تارڑ صاحب کی بہتان طرازی کے جواب میں


چند روز قبل اردو کے معروف ترین سفر نامہ نگار، ڈرامہ نگار اور ناول نگار مصتنصر حسین تارڑ صاحب کا ایک کالم فیس بک پر شئیر کیا گیا۔ اس کالم میں تارڑ صاحب نے ارون دھتی رائے کے نئے ناول کی تعریف کرتے ہوئے پاکستانی فکشن لکھنے والوں کو کوسنے دیے اور انہیں ملامت کی کہ وہ کشمیر میں برپا ہوتے ہوئے ظلم و ستم پر ایک ناول نہیں لکھ سکے۔ یہ کالم پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ ہمارے سینیئر ادیب جذبات کی رو میں بہہ گئے اور اپنے پیش رو عبداللہ حسین کا کشمیر کے پس منظر میں لکھا عمدہ ناول ” باگھ” بھی فراموش کر بیٹھے۔ انہیں کشمیر کے پس منظر میں لکھی گئی کرشن چندر کی پُرتاثیر کہانیاں بھی یاد نہ آئیں، جن میں کشمیر کا درد اپنی تندی و تیزی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ بیدی اور منٹو کے ہاں بھی کشمیر کے پس منظر میں چند افسانے مل جائیں گے۔ تو کیا وجہ تھی جس نے تارڑصاحب کو ارون دھتی رائے کا ناول پڑھنے کے بعد ایسا شدید ردِ عمل دینے پر اکسایا۔

ان کا کالم پڑھ کر مجھے لگا کہ ان کے ضمیر کی کسک یا پھر احساسِ جرم کی کسی رو نے انہیں شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا، جس کی وجہ سے وہ ایسی باتیں لکھنے پر مجبور ہو گئے۔ ارون دھتی رائے کے ناول کی تعریف کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔ “یہ وہ ناول ہے جسے ایک ہندوستانی کو نہیں بلکہ ایک پاکستانی کو لکھنا چاہیے تھا۔لیکن ہم صرف احتجاج کرنے، ریلیاں نکالنے اور اپنے ملک کو آگ لگانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔” وہ آگے چل کر مزید کہتے ہیں۔”ہم صر ف آہ و زاری کر سکتے ہیں، ایک ناول نہیں لکھ سکتے کہ اس میں محنت ، لگن اور تیقین زیادہ ہے۔”

مجھے محسوس ہوا تارڑ صاحب کا روئے سخن اپنی جانب ہی ہے۔ یہ جملے انہوں نے اپنی خفت اوراپنا احساسِ جرم مٹانے کے لیے لکھے ہیں۔ کیوںکہ انہیں لکھتے ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کی سیر و سیاحت کے بارے میں صفحات کے صفحات کالے کیے تو کشمیر کے بارے میں خود کیوں نہیں لکھ پائے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنے جرم کا خود اعتراف کرنا اتنا آسان کہاں ہوتا ہے۔اپنے ضمیر کے آئینے میں کھڑے ہوکر اپنے اوپر لعن طعن کرنا اتنا آسان کہاں ہوتا ہے۔اس کے لیے جس جرات اور دلیری کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ ہمارے سینیئر ادیبوں میں عنقا ہے۔ اپنے ضمیر اور احساسِ جرم سے بچنے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ اس کا ملبہ دوسروں پر ڈال دیا جائےاور تارڑ صاحب نے اس کالم میں کم و بیش یہی کیا ہے۔

میں ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ قبلہ آپ کو پاکستانی ادیبوں کے کشمیر پر ناول نہ لکھنے پر اتنا غصہ کیوں ہے؟ غصہ کرنے کے بجائے آپ نے خود یہ کارنامہ انجام دینے کے بارے میں کیوں نہیں سوچا۔ یہ کام آپ نے کیوں نہ کیا؟ آپ کو کس نے روکا تھا؟ اور کیا اس خطے میں ظلم و ستم کی داستانیں صرف کشمیر ہی میں رقم ہو رہی ہیں؟ جو کچھ بلوچستان میں ہورہا ہے، کیا آپ نے کبھی اس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کی؟ ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے مارشل لائوں کے بارے میں آپ نے کتنا لکھا؟ چلیں ان سب کو چھوڑیں صحرائے تھر اور صحرائے چولستان مین بسنے والوں کی پسماندگی کے بارے میں آپ نے کتنا لکھا؟ ساؤتھ پنجاب میں بسنے والوں کے ساتھ جاری استحصال کے بارے میں کیا آپ نے کبھی سوچنے یا لکھنے کی زحمت گوارا کی؟ وادیِ مہران میں عام لوگوں پر کئی دہائیوں سے جو کچھ گزر رہی ہے کیا آپ نے کبھی اسے محسوس کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے ذرا اسی کو سامنے رکھ کر بتائیے کہ آپ نے پاکستان کے عام شہری پر ٹوٹنے والی قیامتوں کو کتنا اور کہاں لکھا ہے؟

مجھے امید ہے تارڑ صاحب ان سوالوں کو درخورِ اعتنا سمجھیں گے۔ ورنہ ان میں اور اشفاق احمد میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں اشفاق احمد ایک ٹی وی شو میں شریک ہوئے۔ میزبان نعیم بخاری نے ان سے پوچھا۔ اشفاق صاحب بتائیے، ایسا کون سا موضوع ہے جس پر آپ لکھنا چاہتے ہوں اور اب تک نہ لکھ سکے ہوں۔ موصوف نے بہت سوچنے کے بعد جواب دیا۔ ہمارے ملک میں غربت بہت ہے، میں اس کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے تارڑ صاحب کی صورتِ حال بھی اشفاق احمد صاحب کی جانب سے دیے گئے جواب جیسی ہی لگتی ہے۔ صد معذرت، وہ بھی اپنے ناولوں میں عوام اور ان کے گمبھیر مسائل سے جڑتے ہوئے کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے۔

 تارڑ صاحب کے کالم پر چند گزارشات!

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).