احمدی ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ 


وطن عزیز میں عجب چلن ہے کہ جب کوئی سیاست دان مشکلات میں گھر جائے تو منجدھار سے نکلنے کے لیے مذہب کی سیڑھی استعمال کرتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ کامیاب بھی رہتا ہے۔  ہمارا معاشرہ خالصتاً ایک مذہبی معاشرہ ہے، چنانچہ مذہب کی آڑ میں ہمدردیاں سمیٹنا چنداں مشکل نہیں۔ ماضی میں اس کی مثالیں موجود ہیں، بدعنوانی کے الزامات سے توجہ ہٹانی ہو یا اپنے اقتدار کو طول بخشنا مقصود ہو، صاحب مسند و اقتدار نے یہ مجرب نسخہ استعمال کیا ہے، جس میں کامیابی فرد مذکورہ مناسب وقت کے انتخاب، صحیح موقع و محل پر مذہب کارڈ کے استعمال سےمشروط ہے۔

اسی طرح کی ہڑبونگ گزشتہ چند روز سےدیکھنے میں آئی جس میں پرامن اور سارے معاملے سے لاتعلق جماعت احمدیہ کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ درپردہ اس قانون سازی میں احمدی لابی ملوث تھی۔ اس طوفان کا پس منظر حلف نامہ میں ایک معمولی ترمیم تھی۔ پارلیمنٹ میں کیپٹن (ر) جناب صفدر صاحب کی دھواں دھار تقریر نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔  پرانےحلف نامہ میں امیدوار ختم نبوت کا اقرار یہ کہہ کر کرتا تھا کہ ” میں دیانت داری سے قسم کھاتا ہوں“ جبکہ نئے فارم سےقسم کھانے والا جملہ حذف کر کے ”میں اعلان کرتا ہوں“ کر دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ باقی سب کچھ من وعن ویسا ہی ہے جس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔ اس تبدیلی کے منظر عام پر آنے کی دیر تھی کہ منبر و محراب سے فتاویٰ کا ریلا بہ نکلا۔ مخالف دھڑوں کو پوائنٹ اسکورنگ کا موقع بھی خوب ملا۔ دائیں اور بائیں، ہراول اور عقب میں سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اس تماشے میں بل پیش کرنے والے بھی شامل تھے، ترمیم کرنے والے بھی شامل تھے، بل پر بحث کرنے والے بھی تھے اور اس بل کو پاس کرنے والے بھی موجود تھے، لیکن وہ نہیں تھے جن پر اس بل کی آڑ میں زمین تنگ کی جا رہی تھی، یعنی جماعت احمدیہ۔

 مسودہ قانون میں ترمیم منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا سمیت الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ہر طرف سے جماعت احمدیہ کے خلاف فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز مباحث کا طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ مختلف پلیٹ فارم سے عمائدین و مذہبی قائدین کی طرف سے کفر اور واجب القتل کے فتوے تک صادر کیے گئے۔ ستم بالائے ستم کہ جس محب وطن اور پر امن طبقہ کو اس معاملہ میں رگیدا جا رہا تھا اس سے کسی نے اس بارے میں ان کا مؤقف جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ حتیٰ کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے بھی جماعت احمدیہ سے ان کا مؤقف دریافت کرنا ضروری نہ سمجھا۔ صحافتی اقدار اور دیانت داری کا تقاضا تھا کہ باضابطہ طور پرجماعت احمدیہ سے ان کا مؤقف لیا جاتا اور اسے شائع کیا جاتا۔ جتنے منہ اتنی باتیں سننے میں آتی رہیں جو ہر ایسے موقع پر مخالفین کا وتیرہ ہیں اور جن میں سے اکثر قابل التفات نہیں۔ کچھ تجزیہ نگاروں اور مذہبی رہنماؤں نے یہاں تک گل افشانیاں کر ڈالیں کہ یہ مسودہ قانون قادیانیوں کی سازش ہے۔  (بارثبوت سازش کا الزام دھرنے والوں پر ہے، ویسے بھی جس معاملہ سے اپنا پلو چھڑانا مقصود ہو، اسے سازش کے کھاتے میں ڈالنا ہمارا د یرینہ قومی مشغلہ ہے)۔ بعض نابغہ ہستیوں نے تو یہ چشم کشا انکشاف بھی کرڈالا کہ اس ترمیم سے قادیانیوں کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے، اور قادیانیوں کی کلیدی حکومتی عہدوں تک رسائی کے راستہ میں حائل بڑی رکاوٹ دور کی گئی ہے۔ مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک مطالبہ یہ بھی سامنے آیا کہ احمدی 74ء کے فیصلہ کے تحت خود کو غیرمسلم تسلیم کریں، اقلیتی نشستوں پر الیکشن لڑیں، ایوان بالا تک پہنچیں، کسی کو اس پر ہرگز ہرگز اعتراض نہ ہو گا۔

ہم پہلے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ صاحب، دیانت داری سے سازش کا ثبوت دیں تاکہ اس نکتے پر بات ہو سکے۔

اب یہ سوال کہ احمدی الیکشن میں حصہ کیوں نہیں لیتے؟ اور ووٹ کیوں نہیں ڈالتے؟ ضمنا عرض کرتا چلوں کہ افراد جماعت احمدیہ 84ء تک عام انتخابات میں ووٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ 84ء کے بعد انتخابات کے دروازے ہی خود پر بند کر لئے؟

تو عزیزان دیار، بات یہ ہے کہ 1974ء میں آئین کی ترمیم کے بعد 84ء میں امتناع قادیانیت آرڈینینس XXمتعارف کروایا گیا جس میں جماعت احمدیہ کی مذہبی آزادی مکمل طور پر سلب کر لی گئی۔ اس آرڈینینس کے ذریعے نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی گئی بلکہ یہ قانون بذات خود آئین پاکستان کی شق نمبر 20 سے متصادم ہے جس کے تحت۔ (الف) ” ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہو گا“۔ ایک ہی ملک کا آئین ایک شہری کو مذہبی آزادی دیتا ہے اور وہی آئین ایک شہری سے یہ حق چھینتا بھی ہے۔

کسی ملک کا آئین محض قانون نہیں بلکہ ایک سوشل کنٹریکٹ ہوتا ہے جو حرف بہ حرف تمام شہریوں پر مساوی طور پرمنطبق ہوتا ہے۔ اس تسلیم شدہ آئینی حق کو پامال کرتے ہوئے آرڈینینس XX کے تحت احمدیوں پر ہر طرح کی اسلامی اصطلاحات مثلا سلام کہنا، اذان دینا، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنا، بسم اللہ و دیگر قرآنی آیات لکھنا الغرض ہر وہ عمل جو مسلمانوں سے خاص ہو، کے استعمال پر کلیتاً پابندی عائد کر دی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ احمدیوں پر بیسیوں مقدمات محض ”اسلام علیکم“ کہنے پر قائم کیے گئے اور سلامتی بھیجنے پر انہیں حوالہ حوالات کیا گیا۔

احمدیوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ احمدی ہندوؤں، عیسائیوں، یہودیوں یا دوسرے غیر مسلموں کی طرح اپنی ایک الگ شناخت بنائیں اور کوئی بھی ایسا طرز عمل نہ اپنائیں جس سے مترشح ہو کہ وہ مسلمان ہیں۔ بزباں حال ایک احمدی سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے عقائد کا اقرار نہ کرے۔ ایک احمدی کو اپنے دلی عقائد سے بے گانگی اور لاتعلقی اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

عزیزان محترم، احمدیوں نے اپنے اسی مؤقف کے لئے اپنی جانوں کے نذارنے دیے ہیں۔ ایک احمدی اپنی جان تو دے سکتا ہے لیکن محض ووٹ کے لیے، اقلیتوں کے لیے مختص حقوق کے حصول یا اقلیتی نشست پر الیکشن لڑنے کے لیے اپنے عقائد سے انکار نہیں کر سکتا۔ اورنہ ہی اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرسکتا ہے۔ بخدا ہم احمدی محض دنیاوی جاہ و حشمت یا عہدہ کے حصول کے لیے اپنے ایمان کی نفی نہیں کر سکتے۔ ملکی آئین اور آپ اگر احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں۔ لیکن آپ کا یہ اصرار بے جا اور غیر منصفانہ ہے کہ احمدی بھی خود کو اس آرڈینینس کے تحت حلفیہ یا علانیہ غیر مسلم تسلیم کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).