اردو میڈم


ہماری بحث ابتدائی مراحل سے گزر کر دلائل کی حدود میں داخل ہو چکی تھی۔ میں نے ٹائی ڈھیلی کر لی تھی جبکہ اس نے اپنے پاؤں سمیٹ کر اوپر کرسی پر رکھ لئے تھے۔ ہمارے سامنے پڑے چائے کی پیالیاں جوں کی توں بھری پڑی تھیں اور چائے کب کی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ چائے کی پیالی کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنی بات کو آگے بڑھایا:

”ہمارے ملک میں اردو کی ترویج اور اشاعت ہی میں ملک کی تعمیر و ترقی کا راز پنہاں ہے“۔

”یار میں کتنی دیر سے تمہیں یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ تعمیر و ترقی کا دارومدار زبان پر نہیں علم پر ہے۔ زبان صرف ایک ٹول (آلہ) ہے جو علم کو حاصل کرنے میں ہماری مددگار ہے۔ “ اس نے اپنا مؤقف دہراتے ہوئے میری بات سے گیارھویں بار اختلاف کیا۔

ہم دونوں دوست سات سال کے بعد آج اکٹھے ہوئے تھے۔ ہمارا بچپن، لڑکپن اور نوجوانی اکٹھی گزری تھی۔ میری اس سے پہلی ملاقات اس انگریزی تعلیم گاہ میں ہوئی جہاں ہم دونوں کا داخلہ تیسری جماعت میں ایک ہی روز کروایا گیا۔ قدرتی طور پر ہم ایک دوسرے کے قریب پہلے دن ہی آ گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی مضبوط ہوتی چلی گئی۔ ہم اسکول سے گزر کر کالج اور کالج سے یونیورسٹی میں پہنچ گئے۔ اپنی ساری تعلیم ہم نے انگریزی میں حاصل کی تھی۔ ماسٹرز کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم حاصل کرنے انگلستان چلا گیا جب کہ میں نے ایک کثیر القومی (ملٹی نیشنل) ادارے میں ملازمت کر لی۔ زندگی ایک مخصوص رفتار سے رواں دواں ہو گئی۔ میرا اس سے مسلسل رابطہ رہا۔ میری شادی میں وہ انگلستان سے آکر شریک ہوا تھا۔ جبکہ اس نے اب تک شادی نہیں کی تھی۔

حصول تعلیم میں وہ اس قدر غرق تھا کہ ایک کے بعد دوسری ڈگری حاصل کرتا جا رہا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے بخوبی واقف تھے اور ہمارے درمیان یونیورسٹی کے زمانے میں مختلف موضوعات پر گرما گرم بحثیں ہوتی رہتی تھیں۔ اکثر دوران بحث گرمی سردی ہو جاتی تھی مگر بحث کا انجام ایسے ہوتا تھا کہ تین یا چار مرتبہ اختلاف کے بعد یا تو میں اس سے متفق ہو جاتا تھا یا پھر وہ مجھ سے اتفاق کر لیا کرتا تھا۔ آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ہماری بحث اس نہج پر جا پہنچی ہو کہ وہ مجھ سے گیارہ مرتبہ اختلاف کر چکا ہو۔ مگر آج میرے گھر کے ڈرائینگ روم میں بالآخریہ موقع آن پہنچا تھا۔

وجہ اس کی شاید یہ تھی کہ وہ انگلستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا تھا اور انگریزی زبان اسے کسی بھی قسم کا علم حاصل کرنے سے باز نہ رکھ سکی تھی۔ جبکہ وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ میری تعلیم بھی انگریزی زبان میں ہی مکمل ہوئی تھی اور میری ملازمت بھی ایک ایسے ادارے میں تھی جہاں عمومی طور پر انگریزی ہی ذریعہ اظہار تھی۔ چناچہ ایسے میں میرا اردو زبان کی ترویج و اشاعت پر بضد رہنا اس کے لیے خاصا حیران کن تھا۔ مزید اس پر یہ کہ میری ہر دلیل کا اس نے زیادہ معقول دلیل سے جواب دیا تھا مگر میں اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔ اور جب دلیل کے جواب میں دلیل نہ سوجھ پا رہی ہو تو لہجہ تیز ہو ہی جایا کرتا ہے۔ سانسیں پھنکاروں سے مشابہ ہو جاتی ہیں اور رنگ سرخ پڑ جاتا ہے۔ اور اس وقت میں بعینہ اسی کیفیت میں مبتلا ہونے کی تیاری کر چکا تھا۔

میری اردو سے محبت اس کی سمجھ سے باہر تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی۔ کہ دورانِ تعلیم میں انگریزی ذریعہ تعلیم کا بہت بڑا حامی تھا۔ یونیورسٹی کے دنوں میں ایک تقریری مقابلہ اسی موضوع پر میں جیت چکا تھا اور میں نے انگریزی ذریعہ تعلیم کا کامیاب دفاع کیا تھا۔ میں نے اپنا گھر بھی مغربی طرز تعمیر کو مدنظر رکھ کر بنایا تھا۔ گھر میں جا بجا مغربی تہذیب کی نشانیاں بکھری ہوئی تھیں۔ خود میں سوٹ میں ملبوس تھا جبکہ وہ سادہ سے کرتا شلوار میں لاپروائی سے بیٹھا تھا۔ میری بیوی بھی جینز اور لانگ شرٹ میں گھر میں گھوم رہی تھی اور میرا پانچ سال کا بچہ بھی شکل و صورت سے بنا بنایا انگریز لگتا تھا۔ ان تمام باتوں کے ہوتے اردو زبان کے لیے میری بے تابی اس کے حلق سے اتر نہیں پا رہی تھی۔

گیارھویں بار کے اختلاف کے بعد بھی جب میں نے اس سے اتفاق نہیں کیا تو اس نے بےچارگی سے میری طرف دیکھا اورمدت کی ٹھنڈی ہوئی چائے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اتفاق سے اسی وقت میری بیوی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ میرے دوست کے چہرے کے تاثرات سے اسے فوری طور پر معلوم ہو گیا کہ ٹھنڈی چائے کو معدے میں اتارنے کے سلسلے میں اس پر کڑی آزمائش کا وقت ہے۔ چناچہ اس نے چائے کی پیالیاں اٹھائیں اور جلد ہی گرم چائے لانے کا کہتی ہوئی ڈرائینگ روم سے نکل گئی۔ میرا دوست ایک ٹھنڈی سانس لے کر صوفے کی پشت سے ٹک گیا۔

اورعین اسی وقت میرا بیٹا دوڑتا ہوا ڈرائینگ روم میں داخل ہوا۔
”پاپا۔ پاپا۔ اردو میڈم آ گئی۔ “

دوسرے ہی لمحے میرے بیٹے کی انتہائی خوبصورت اور طرح دار اردو کی ٹیوٹر اٹھلاتی ہوئی ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی۔
میرے دوست نے ملامت بھرے انداز میں مجھے گھورا اور میرے بیٹے کو گود میں اٹھا لیا۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad