مردانہ کمزوری کا اعتراف


محترمہ ڈاکٹر لبنیٰ مرزا اپنے سماجی تجزیوں اور طبی مشوروں سے ایک ایسی معاشرتی خدمت کا فریضہ انجام دے رہی ہیں جو زبانِ اردو میں بلاشبہ ایک نادر کام ہے۔ اگر یہ کہوں کہ ان کا مداح ہوں تو یہ شاید ایک رسمی دروغ گوئی ہو گی، لیکن کم از کم اتنا اعتراف لازمی ہے کہ میں ان کے مضامین پر نہ صرف کِلک کرتا ہوں بلکہ اگر دلچسپی محسوس ہو تو پورا بھی پڑھ لیتا ہوں۔ مثال کے طور پر ان کی والدہ کی داستانِ حیات میں نے بہت شوق سے پڑھی۔ اس کے علاوہ جنسیات بالخصوص ان کی وہ تحریریں جو مختلف جنسی ابہامات کو واضح کرنے کی ایک کاوش ہیں میرے لئے کچھ نہ کچھ دلچسپی کے سامان رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کی تحریر میں ان کی شخصیت کے دو عکس سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ ان میں سے پہلا عکس ان کی اپنے پیشے سے محبت ہے جو ظاہر ہے کہ ان کی انسان اور علم دوستی کا ثبوت ہے۔ طبی معاملات پر ان کی تحریر یں یہ واضح کرتی ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے مریضوں کی مدد کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں بلکہ خود مریضوں کو بھی اپنے مرض کے فہم کے قابل بنانا چاہتی ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی سکون و اطمینان سے گزار سکیں۔ دوسرا عکس تحقیق و تشخیص کے معاملات میں ان کا علمی عجز ہے۔ وہ طبی معاملات میں ہر قسم کے حتمی دعوے سے گریز کرتی ہیں۔

میرے لئے ان کی شخصیت کے یہ دنوں عکس نہایت قابلِ رشک ہیں۔ پہلا عکس یہ ظاہر کرتا ہے ڈاکٹر صاحبہ مرض کو مریض پر خارج سے حملہ آور ہوتے نہیں دیکھتیں بلکہ مریض اور مرض کو ایک اکائی کے طور پر فرض کرتی ہیں۔ یوں اس اکائی کو اپنا موضوع بنانے سے وہ مرض اور مریض دونوں کا مطالعہ کرتی ہیں۔ حتمیت سے ان کے پرہیز پر مبنی دوسرا عکس یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ سہل فکری کا شکار نہیں بلکہ تمام تر ممکنہ پیچیدگیوں سے آشنا ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ پیچیدگیاں فی الحال ان کے مطالعے میں نہ بھی ہوں تو امکانی طور پر تو وجود رکھتی ہی ہیں! لیکن چونکہ وہ ایک طبیب ہیں اور تشخیص کا عمل مسلسل تجزیے کی بجائے فوری فیصلے کا متقاضی ہے لہٰذا و ہ چاہتی ہیں کہ موضوع سے کسی بھی قسم کے سمجھوتے قارئین کے علم میں آ جائیں۔

مثال کے طور ان کا ایک مضمون جو میں نے خود شناسی کی خاطر بہت غور سےپڑھا ’’مردوں میں جنسی کمزوری‘‘ کے عنوان سے ہے۔ میں خوش نصیب ہوں کہ جن دس ہزار مردوں نے یہ مضمون پڑھا ان میں سے میں بھی ایک ہوں۔ میرا ذہن کھولنے میں اس کا پہلا جملہ ہی بہت کاری ثابت ہوا۔ ڈاکٹر صاحبہ لکھتی ہیں کہ ’’یہ بہت لمبا چوڑا موضوع ہے جس پر ہزاروں کتابیں اور مضامین موجود ہیں۔ قارئین کو اپنی معلومات میں‌ اضافہ کرنے کے لیے اس دائرے میں ریسرچ جاری رکھنی چاہئیے۔ اس مضمون کو مکمل نہ سمجھا جائے۔ ‘‘ اس کے بعد آنے والے متن میں وہ ایک کے بعد ہر گتھی یوں سلجھاتی چلی جاتی ہیں کہ ایک طرف تو پیچیدگی میں اضافہ ہوتا ہے اور دوسری طرف مسئلہ ذہن میں اپنی تمام تر جہتوں کے ساتھ واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔ مجھے یہ معلوم ہوا کہ میرے جیسے مشرقی مرد جو سرعتِ انزال، جریان، احتلام اور سست انزالی جیسے پیچیدہ امراض کو ’’مردانہ کمزوری ‘‘ کے زمرے میں ڈال کر بس ایک ہی جسمانی عضو تک محدود کرتے، دیسی عامل بابوں سے رجوع کرتے رہے کس حد تک نادان تھے! مردانہ کمزوری تو ان سب سے مختلف چیز ہے جو گھریلو پریشانیوں اور رات کو خراٹے لینے سے بھی متعلق ہے۔

میں نے یہ طویل تمہید محترمہ ڈاکٹر لبنی مرزا سے صرف اسی معذرت کی خاطر کی کہ پریشان خیالی پر مبنی میرا مضمون ’’ڈاکٹر خالد سہیل ایک اچھے آدمی ہیں!‘‘ ان کی طبیعت میں گرانی کا باعث بنا۔ دراصل ہوا یوں کہ جب میں اپنے مضمون پر ان کے گراں قدر تبصرے میں ان کی قابلِ رشک شخصیت کے دونوں اہم عکس دیکھنے میں ناکام رہا تو مجھے خیال آیا کہ اس حادثے کی ذمہ داری سراسر مجھ پر عائد ہوتی ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ کے پہلے دو جملے (’’جس بندے نے وہ آرٹیکل لکھا تھا کہ ڈاکٹر سہیل اچھے آدمی نہیں‌ ہیں وہ ان کی فیور میں ‌لکھا گیا تھا۔ کیا یہ آرٹیکل بھی متضاد بات کہنا چاہتا ہے؟ ‘‘) نہ صرف سوالیہ انداز میں ایک غیرضروی حتمی تعبیر کے ذریعے تقریباً تین ہزار الفاظ کے متن کی ناجائز، بلاجواز اور خواہ مخواہ تحدید کر رہے ہیں بلکہ مکمل متن ہی کو نفسِ متن سے کہیں دور متعین کرتے نظر آتے ہیں۔

دوسرے دو جملے (’’ڈاکٹر سہیل تو سادہ سا لکھتے ہیں جو ایک مرتبہ آسانی سے پڑھ کر سمجھ آجاتا ہے۔ اتنی مشکل اردو میں لکھا پڑھ کر سیدھے سادھے لوگ ویسے ہی ہاتھ جوڑ لیتے ہوں گے۔ ‘‘) روزمرہ محاورے میں تفلسف نہ کر سکنے والے اور ذہن میں موجود تصورات کے آسان متبادلات سے نابلد، مردانہ کمزوری کے شکار ایک بُرے لکھاری کو اپنا مرض اپنے تک ہی رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

تیسرے دونوں جملے (صاف صاف یہ لکھا ہے کہ ہمیں‌ نتائج اخذ کرنے کے لیے شہادت یا تجربے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی بو علی سینا اور غزالی کی طرح‌ معلومات کے منبع کا فرق ہے) نہایت اہم ہیں اور بیک وقت تین دعوے کرتے ہیں۔ اول تو یہ کہ ڈاکٹر صاحبہ کا شمار ’’سیدھے سادھے لوگوں‘‘ میں نہیں ہوتا۔ انہیں ’’ہاتھ جوڑنے ‘‘ کی ضرورت نہیں پڑی اور وہ ’’صاف صاف‘‘ ساری بات سمجھ گئی ہیں۔ دوم، وہ بات یہ ہے کہ ہمیں نتائج اخذ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور مضمون قارئین کو مشاہدے اور تجربے سے بدظن کرنے کے لئے لکھا گیا ہے۔ نکتۂ سوم اس طرح دلچسپ تر ہے کہ اس میں مزید دو دعوے شامل ہیں۔ پہلا یہ کہ ڈاکٹر صاحبہ ابن سینا اور غزالی کو پڑھ چکی ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ ان پر اس حد تک قادر ہیں کہ نہ صرف ان کے علمیاتی منہج کی تعبیر، بلکہ اس تعبیر کا ناچیز کی پریشان خیالی سے تعلق بھی انہیں ’’صاف صاف‘‘ دکھائی دے رہا ہے۔

آخری دوجملے (’’یہ ایک انتہائی خطرناک راستہ ہے۔ اس سوچ کو اس سوچ کے رکھنے والوں‌ کی زندگی کی حدود تک قید نہ کیا گیا تو پچھلے 700 سال کی طرح‌ اگلے 700 سال بھی اندھیرے کا سفر چلتا رہے گا‘‘) ایک فتویٰ زدہ آگاہی، ایک المیے کی نشاندہی اور اس المیے کے سدباب کے مفت مشورے پر مشتمل ہیں۔ ظاہر کہ اس مرض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے وہ ہر اس قسم کی سوچ کا گلا دبا دینے کی تجویز دے رہی ہیں جو انہیں اس فقیرِ پُرتقصیر کے مضمون میں صاف صاف نظر آگئی ہے۔

میں ڈاکٹر صاحبہ کی تشخیص و تجویز کا تو پہلے ہی قائل تھا اب مطالعے اور تنقید کا بھی گرویدہ ہو چکا ہوں۔ لہٰذا پوری ذمہ داری کے ساتھ نہ صرف اپنی مردانہ کمزوری بلکہ اس واقعے کی بھی مکمل ذمہ داری لیتا ہوں جو یوں اندھیرے پھیلانے کا سبب بنا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں ابن سینا اور غزالی کو براہِ راست پڑھنے کے قابل نہیں۔ دراصل علمیاتی مناہج اور ان کی باہمی نسبتوں کی دریافت ایک بہت لمبا چوڑا موضوع ہے جس پر سینکڑوں کتابیں اورمضامین موجود ہیں اور مسلسل تحقیق جاری ہے۔ غزالی اور ابن سینا کی کچھ کتابوں کے تراجم کے علاوہ نظریۂ علم پر ان کے مناہج کے باہمی متعلقات صرف تین یا چار مختلف مغربی شارحین کے ذریعے سے ہی میرے علم میں آئے ہیں۔ میں تاحال ان میں ترجیح کے قابل بھی نہیں۔

یوں میں نہ صرف پریشان خیال بلکہ ایک کم علم آدمی بھی ہوں۔ لہٰذا اپنی یہ کمزوریاں چھپانے کے لئے گھما پھر کر اِدھر اُدھر کی باتوں میں وقت ضائع کرتا رہتا ہوں۔ میری ڈاکٹر صاحبہ سے درخواست ہے کہ میرے ان امراض ِ مشکل پسندی کو ہرگز میرے علمی تکبر پر محمول نہ کیا جائے۔ یہ ایک ایسی کمزوری ہے جس کا علاج جنسی غدودوں کی غیرفعالیت اور سوزش سے نہیں بلکہ ذہنی و لسانی غدودوں سے ہے۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi