خواجہ سرا ایشوریا رائے سے ملاقات


چند سال پہلے کی بات ہے۔ میرا مسلم ٹاؤن موڑ (لاہور ) سے ہر روز گزر ہوتا تھا۔ پبلک وین کوئی تین سے چار منٹ سواری اٹھانے اور اتارنے کی غرض سے یہاں سٹاپ کرتی تھی۔ یہاں ایک خواجہ سرا بھیک مانگا کرتا تھا۔ اس کا ایک پاوں انگلیوں سمیت ہتھیلی تک کٹا ہوا تھا اور وہ ٹخنے اور ایڑی کے سہارے چلتا ہوا وین تک آتا، وین کی کھڑکی کھٹکھٹاتا اور بغیر بولے حسرت بھری نگاہوں سے بخشش کا طلب گار ہوتا۔ ایک دن مَیں نے اسے ہاتھ سے اشارہ کر کے بلایا تو اس نے میرے آگے ہاتھ پھیلا دیا۔ مَیں نے بخشش دی اور اس کا نام پوچھا۔ مجھے خواجہ سراوں کے نام جاننے میں بچپن سے ہی دلچسپی تھی کیونکہ یہ فلم اداکاروں کے نام پر نام رکھتے ہیں۔ (لیکن بپچن میں جب کبھی میں راستے میں اِن کو دیکھ لیتی تو مجھے اِن سے خوف بھی آتا تھا جس کی مجھے آج تک وجہ معلوم نہیں ہو سکی کہ ایسا کیوں تھا)۔ مَیں نے سوچا کہ شاید اِس کا نام ایشوریا ہو گا لیکن مجھے پتا چلا کہ یہ خواجہ سرا بول نہیں سکتا اور اِتنےمیں وین چل پڑی۔

اب یہ روز کا معمول بن گیا کہ وہ سیدھا میری طرف آتا اور کچھ کہے بغیر ہاتھ پھیلتا اور بخشش لے کر واپس سائے میں کھڑا ہونے کے لئے لنگڑاتا ہوا چلا جاتا اور دوسری وین کا انتظار کرتا۔ ایک دن وین کی فرنٹ سیٹ پر میرے ساتھ ایک خاتون بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ حسب معمول سٹاپ پر یہی سین دہرایا گیا لیکن اِس بار مجھے اُس خاتون نے ڈانٹا کہ مَیں نے اِس خواجہ سرا کو بخشش کیوں دی، کیونکہ اِس سے پہلے مَیں ایک جوان فقیر کو انکار کر چکی تھی۔ خاتون نے کہا کہ مجھے اِن کو اِس لئے بخشش نہیں دینی چاہیے کیونکہ یہ ناچ گانا کرتے ہیں اور ایسا کرنا مذہب میں حرام ہے۔ مزید کہا کہ انہوں نے بھیک مانگنے کے لئے یہ سوانگ رچا رکھا ہے۔ پہلے تو مَیں خاموش رہی لیکن جب دیکھا کہ خاتون کا خاموش ہونے کا کوئی اِرادہ نہیں تو ذرا تلخ ہو کر کہا کہ ”میرے پیسے ہیں اور مَیں جس کو مرضی دوں آپ کو اِس سے کیا“۔ اِس پر خاتون کے لہجے میں تھوڑی نرمی آئی اور وہ سمجھانے کے انداز میں کہنے لگی کہ ”ان لوگوں کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہیے، چاہیے وہ ہمدری کا ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ایسا کرنا گناہ ہے۔ ان کو کمائی کرنی چاہیے“۔ مَیں نے ان سے کہا کہ ” اِس بے چارے کو بخشش دینا کوئی پسند نہیں کرتا تو نوکری کون دے گا۔ اپنے کٹے پاوں کی وجہ سے وہ ناچ بھی نہیں سکتا اور بول بھی نہیں سکتا۔ بھیک مانگنا ہی رہ جاتا ہے“۔ میرے جواب پر خاتون پھر غصے میں آ گئی۔ اور میرا مطلوبہ سٹاپ آ گیا۔

اگر آپ کا لاہور اسٹیشن، داتا دربار، آزادی چوک جیسے علاقوں کی طرف گزر ہو تو آپ کو کئی خواجہ سرا نظر آئیں گے۔ جیسے ہی ہجوم میں یہ تیسری جنس نظر آ جاتی ہے ہر مرد اِن کو سیکس کی دکان سمجھتا ہے۔ ان کو دیکھ کر فحش اشارے کیے جاتے ہیں اور مذاق اڑایا جاتا ہے۔ بحیثیت خاتون اگر میرے ساتھ دوران سفر ایسا واقع پیش آئے تو میرا سارا دن برباد ہو جاتا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ دنیا خواجہ سرا کے لئے کسی دوزخ سے کم نہیں ہے۔ خواجہ سرا اگر سٹاپ پر کھڑا ہو تو مرد حضرات تو ہوٹنگ میں لگ جائیں گے اور خواتین چند قدم ہٹ کر کھڑی ہوں گی کیونکہ ایسے میں اُس کو بھی اِن کا ساتھی سمجھا جائے گا جو ایک خاتون کبھی کبھی برداشت نہیں کر سکتی۔

ایک بار کسی میگزین میں کسی طالب علم کا مقالہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں محقق نے ہیجڑوں یعنی کہ خواجہ سرا کی زندگی کے بہت تکلیف دہ راز افشا کیے تھے۔ جن میں ایک یہ تھا کہ یہ بھی ایک گھریلو نارمل زندگی گزارنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ہی ایک الگ دنیا قائم کی ہوتی ہے جہاں بزرگ خواجہ سرا گھر کے سربراہ کا کردار ادا کرتا ہے، کوئی بیوی کا تو کوئی شوہر کا، کوئی بیٹی تو کوئی بیٹے کا۔ اِن کے ہاں شادیاں بھی ہوتی ہیں، باقاعدہ ساری رسموں کے ساتھ۔ ایک نہایت ہی حسرت بھرا واقع ان کے ہاں بچے کی ولادت ہے۔ شادی کے نو ماہ بعد جس جوڑے کی شادی ہوئی تھی اس کے ہاں بچے کی ولادت بھی ہوتی ہے۔ بیوی کا کردار ادا کرنے والا ہیجڑا پیدائش کے وقت زچہ کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ اور بچہ یا تو کوئی گڑیا ہوتا ہے یا پھر اگر اِس دوران کوئی اپنی نومولود اولاد جو تیسری جنس ہو اُسے یہاں چھوڑ جائے تو نومولود بچے کا کردار وہ چھوٹا ہیجڑا ادا کرتا ہے۔

آپ کو کوئی ہیجڑا یا خواجہ سرا نظر آئے تو ضروری نہیں کہ وہ جسمانی لحاظ سے تیسری جنس ہو کیونکہ بہت سے مرد حضرات غربت اور بے روز گاری سے تنگ آ کر یہ سوانگ رچا لیتے ہیں۔ اِن میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے اپنے گھر والوں کی نفرت کا شکار ہوتے ہیں تو اِن کے ساتھ آ ملتے ہیں۔ کچھ حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہم جنس پرست ہوتے ہیں۔

بادشاہوں کے دَور میں وہ غلام جو حرام سرا میں ملکاوں، شہزادیوں اور حرموں کی خدمت پر معمور ہوتے تھے اِن کو عمل جراحی کے ذریعے نامرد بنا دیا جاتا تھا تاکہ اگر وہ کسی حرم سے جنسی تعلقات رکھیں تو حرم حاملہ نہ ہو۔ یہ غلام ساری زندگی محلوں کی غلام گردشوں میں ہی رہتے تھے۔

یونانی دَور میں عورت اور غلاموں کو کوئی حقوق حاصل نہیں ہوتے تھے۔ آج مذہب دنیا میں عورت نے ایک حد تک حقوق حاصل کر لئے ہیں، غلامی بھی ختم ہو چکی ہے لیکن خواجہ سرا وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔

پاکستان میں اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں مکمل جنس رکھنے نے تیسری جنس کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب تیسری جنس کی موجودگی تسلیم کی جارہی ہے۔ پاکتسان میں تیسری جنس آبادی کے لحاظ سے تقریباً 2 فیصد ہے۔ ماضی میں ان کو پاکستانی شہری کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ 2009 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی زیر نگرانی ایک بل پاس ہوا کہ خواجہ سرا کو بھی برابری کی بنیاد پر بطور پاکستانی شہری تمام حقوق حاصل ہوں گے۔ اِس بل میں شناحتی کارڈ، تعلیم، نوکری، وراثت اور جنسی ہراستیت کی شقیں بھی پاس ہوئی۔ ایک اَور خوش آئند بات یہ کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت تیسری جنسی کے لئے انٹر میڈیٹ تا پی۔ ایچ۔ ڈی تک فری تعلیمی سہولت مہیا کی گئی ہے۔

اِن سہولیات کے باوجود مَیں سوچتی ہوں کہ کیا حقیقت میں ایک خواجہ سرا کی زندگی میں آسانیاں آئیں گی؟ میرے خیال میں اِن کی زندگی اُس وقت تک آسان نہیں ہو گی جب تک اُن کے اپنے خاندان والے اپنی سوچ نہیں بدلتے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر خاندان والے اپنی سوچ بدل بھی لیں تو کیا معاشرہ اپنی سوچ بدلے گا؟ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ خاندان اِن کی مشکلات میں کمی لا سکتا ہے۔ بحیثیت خواتین و حضرات ہم بہت سی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور شاید اِس وقت ہم کہتے ہیں کہ

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کٹ رہی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
لیکن حقیقت میں یہ مصرعہ خواجہ سرا پر صادق آتا ہے۔ مکمل جنس رکھنے والوں کو اپنے رب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ خدا ہمیں دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).