زباں پہ مہر لگی ہے


ضیاء الحق کے زمانے اور سنسر شپ کے دنوں میں اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھتا کہ بتائیں، ملک میں کیا ہورہا ہے تو میرا ایک جواب یہ ہوتا تھا کہ مجھے کیا معلوم، میں تو ایک اخبار میں کام کرتا ہوں۔ تب آپ یاد کریں، ٹیلی وژن اور ریڈیو پر سرکار کا قبضہ تھا اور اسمارٹ فون یا سوشل میڈیا کے جادو کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔ آج کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔ اب اگر کوئی کسی ٹاک شو کے بارے میں کوئی بات کرتا ہے تو میں اپنی لاعلمی کا اظہار کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ’’ڈاکٹر نے پرہیز بتایا ہے۔‘‘ یہ احتیاط میرے خیال میں ذہنی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میں ایک صحافی ہوں۔ اردو میں الگ اور انگریزی میں الگ کالم بھی لکھتا ہوں۔ گویا ذہنی صحت بہت اچھی بھی نہیں ہے۔ میڈیا کے غلغلے سے کسی نہ کسی طرح کا تعلق قائم رہتا ہے اور کیوں کہ میں نے 50 سے زیادہ سال اس کوچے میں آوارہ گردی کی ہے اسلئے میڈیا یعنی صحافت کی موجودہ صورت حال دیکھ کر میرا دل بھی بہت دکھتا ہے۔ فیض کے اس شعر کا سہارا بھی کافی نہیں کہ ’’بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے/ فروغ گلشن و صورت ہزار کا موسم‘‘ اب فیض کو گئے ہوئے بھی 30 سے زیادہ سال گزر گئے۔ فراز سے ان کے آخری سالوں میں کئی ملاقاتیں ہوئیں اور ایک دفعہ انہوں نے مجھے یہ شعر سنایا جو مجھے فی البدیہہ لگاکہ ’’فراز صحن چمن میں بہار کا موسم/ نہ فیض دیکھ سکے تھے نہ ہم ہی دیکھیں گے۔‘‘ مطلب یہ کہ مایوسی سے چھٹکارا نہیں مل رہا گو، جیسا کہ میں کہتا ہوں، کسی خوفناک سچائی سے توجہ ہٹانے کے لئے ہمیں دل بہلانے والے جھوٹ مسلسل سننے کو ملتے ہیں۔ اب کون کتنا مایوس ہے یہ الگ بات ہے اور کس کی مایوسی کی وجہ کیا ہے یہ بھی غور طلب ہے۔ میں میڈیا کی بات کررہا ہوں اور اپنی مایوسی کی بھی۔ اس لئے اس وقت میں اس تعلق کی بات کررہا ہوںجو ان دونوں کے درمیان قائم ہورہا ہے۔

اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان لوگوں کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں جو میڈیا کو مایوسی کا پیامبر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میڈیا تو صرف منفی خبروں اور خیالات کا پرچار کرتا ہے۔ کیا اس ملک میں کچھ اچھا نہیں ہورہا؟ میڈیا کیا کررہا ہے اس کی خبر گیری بہت ضروری ہے اور عوامی میڈیا کا معیار کتنا پست ہوتا جارہا ہے اور اس کی پیشہ ورانہ اخلاقیات کا کیا حال ہے وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اگر میڈیا اپنا کام ایمانداری سے کرے اور معاشرے کا اعتماد اسے حاصل ہو تب بھی ہمارے اجتماعی احساس محرومی کا علاج اس کے پاس نہیں ہے۔ میڈیا کا کام تو حقائق کو آشکار کرنا اور اقتدار کی غلط کاریوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ کسی مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری میڈیا کی نہیں ہے۔ ایک تقریب میں جب چند مقرر میڈیا پر تنقید کرچکے تو اپنی باری پر میں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ میڈیا اپنا کام نہیں کررہا۔ وہ معاشرے کی صحیح تصویر نہیں دکھا رہا لیکن اگر اس نے ایسا کیا تو آپ لوگ تو غش کھاکر گر پڑیں گے کیونکہ معاشرے کی جو حقیقی صورت حال ہے اسے دیکھنے کی آپ میں سکت نہیں ہے۔ میڈیا تو خبروں کے دوران فلمی گانے سناکر اپ کا دل بہلا رہا ہے۔

یہی میرا آج کا موضوع ہے کہ میڈیا کیا کررہا ہے اور اسے کیا کرنا چاہئے اور وہ کیا وجوہات ہیں کہ جن سے میڈیا کی آزادی کو خطرہ لاحق ہے۔ میں یہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارا قومی بحران بنیادی طور پر نہ تو سیاسی ہے اور نہ معاشی۔ یہ دراصل ایک فکری، تہذیبی اور اخلاقی بحران ہے اور اس کا سب سے نمایاں اثر میڈیا پر پڑرہا ہے۔ میڈیا کے سہارے معاشرہ اپنے آپ سے گفتگو کرتا ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ صلاحیت کم سے کمتر ہورہی ہے۔ معاشرے میں جو انتہا پسندی ہے اور عدم برداشت ہے اس نے اظہار کی آزادی کو محدود کردیا ہے۔ کتنے ہی مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں کھل کر بات نہیں کی جاسکتی۔ اور اگر کوئی اختلافی بات کرتا ہے تو اسے اس کی سزا بھی ملتی ہے۔ اسی لئےملک میں دلیل اور حقائق کی روشنی میں کسی بامقصد مکالمے کی کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ اگر آپ بین السطور کچھ لکھ کر یا کوئی حکایت بیان کر کے خوش ہوجاتے ہیں تو اس کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس پر گزارا ہے۔ صحافت تو حقائق، اعداد و شمار اور بے رحم سچائی کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ہم کہیں گے کہ نہ تو فکر کی آزادی ہے اور نہ اظہار کی۔ اور ان آزادیوں کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی محال ہے۔ اگر ہم واقعی اس ملک میں جمہوری اقدار کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو پھر میڈیا کی صحت اور اس کی کارکردگی کی فکر لازم ہے۔ یہ حکمرانوں کے اپنے مفاد میں ہے کہ انہیں ایک سچ بولنے اور حقائق کو آشکار کرنے والے میڈیا کا تحفظ حاصل ہو۔ ورنہ خوشامدی درباریوں نے تو کتنی ہی سلطنتیں تباہ کردیں۔ پھر درست فیصلے بھی تو درست معلومات کے بغیر ممکن نہیں۔ اس ہفتے کی ایک خبر میں چوہدری نثار علی سے یہ بیان منسوب کیا گیا ہے کہ حالات 1970 جیسے یا اس سے برے ہیں۔ یہ ایک اچھی مثال ہے کیوں کہ 1970 میں بھی حقائق کو عوام سے پوشیدہ رکھا گیا تھا اور ایک طرح سے خاموشی کا حکم نافذ تھا۔ آپ کہیں گے کہ خاموشی کی بھی زبان ہوتی ہے اور کبھی کبھی اس کی وحشت ناک گونج اقتدار کے ایوانوں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ خاموشی کی زبان سب کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اس خاموشی کا صحافتی اظہار ہی بگڑے ہوئے حالات کو سنوارنے کی راہ دکھا سکتا ہے۔ اگر کوئی 1970 کے حالات کی بات کرتا ہے تو اسے سمجھنا چاہئے کہ جب صحافی سچ نہ بول سکیں تو اس کا یہی نتیجہ ہوتا ہے اور صحافی سچ کیسے بولیں کہ جب پورے معاشرے پر خوف طاری ہو اور عدم برداشت کا بول بالا ہو۔ دوسری باتوں کے علاوہ جمہوریت اقلیتوں کے تحفظ اور اختلاف رائے کے احترام کا نام ہے۔ ہمارے وہ انتہا پسند جو معاشرے کےہر نکڑ پر پہرہ دے رہے ہیں اس نظریے کو تسلیم نہیں کرتے۔ سالوں پہلے، میں نے ایک مکالمے میں شرکت کی تھی جس کا موضوع جمہوریت تھا۔ میرے مقابل ایک مذہبی جماعت کے سرگرم کارکن تھے۔ آخر میں، میں نے ان کو مخاطب کر کے کہا کہ اس گفتگو سے میں یہ نتیجہ نکال سکتا ہوں کہ اگر میں جیت گیا یعنی جمہوریت قائم ہوگئی تو آپ کو اپنی بات کہنے کی پوری آزادی ہوگی لیکن اگر آپ جیت گئے تو میری زندگی خطرے میں رہے گی۔ اب یہ آپ فیصلہ کریں کہ موجودہ حالات میں کون جیت رہا ہے اور کون ہار رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).