عورت ہی اگر عورت کی آزادی پر بات کرئے تو سزا لازم ہے


مصر میں ایک خاتون ٹیلی ویژن میزبان کو تین سال قید اور 10 ہزار مصری پاونڈ جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ بی بی سی کی ایک حال ہی میں شائع ہونی والی خبر کے مطابق محترمہ دعا صالح پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے جو غیر شائستہ اور مصری معاشرتی زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔ محترمہ دعا صالح کو اپنی سزا کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔ بی بی سی کے مطابق محترمہ دعا صالح جو کہ النہار ٹیلی ویژن کے لیے کام کرتی ہیں نے اپنے ایک پروگرام میں خواتین کو جنس سے متعلق چند امور پر مشورے دیے تھے۔

اس موضوع پر اظہار کرتے ہوئے انہوں نے ناظرین کو بتایا تھا کہ کس طرح شادی کیے بغیر خواتین اولاد کی نعمت حاصل کر سکتی ہیں۔ محترمہ دعا صالح نے اس سلسلہ میں جو تجاویز پیش کیں ان میں قلیل مدتی شادی اور سپرم ڈونیشن جیسی سہولیات سے فیضیاب ہونا شامل تھا۔ محترمہ دعا صالح کے مطابق یہ اور دوسری موزوں سہولیات مرد حضرات سے معاوضہ پر بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یہ وہ جرم تھا جس کی پاداش میں محترمہ دعا صالح کو اب تین سال قید بھگتنا ہو گی۔

محترمہ دعا صالح سے جو جرم سرزد ہوا ہے اس کا نتیجہ میں انہیں سزا ملنا کئی اعتبار سے بالکل درست ہے۔ اول یہ کہ محترمہ دعا صالح ایک عورت ہیں۔ کسی عورت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر ایسے موضوعات پر خیالات کا اظہار کرے جو کہ عورت سے متعلق ہیں۔ دوسرا یہ کہ محترمہ دعا صالح مغربی لباس پہنتی ہیں۔ اگر انہوں نے ان خیالات کا اظہار مناسب ستر پوشی اور چند مذہبی حوالوں کے ساتھ کیا ہوتا تو پھر بھی معافی کی کوئی نہ کوئی گنجائش نکل آنی تھی۔ تیسرا یہ کہ محترمہ دعا صالح نے کسی مرد عالم دین سے عورت سے متعلق جنسی معاملات پر رہنمائی حاصل نہیں کی۔ اگر وہ ایسا کرتیں تو نہ وہ نوکری سے معطل ہوتیں اور نہ ہی سزا اور جرمانے کی نوبت آتی۔ اب لیکن بہت دیر ہو چکی ہے۔

یہ واقعہ پتہ نہیں کیوں صدیوں پرانے غیرمہذب انسانی معاشرے کی یاد دلاتا ہے جس کا ذکر ویبلن تھورسٹن نے اپنی کتاب ’دی تھیوری آف دی لئیر کلاس‘ میں کیا ہے۔ ویبلن کے مطابق اس معاشرے میں گھریلو کام کاج کو سب سے کم ترین درجہ حاصل تھا اور یہ کام عورت کے سپرد تھا۔ عورت کا درجہ ایک غلام کے برابر تھا۔ ویبلن کے مطابق موجودہ صنعت کی بنیاد دراصل عورت کا گھریلو کام کاج ہے۔ ویبلن یہ بھی لکھتا ہے کہ کسی توانا مرد کی ملکیت میں عورت کا ہونا انسانی معاشرے میں ملکیت کی اولین مثال ہے۔

اس تناظر میں دیکھیں تو اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر بھی عورت کی سماجی حثیت مرد کے مقابلہ میں کم تر نظر آتی ہے۔ ہمارے گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کی اکثریت آج بھی ناخواندہ خواتیں یا کم سن بچیاں پرہی مشتمل ہو گی۔ اور آج بھی ہم گھریلو کام کاج کرنے والوں کو سماجی طور پر کم تر سمجھتے ہیں۔ جو خاندان گھریلو ملازمین رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہاں گھریلو کام خواتین سرانجام دیتی ہیں۔ ٹیلی ویژن پروگراموں میں ایسا متعدد بار دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ خاتون جس نے کسی خاص پیشہ وارانہ میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیے ہوں یہ سوال ضرور کیا جاتا ہے کہ ”کیا آپ کو کھانا پکانا آتا ہے؟ “ جبکہ دوسری طرف مرد حضرات سے اس طرح کے سوالات کرنے کی ضرورت مخصوص نہیں کی جاتی۔

جب ہم عورت کے متعلق عمومی معاشرتی رویوں کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی بعید کے ایسے معاشرے جن کا شمار اس عہد کے جدید اور ترقی پسند معاشروں میں ہوتا تھا، میں بھی عورت کے ایک مکمل انسانی وجود کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ارسطو جس کے بغیر فلسفہ، آرٹ، سیاست اور سائنس سے جڑا کوئی بھی نظریہ نامکمل دکھائی دیتا ہے، کا عورت کے بارے میں فرمانا ہے کہ ”عورت اس لیے عورت ہے کیونکہ اس میں مخصوص خصویات کا فقدان ہے۔ “ ارسطو کا یہ حوالہ بیسویں صدی کی فرانسیسی فلسفی سامون ڈی بیوار نے اپنی کتاب ’دی سیکنڈ سیکس‘ کے ابتدائیہ میں رقم کیا ہے۔ 1949 میں چھپنے والی اس کتاب نے عورتوں کی فکری اور جنسی آزادی اور عورتوں سے متعلق رائج منفی معاشرتی رویوں سے جڑے معاملات کا احاطہ کیا ہے۔

آگر ارسطو ویبلن اور بیوار سے ہوتے ہوئے پاکستان کا رخ کریں تو مجھ گنہگار نے کئی برس پہلے محترم ڈاکٹر اسرار الحق مرحوم کا تفسیر قرآن کا ایک آڈیو لیکچر سنا جس میں انہوں نے عورت اور مرد کی عدم برابری کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عورت مرد کے مقابلے میں نسیانی کفیت سے زیادہ دوچار ہوتی ہے اس لیے اسے مرد کے برابر کی سطح پر نہیں رکھا جا سکتا۔ کیونکہ اس واقعہ کو بیان کرنے پر میری نسیانی کیفیت پر بھی سوال اٹھ سکتا ہے اس لیے الفاظ کے چناوٰ میں میں نے حتی الامکاں احتیاط برتنے کی کوشش کی ہے ورنہ میری یاداشت کے مطابق شاید ’مرض‘ کا لفظ استعمال ہوا تھا۔

اس تاریخی تناظر میں اگر محترمہ دعا صالح کے معاملہ کو دیکھا جائے تو اس خاتون کے ساتھ کوئی عجب معاملہ نہیں ہوا۔ محترمہ کی آزادی اظہار کے حق کا احترام لازم پر انہیں ایک عورت کی حثیت سے معاشرے میں اپنے مقام کا بھی لحاظ کرنا چاہیے تھا۔ ایک عورت اور وہ عورت جس کے خیالات سے مغربی روایات کی باس آتی ہو اور جس کا اظہار اس عورت کے پوشاک سے ہوتا ہو کس طرح معاشرہ کی پاکباز خواتین کو ورغلانے کی کوشش کر سکتی ہے۔

لیکن میرے پاس محترمہ دعا صالح کی نجات کا ایک حل ہے۔ وہ فوری طور پر پاکستانی ٹی وی کی مشہور شخصیت محترم وسیم بادامی سے رابطہ کریں۔ محترم وسیم بادامی کی وساطت سے وہ ہردلعزیز عالم دین محترم مولانا طارق جمیل سے فون پر براہ راست بات کرکے اپنی توبہ اور جیل سے رہائی کا انتظام کر سکتی ہیں۔ محترم وسیم بادامی اور مولانا طارق جمیل کی جوڑی کے باعث ماضی میں ایک پاکستانی فنکارہ کا گھر ٹوٹنے سے بچ گیا تھا۔ نیک اور سیدھی راہ پر واپس آنے سےاس فنکارہ کو کئی قانونی مسائل سے بھی چھٹکارا مل گیا ہے۔ بدقسمتی سے ماسوائے ان دو مردانہ ہستیوں کے میری نظر میں ایسی کوئی عورت نہیں جو اس وقت محترمہ دعا صالح کےکام آسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).