جبری شادی کا انجام اندوہناک بھی ہو سکتا ہے


فرد کو جب اس کا حق نہیں دیا جاتا اور اس کی مسلمہ بنیادی انسانی آزادیوں پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں تو پھر بغاوتیں جنم لیتی ہیں اور ان بغاوتوں سے سانحے۔ انسانی تاریخ میں یہ سانحے خودکشی جیسے انفردی فعل سے لے کر چھوٹے یا بڑے پیمانے پر قتل و غارت اورپھر سیاسی بغاوتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ سماجی سائنس اپنے افکار کا خمیر فرد کی زندگی سے بناتی ہے اور پھر اس کا دائرہ کار خاندان، معاشرے اور ملکوں تک پھیل جاتا ہے۔ فرد کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کی آزادی دینے کی بجائے جب کوئی زورآور اس پر اپنی مرضی مسلط کرتا ہے تو نتیجہ کچھ ایسا ہی ہوتاہے جیسا ہم نے جنوبی پنجاب کے شہر مظفرگڑھ کے علاقے دولت پور میں معصوم بچوں سمیت سولہ افراد کی دردناک موت کی صورت میں دیکھا جبکہ گیارہ افراد تاحال زندگی اور موت کی کشمکمش میں مبتلا ہیں۔ دِقت کیا تھی؟

آسیہ بی بی نے اپنی پسند کے مطابق اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کیا تو اس کے گھر والوں کی غیرت جاگ گئی، خاندانی تفاخر کا اقبال بلند ہوا اور آسیہ بی بی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کسی اور سے کر دی گئی۔ یہ فیصلہ کسی پرائے نے نہیں بلکہ اس کے اپنے ہی زورآورباپ، بھائی یا ماں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا کہ آسیہ کی زندگی کس کے ساتھ اور کیسے گزرے گی۔ دنیا کا کوئی مذہب یا کوئی معاشرہ اس کی توجیہہ پیش نہیں کرسکتا کہ کسی ایک فرد کی زندگی کے فیصلے کوئی دوسرا زورآور کرے تاآنکہ وہ اپنی آزاد مرضی کے ساتھ اپنے فیصلوں کا اختیار کسی کو سونپ دے۔ لیکن ہم ہیں کہ جھوٹی غیرت کے تقاضے نبھانا ایسے ہی ضروری سمجھتے ہیں جیسے کوئی بھوکا پیٹ بھرنے کو ضروری سمجھے۔

یہ درست ہے کہ کوئی بھی مذہب یا سماج مادر پدرآزادی یا شتر بے مہاری کی اجازت نہیں دے سکتا لیکن یہ ایسا معاملہ ہر گز نہیں، کسی بھی مذہب کا عالم اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ مرد ہو یا عورت اسے شادی کرنے کے معاملے میں اپنی پسند اپنانے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ فردجسے چاہے اپنے جیون ساتھی کے طور پر منتخب کر لے۔ ایسا نہیں کہ جبری شادی کا سلوک صرف خواتین کے ساتھ ہوتا ہے، پاکستانی معاشرے میں ایسے مردوں کی بھی کمی نہیں جن کو ان کی پسند کے برعکس خاندانی دباؤ کے ذریعے ایک ایسے کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اور کچھ نہ ہو تو اماں دو ٹسوے بہاتی ہے اورکھلی دھمکی دیتی ہے’’تینوں میں بتی دھاراں نئیں بخشنیاں ‘‘ (تمھیں میں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی )اور مرد بیچارا’’ بتی دھاریں ‘‘بخشوانے کے چکر میں اپنے خرمن کو اپنے ہاتھوں آگ لگانے پر مجبور ہوجاتاہے۔

ایسا ہرگز نہیں کہ محبت کی شادی کامیاب شادی کی ضمانت ہے میں نے اپنی زندگی میں بیسیوں محبت کی شادیاں ناکام ہوتے دیکھی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خاندانی شادیاں بھی شاندار خانگی زندگی کا روپ دھار لیتی ہیں۔ لیکن اس میں بنیادی بات فرد کی مرضی اور منشا کی ہے چاہے وہ مرد ہویاعورت دونوں کو ایک جیسا حق حاصل ہے۔ ایک اور مشکل جو نئے شادی شدہ جوڑے خاص طور پر نئی نویلی دلہن کو بھوگنی پڑتی ہے کہ شادی کے چند ہفتے بعد ہی خاندان کی بڑی بوڑھیاں اس کا پیٹ ٹٹولنا شروع کردیتی ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک محفل میں ایک محترم دوست نے اپنا تجربہ بیان فرمایا کہ شادی کے بعد انہوں نے اہلیہ سے کہا کہ سال دوسال تک بچے کی فکر چھوڑ دو، دلہن پڑھی لکھی اور باشعور لیکن جہاندیدہ بھی تھی، جھٹ سے اس نے جواب دیا تمھارے اور اپنے خاندان میں جواب میں نے دینا ہے تم نے نہیں، اس لئے سال دوسال صبر کا خیال دل سے نکال دو۔ تو اب بتائیے کہ ایسے معاشرے میں پسند کی شادی کی بات کرنے والا چاہے وہ مرد ہو یا عورت دونوں صورتوں میں اپنی جان کا دشمن خود ہی نہیں بن جاتا ہے۔

پسند کی شادی کرے تو خاندان اور سماج وہ سلوک کرتے ہیں کہ شادی شدہ جوڑے کو زندگی سے موت اچھی لگنے لگتی ہے۔ خاندان کی مرضی سے شادی کریں تو ساری عمر اسی حسرت میں گزرے گی اور یہ کسک کبھی دل سے جائے گی نہیں۔ جکڑن لیکن اس قدر ہے کہ ان باتوں کا اظہار تک کرنے کا یارا کسی میں نہیں۔ صورت حال بہت زیادہ پیچیدہ اس وقت ہوتی ہے جب شادی شدہ جوڑے میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہوپائے لیکن خاندانی دباؤ کے پیش نظر وہ بچہ پیدا کربیٹھیں، اس صورت میں انہیں یہ مقدس مشورہ دیا جاتا ہے کہ اب تم نے بچے کی خاطر نبھا کرنا ہے۔ یعنی جو آپ نے کیا اس کے الٹ مشورہ اس کو دے رہے ہیں، سال دوسا ل پہلے توآپ نے خوداپنی ہی اولاد کی خواہشات کا گلا گھونٹا اور اب اس کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اپنی اولاد کی خاطرسمجھوتہ کرلو!یعنی
ساقی پلارئیا تھا بھر بھر کے جام سب نے
مَنے یہ کہہ رئیا تھا کہ تَیں باہر جا کے پی

ہمارے ملک میں ایسے بقراطوں کی بھی کمی نہیں جو عالموں کا روپ دھارے دین کی تعلیمات کو اپنی جاہل فکر کے تناظر میں بیان کرتے ہیں، لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ ان نام نہاد ملاؤں کی بیان کردہ خرافات کا دین یا اخلاقیات سے دور کابھی واسطہ نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ معاشرے میں تعلیم اور شعور کی کمی مرد اور عورت دونوں کو اس قدر فکری آزادی عطا ہی نہیں کرتی کہ وہ اپنے مسلمہ حق پر مہذب طریقے سے اصرار کریں یا اپنے بنیادی حق کے حصول کے لئے ڈٹ جائیں۔ تعلیم اور شعور کی کمی کا ملاپ جب باغیانہ سوچ سے ہوتا ہے تو پھر تشدد جنم لیتا ہے۔ مظفرگڑھ کا واقعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ آسیہ کوئی ڈرپوک خاتون نہیں، کوئی ڈرپوک انسان کسی دوسرے انسان کی جان لینے کے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟ بادی النظر میں وہ ایک غیر تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ خاتون محسوس ہوتی ہے اور اگر تعلیم یافتہ ہے بھی تو اس میں وہ شعور، ہمت اوربصیرت پیدا نہیں ہوسکی جس کا تقاضہ تعلیم کرتی ہے۔

26 اکتوبر کوبہاولپور میں خانقاہ شریف کے نوجوان اویس اور بہاولپور کی رہائشی انوشہ مشتاق نے ہوٹل کے کمرے میں بند ہوکر اس لئے جان دے دی کہ ان کے خاندان ان کی شادی پر راضی نہیں تھے۔ اب ان دونوں کے لاشے اٹھانے کے بعد ان کے خاندان بھی سوچتے توہوں گے کہ ان دونوں کی شادی کر دینا ہی بہتر ہوتا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آسیہ بی بی اگر شادی کے وقت اس بہادری کا مظاہرہ انکار کی صورت میں کرتی تو یہ زیادہ بہتر ہوتا لیکن اس صورت میں بھی ہم جانتے ہیں کہ اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوسکتا تھا۔ سو آسیہ بی بی نے چند مہینوں کے لئے تو حالات سے سمجھوتا کیا لیکن اس کے بعد اس نے جو قدم اٹھایا اس نے خود آسیہ اوراس کے سسرالی مقتولین کو بھی عبرت کی مثال بنا دیا۔ ظاہر ہے تمام مقتولین آسیہ پر اس ظلم کے ذمہ دار نہ تھے لیکن اس پر جو ظلم ہو ا اس ظلم نے بھی تو بچے جننے تھے۔

وقت آگیا ہے کہ ہمیں باشعور اور تعلیم یافتہ معاشروں کی طرح جبری شادیوں سے مکمل طور پر انکار کردیناچاہیے۔ تمام مذاہب بھی انسان کے اس حق کی مکمل حفاظت کرتے ہیں۔ بہترین اصول وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے وضع کیا جب آپ نے جبری شادی کا شکار ہونے والی لڑکی سے فرمایا چاہوتو شادی برقرار رکھو چاہے تو چھوڑ دو۔ مناسب حدود کے اندر لڑکے اور لڑکی کو اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے جیون ساتھی کے انتخاب سے پہلے اس کی طبیعت، مزاج اور دوسرے معاملات سے آگاہی حاصل کرسکیں۔ والدین اپنی نگرانی میں بچوں کو مناسب ماحول مہیا کریں تو یہ موجودہ حالات کے تناظر میں ایک مناسب بات ہوگی۔

ریاست کو بھی اس سلسلے میں اقدامات کرنے چاہئیں۔ تعلیم جو فرد کو شعور بخشے اس کو عام کرنا ہوگا۔ نکا ح کے عمل کو گلی محلے کے مولوی کی دسترس سے نکال کر ایسا بندوبست کیا جائے کہ شادی کے وقت لڑکی اور لڑکا ریاست کے نمائندے کے سامنے کسی دباؤ کے بغیر اس بات کا اظہار کریں کہ وہ دونوں اپنی آزاد مرضی کے ساتھ بغیر کسی دباؤ کے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ علما ء کرام پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دین کی حقیقی تعلیمات کو زمانہ جدید کے تقاضو ں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے سوچ وبچار کریں۔ والدین کو یہ بات سمجھائیں کہ جو حق دین نے ان کی اولاد کو دیا ہے اس کو چھیننے کی کوشش نہ کریں ورنہ مظفر گڑھ جیسے سانحوں کو کوئی نہیں روک سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).