دینا جناح کون تھیں؟ دوسرا حصہ


قائداعظم کے بیشتر سوانح نگاروں نے جن میں اسٹینلے وولپرٹ تک شامل ہیں یہ لکھا کہ قائداعظم نے شادی کے بعد اپنی لاڈلی بیٹی سے کبھی گفتگو نہیں کی۔ بعض مصنّفین نے یہاں تک لکھا کہ جب قائداعظم شدید علیل ہوئے اور ان کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو دینا نے باپ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ مگر قائداعظم نے اس ملاقات کی بھی اجازت نہ دی۔ اس طرح وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے اور زندگی کی آخری سانس تک وہ دینا کی اور دینا ان کی شکل نہ دیکھ سکی۔ مگر حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔

30 مئی 1939 ءکو قائداعظم نے اپنا آخری وصیت نامہ تحریر کیا۔ اس وصیت نامے کی پہلی شق تھی، یہ میرا آخری وصیت نامہ ہے۔ میں اپنے دیگر وصیت نامے منسوخ کرتا ہوں۔ دوسری شق میں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح، سولسٹر محمد علی چائے والا اور نوابزادہ لیاقت علی خان کو اس وصیت نامے کا موصی، عامل اور ٹرسٹی مقرر کیا۔ اس وصیت نامے کی شق نمبر10 میں واضح طور پر تحریر تھا کہ:

”میں اپنے عاملین کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ 200000 روپے (دو لاکھ یا دو سو ہزار) مختص کردیں جن سے 6 فی صد کے حساب سے 1000 روپے، ایک ہزار روپے آمدنی ہوگی اور وہ اس سے جو بھی آمدنی ہو ہر ماہ میری بیٹی کو تاحیات ادا کریں اور اس کی وفات کے بعد دو لاکھ کی مذکورہ رقم اس کے بچوں، لڑکے یا لڑکیوں میں برابر تقسیم کردیں اور بے اولاد ہونے کی صورت میں وہ رقم میری بقیہ جائیداد کا حصہ شمار ہوگی“

قائداعظم نے اپنی وصیت میں واضح طور پر اپنی بیٹی کو اپنی جائیداد کے ایک حصے کو وارث قرار دیا مگر اس کے باوجود چند برس تک وہ اپنی بیٹی سے ملنے میں متامل رہے۔ جبکہ دینا مسلسل کوشش کرتی رہیں کہ ان کے تعلقات ان کے عظیم والد سے دوبارہ استوار ہوجائیں۔ اپریل 1941ءمیں قائداعظم مدراس میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے دوران بیمار ہوگئے۔ یہ خبر دینا کو ملی تو اس نے فوری طور پر ایک ٹیلی گرا م کے ذریعے اپنے والد کی خیریت دریافت کی۔ ٹیلی گرام کی عبارت یہ تھی:
M A JINNAH PRESIDENT MUSLIM LEAGUE MADRAS MUCH CONCERNED YOUR HEALTH ANXIOUS LOVE DINBAI
یہ ٹیلی گرام حکومت پاکستان کے نیشنل آرکائیوز ڈپارٹمنٹ میں آج بھی محفوظ ہے۔

1943ءکے لگ بھگ دینا اور ان کے شوہر نیول واڈیا میں علیحدگی ہوگئی، اس وقت تک دینا دو بچوں، بیٹی ڈائنا اور بیٹے نصلی کی ماں بن چکی تھیں۔ شوہر سے علیحدگی کے بعد قائداعظم اور ان کی بیٹی میں ایک مرتبہ پھر روابط استوار ہوگئے، گو اب ان میں پہلی جیسی گرم جوشی موجود نہ تھی۔

دینا اپنی ایک یادداشت میں تحریر کرتی ہیں:
”میرے والد اگرچہ اپنے جذبات کو چھپانے والے شخص تھے لیکن وہ ایک محبت کرنے والے باپ تھے۔ میری ان سے آخری ملاقات 1946ءمیں بمبئی میں ہوئی۔ وہ نئی دہلی سے آئے تھے۔ جہاں وہ انتہائی اہم مذاکرات میں مصروف رہے تھے۔ انہوں نے مجھے فون کیا اور مجھے اور میرے بچوں کو چائے پر مدعو کیا۔ وہ ہم سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ اس وقت میری بیٹی ڈائنا پانچ برس کی اور بیٹا نصلی دو برس کا تھا۔ وہ تمام وقت بچوں اور سیاست کے بارے میں بولتے رہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ پاکستان ناگزیر ہے۔ وہ دہلی میں انتہائی مصروف وقت گزار کر آئے تھے مگر ہمارے لیے تحفے خریدنا نہیں بھولے تھے۔ جب ہم ان سے رخصت ہونے لگے تو وہ نصلی کو بازوؤں میں جکڑنے کے لیے جھکے۔ ان کی سرمئی ٹوپی، جو وہ اب اکثر پہننے لگے تھے اور جو انہی کے نام کی نسبت سے جناح کیپ کہلانے لگی تھی، نصلی کے ہاتھ میں آگئی۔ میرے والد نے اگلے ہی لمحے وہ ٹوپی نصلی کے سر پر رکھ دی اور بولے ”میرے بچے! یہ تمہاری ہوئی“۔ نصلی یہ تحفہ پاکر بہت خوش ہوا۔ مجھے یہ واقعہ اس لیے ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس سے میرے والد کی وہ بے کراں محبت ظاہر ہوتی ہے جو ان کے دل میں میرے اور میرے بچوں کے لیے تھی۔

میرے والد کے کچھ ناقدین کہتے ہیں کہ وہ بہت متکبر تھے۔ یہ غلط ہے۔ دراصل وہ جیسے کو تیسا کے قائل تھے۔ وہ میری طرح ایک بہت نجی شخص تھے۔ اصولوں کی خاطر وہ اپنا سر ہمیشہ اونچا رکھتے تھے۔ وہ خود سے اور دوسروں سے عوامی یا ذاتی زندگی میں کبھی جھوٹ بھی نہیں بولتے تھے۔ جب لوگ ان کے بارے میں غلط سلط باتیں کرتے ہیں تو مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ ایسے لوگ جو ان سے کبھی ملے تک نہیں وہ بھی میرے اور میرے والد کے تعلق کے حوالے سے غلط باتیں بیان کرتے ہیں۔ وہ میرے والد کو عام انسانوں کی سطح پر لانے کے لیے داستان طرازیوں سے بھی گریز نہیں کرتے۔

برصغیر نے مسلمانوں کے بہت سے رہنما پیدا کیے مگر میرے والد کے علاوہ کسی نے انہیں ایک آزاد ملک نہیں دلوایا۔ اہل پاکستان کو اگر میرے والد پر فخر ہے تو بالکل ٹھیک فخر ہے۔ جناح نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ ہوتا“۔

قائداعظم اور دینا میں قیام پاکستان سے کچھ پہلے تک باقاعدہ خط کتابت بھی رہی۔ اسلام آباد میں حکومت پاکستان کے ڈپارٹمنٹ آف آرکائیوز میں دینا کے ایسے کئی خطوط موجود ہیں جو انہوں نے اپنے عظیم باپ کو وقتاً فوقتاً تحریر کیے تھے۔ ان خطوط کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دینا اپنے باپ کی سیاسی سرگرمیوں سے نہ صرف لمحہ بہ لمحہ باخبر رہتی تھیں بلکہ ان پر اظہار رائے بھی کرتی رہتی تھیں۔ انہوں نے اپنے ایک خط میں جو 28 اپریل1947ءکو لکھا گیا تھا قائداعظم کو مبارک باد پیش کی ہے کہ پاکستان کا مطالبہ اصولی طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک خط میں جو 2 جون1947ءکو شروع ہوا اور 5 جون تک لکھا جاتا رہا، قائداعظم کی اس تاریخی تقریر پر اظہار رائے کیا گیا جو انہوں نے3 جون 1947ءکو آل انڈیا ریڈیو سے کی تھی۔ اس خط میں دینا نے لکھا:

”میں نے 3 جون کو آپ کی تقریر سنی۔ میرا خیال ہے آپ کی تقریر بہترین اور برمحل تھی۔ اگرچہ آپ وہ سب کچھ حاصل نہیں کرسکے جو آپ چاہتے تھے مگر جو کچھ آپ کو مل گیا ہے کانگریس سے وہ بھی ہضم نہیں ہوگا۔ ہند و پاکستان کے مطالبے کے مانے جانے اور دو آزاد ریاستوں کے قیام سے بہت ناخوش ہیں۔ تاہم آپ کا اصل کام تو پاکستان بننے کے بعد شروع ہوگا۔ میں جانتی ہوں آپ اس میں بھی کامیاب رہیں گے“۔

28 اپریل1947ءکے خط میں دینا نے قائداعظم کو یہ بھی لکھا تھا:
”میں نے سنا ہے کہ آپ نے ”ساؤتھ کورٹ“ بیس لاکھ روپے میں ڈالمیا کو بیچ دیا ہے۔ یہ بہت اچھی قیمت ہے اور یقینا آپ بھی خوش ہوں گے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ مکان کی قیمت میں فرنیچر اور رتی کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ اگر ایسا ہے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ رتی کی کتابوں میں سے کچھ کتابیں بالخصوص بائرن، شیلے اور آسکر وائلڈ کے شعری مجموعے مجھے دلوا دیجیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں مطالعہ کی کتنی شوقین ہوں اور یہاں بمبئی میں اچھی کتابوں کا حصول کتنا مشکل ہے“۔

3 اور 5 جون والے خط میں دینا نے ایک مرتبہ پھر ساؤتھ کورٹ کا ذکر کیا اور لکھا:
”مجھے افسوس ہے کہ ساؤتھ کورٹ کو فروخت کرنے والی اطلاع غلط ثابت ہوئی۔ میں نے اس بارے میں ”فورم میگزین“ میں پڑھا تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان کا رسالہ اس قدر جھوٹی خبریں شائع کرتا ہے“۔

ساؤتھ کورٹ میں قائداعظم کا جو فرنیچر اور ذاتی اشیا تھیں، انہیں قائداعظم کے دوست رجب علی بھائی ابراہیم باٹلی والا نے اپنی نگرانی میں ”پیک“ کروایا اور برٹش انڈیا کے بحری جہازوں دوارکا اور دمرا کے ذریعہ کراچی بھجوا دیا۔ کراچی میں لکڑی کے ان بڑے بڑے صندوقوں کے میکننز کے منیجر اقبال شفیع نے وصول کیا۔ لگتا ہے کہ ان صندوقوں میں رتی کی کتابیں بھی تھیں۔ قائداعظم کا یہ فرنیچر اس وقت فلیگ اسٹاف ہاؤس (قائداعظم ہاؤس) کراچی میں موجود ہے۔ جبکہ رتی کی کتابیں جامعہ کراچی کی ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کے قائداعظم سیکشن کی زینت ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد دینا اپنے بچوں کے ہمراہ بمبئی میں مقیم رہیں۔ ایک روایت کے مطابق قائداعظم کی علالت کی خبریں سن کر دینا نے ان کی عیادت کے لیے پاکستان آنا چاہا مگر قائداعظم کی ذاتی ہدایات کے باعث انہیں ویزا جاری نہیں کیا گیا۔

11 ستمبر1947 ءکو قائداعظم وفات پاگئے۔ 12 ستمب1948ءکو صبح سوا آٹھ بجے گورنر جنرل کا ایک طیارہ خصوصی طور پر بھارت گیا جہاں سے وہ دینا کو لے کرشام سوا پانچ بجے واپس کراچی آگیا۔ اس وقت تک قائداعظم کی تدفین نہیں ہوئی تھی۔

روزنامہ جنگ کراچی نے تدفین کی خبر رقم کرتے ہوئے تحریر کیا:
”قائداعظم کی اکلوتی صاحبزادی مسز نیوائل واڈیا ایک خاص طیارہ میں بمبئی سے کراچی پہنچیں تاکہ اپنے مرحوم باپ کا آخری دیدار کرلیں“۔
اسی خبر میں آگے چل کر مزید کہا گیا تھا:
”مس فاطمہ جناح علی الصبح سے برابر رو رہی تھیں۔ وہ سفید لباس میں ملبوس تھیں اور ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔ قائداعظم کی صاحبزادی کے آجانے سے ذرا آپ کو تسلی ہوئی“۔

دینا کے بیان کے علاوہ قائداعظم کی تدفین کے موقع پر دینا جناح کو ایک چارٹرڈ پرواز کے ذریعہ بھارت سے بلوایا جانا بھی اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ قائداعظم اپنی بیٹی کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے، والا افسانہ محض افسانہ ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

قائداعظم کی تدفین کے اگلے روز 13 ستمبر1948ءکو محترمہ فاطمہ جناح اور دینا واڈیا فلیگ اسٹاف ہاؤس تشریف لے گئیں جسے نہ تو قائداعظم نے خود تعمیر کرایا تھا اور نہ ہی اس میں کبھی رہے تھے۔ ان کی وہ ذاتی اشیا جو گورنر جنرل ہاؤس میں استعمال نہیں کی جاسکتی تھیں، اس بلڈنگ میں اسٹور کردی گئی تھیں۔ ان میں عمدہ قسم کے قالین اور فرنیچر بھی شامل تھا۔ مسز واڈیا فلیگ اسٹاف ہاؤس کے کمروں میں گئیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس موقع پر انہوں نے بہت ساری اشیا شناخت کرلیں۔ انہیں ان کی خریداری کا سال اور جگہ بھی یاد تھی۔ انہیں ہر شے کے متعلق ہر وہ تعریفی جملہ بھی یاد آرہا تھا جو قائداعظم نے اس چیز کے متعلق فرمایا تھا۔ یہ بات اور بھی تکلیف دہ تھی کیونکہ ان اشیا کو تقریباً 10 سال سے وہ نہیں دیکھ سکی تھیں۔

قائداعظم کی وفات کے 55 برس کے بعد23 مارچ2004ءکو دینا جناح ایک مرتبہ پھر پاکستان تشریف لائیں اس مرتبہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلی جانے والی ایک روزہ کرکٹ سیریز کے آخری میچ کو دیکھنے کے لئے پاکستان آئی تھیں اور انہیں اس دورے کی دعوت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے دی تھی ان کے ہمراہ ان کے بیٹے نصلی واڈیا، بہو اور پوتے نیس واڈیا اور جہانگیر واڈیا بھی تھے۔ پاکستان میں انہیں اسٹیٹ گیسٹ کا درجہ دیا گیا اور یہاں ان کے اعزازمیں کئی تقریبات منعقد ہوئیں۔

26مارچ 2004ءکو محترمہ دینا واڈیا اپنے والد قائداعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دینے کے لیے کراچی تشریف لائیں جہاں انہوں نے 56 برس بعد اپنے والد کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور کچھ دیر احتراماً خاموش کھڑی رہیں۔ انہوں نے مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات درج کیے :
This has been a very sad and wonderful (day) for me, make his dream for Pakistan come true

(ترجمہ:”آج کا دن میرے لئے انتہائی دکھ کا اور حیرت انگیز دن ہے خدا کرے کہ قائداعظم نے پاکستان کے لئے جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر ہو“)۔

اس موقع پر انہوں نے اپنی پھوپھی محترمہ فاطمہ جناح کے مزار پر بھی حاضری دی اور مزار قائد کے کمرہ نوادرات کو بھی دل چسپی سے دیکھا، انہوں نے وہاں نمائش پزیر تصویروں میں سے تین تصاویر کی نقول بھی مانگیں، بعدازاں انہوں نے اپنے بیٹے اور پوتوں کے ہمراہ فلیگ اسٹاف ہاؤس اور وزیر مینشن کا دورہ بھی کیا۔

انہوں نے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں مختلف شخصیات سے ملاقات بھی کی اور7 گھنٹے کے قیام کے بعد ممبئی واپس روانہ ہوگئیں۔
دینا جناح کے دو بچے ہوئے۔ ایک بیٹی(ڈائنا) اور ایک بیٹا (نصلی واڈیا)۔ 1943ءکے لگ بھگ ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہوگئی۔
2نومبر2017ءکو دینا جناح 98 سال کی عمر میں نیویارک میں وفات پاگئیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).