھنے کے قابل ہوتے تو تمہیں یوں لگتا جیسے جوہڑ کے بنیرے پر اکڑوں بیٹھا چادر میں لپٹا تمہارا بابا اور سورج ایک دوسرے کو گھورتے چلے جا رہے ہیں۔ میں دیکھتا رہا۔ سورج کی ٹھوڑی دکھائی دی۔ میں نے سر جھٹک دیا۔ اگر میں تمھارے چہرے کے نقوش فراموش نہیں کروں گا تو جواب کیسے لاؤں گا۔ سورج ابھرتے ابھرتے یوں ابھرا کہ ٹھوڑی کوزمین سے جدا کیا۔ کوئی آواز نہیں آئی۔ بس ہوا میں معلق ہو گیا۔ میں الجھا ہوا تھا، مجھے جواب کی تلاش تھی۔ سورج احساس سے عاری تھا، سورج کو کوئی قضیہ درپیش نہ تھا۔

یہ جو تم تھوڑی دیر پہلے زمین سے دور نکل کر اپنے تخیل میں ایک ایسا منظر دیکھ رہے تھے کہ سورج تمہارے بابا کو گھو ر رہا ہےتو شاید ایسا نہیں ہے۔ نئے فرضیے اور امتزاج ہمیں حیرت زدہ کرتے ہیں اور ہم حیرت سے لطف اٹھاتے ہیں اور بس ۔ فقط تغیر کی ہمہ گیریت یا حرکی روابط بھلا اس قابل کہاں ہوتے ہیں کہ المیہ یا فرحیہ کو جنم دے سکیں۔

اس دن کے بعد اور دن گزرتے گئے۔ تم اپنا سوال بھول گئے تھے کہ تمھاری پانچوں حسیات پر محرکیات کی بوچھاڑ تھی لیکن میں بہت سے آنے والے دنوں میں یہی کرتا رہا۔ میں سورج کو بہت زیادہ گھورتا تو مجھے اس کے درمیان ایک سیاہ ہلکا داغ دکھائی دیتا۔ لیکن چہرے کی ہلکی سی حرکت سے وہ سیاہ ہلکا سا دھبہ سورج سے ہٹ کر حرکت کرتا۔ یہ جان کر میری ہنسی نکل جاتی کہ اس عارضی وقوعے یعنی اس ہلکے سیاہ دھبے کا خالق میں ہوں۔ کیا انواع میں ہماری طرح کوئی اور بھی خالق ہیں۔ میرا خیال ہے شاید نہیں ۔ ہمارے سوا کون ہے جو اپنے آپ کو آئینے کے سامنے کھڑ ے ہو کر پوری طرح پہچان سکتا ہو۔

سردیاں بیت گئیں۔ کئی سردیاں بیت گئیں۔ ہمارے آس پاس کئی مر گئے۔ ان کے مرنے کے بعد بھی کئی سردیاں بیت گئیں۔

پھر مجھے کھانسی ہوئی۔۔۔ وہ سردی نہیں بیتی۔۔۔ ٹھہر گئی۔ سردیوں کی راتوں میں طوفان بہت کم آتے ہیں۔ میں یہ فیصلہ نہیں دے رہا ۔ لیکن میرے حصے کی گنی چنی سردیوں میں ایسا کم ہوا ہے۔۔۔ اف آج کی رات کیا خوفناک طوفان آیا ہے۔ گھر کی بڑی تین بزرگ بیریاں جھول رہی ہیں۔ ان کی شاخیں مجھے پنجے دکھائی دیتے ہیں اور پنجوں پر کالے پتوں کی بے ترتیب حرکت میں لامتناہیت خوفزدہ کرتی ہے۔ شدید بارش ہے۔۔۔ بادل گرجتے ہیں تو دھمک سینے کے اندر تک جاتی ہے۔ بجلی چمکتی ہے تو ایک لمحے کے لیے گھر۔۔۔ تم۔۔۔ بیری کے درخت اصلی ہیئت کو واپس لوٹتے ہو لیکن جیسے ہی یاد داشت آنے لگتی ہے پھر وہی گھپ اندھیرا۔۔۔ پانی کی بوچھاڑیں۔۔۔ بچپن میں تم ڈرا کرتے تھے اور شرطیں لگاتے تھے کہ بابا اب کی بار تو بیر کی ٹہنیاں ٹوٹ جائیں گی۔۔۔ دیکھنا کوئی ایک تو ضرور ٹوٹے گی۔ میں تمھیں دلاسا دیتا کہ امکانات کو سرے سے رد تو نہیں کیا جا سکتا لیکن تجربے پر مبنی قیاس بری بات نہیں ہے۔ میرے قیاس پر اعتماد کرو

آج وہی سماں ہے۔ تمھارے پاس دلاسا دینے کے لیے لفظ نہیں اور میرے پاس حوصلہ نہیں کہ کوئی لفظ منہ سے نکال پاؤں۔

کیوں نا وقت سے تھوڑا آگے نکل کر تمہیں ایک دلچسپ بات سناؤں۔

جب تم مرتے باپ کے چہرے کے قریب آئے تھے اور سرگوشی کی۔۔۔ کہا۔۔۔ بابا۔۔۔ سورج پر دھبے۔۔۔ نہیں ہوتے! تو تمہارے ادا کیے پہلے تین لفظوں کے دوران میں زندہ تھا۔۔۔ اگلے دو لفظ میں نے مرنے کے بعد سنے۔ اپنے جسم سے کچھ اوپر۔۔۔ تمہاری طرف کروٹ کرتے ہوئے۔۔۔ مسکراتے بلکہ تقریبا کھلکھلاتے ہوئے۔۔۔ کاش تم اس وقت مجھے دیکھ سکتے۔ مجھے معلوم ہے تم نہیں دیکھ پاؤ گے اور نیچے پڑے بوڑھے کے مردہ جسم کے بوسے لیتے رہو گے۔ رات کو یوں تنہا۔۔۔ ایسے خوفناک ماحول میں چھوڑ کر جاتے ہوئے تھوڑی تکلیف تو ہے لیکن۔۔۔ اوپر اوپر اور اوپر پانی کی بوچھاڑوں میں۔۔۔ میں خوش ہوں۔ نسل انسانی میں سوال اور کھوج کی دیانت کو قائم رہنا چاہئے۔ میں خوش ہوں!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik