تارڑ صاحب کے کالم پر چند گزارشات!


کسی ادیب سے کسی مخصوص موضوع پر ادب تخلیق کرنے کا مطالبہ درست نہیں ۔ اگر کسی ادیب کو ناول یا افسانہ لکھنے کی گائیڈ لائن دی جائے گی تو وہ ناول یا افسانہ پروپیگنڈا قسم کی کوئی شے بن جائے گی، طاقت کا جبر اور معاشرتی استحصال کا گہرا احساس اگر کسی ادیب کے لاشعور میں موجود ہے تو اُس کی تخلیقی چیزوں میں اس کا عکس نمایاں ہوجاتا ہے۔

محترم مستنصر حسین تارڑ کے کشمیر کے معاملے پر کسی پاکستانی ادیب کی جانب سے ناول نہ لکھنے کے طعنے پرہمارے کچھ دوستوں نے عبداللہ حسین کے ناول ’’باگھ ‘‘ کو پیش کیا لیکن مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے، ناول کو صرف کشمیری تناظر میں محدود کردینا زیادتی ہوگی، میں نے جب’’ باگھ‘‘ پڑھا تھا تو صرف اور صرف اُس کی جمالیاتی حیثیت سے ہی متاثر ہوا، میں نے مسئلہ کشمیر یا کشمیریوں کے حالات جاننے کے لئے اُس ناول کا مطالعہ نہیں کیاتھا۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم قلمکاروں سے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔ ادیبوں کا گروہ معاشرے کا حساس ترین طبقہ ہوتا ہے، کسی بھی واقعہ کا دوسروں کی بنسبت اُن پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ادیب اگر ناول، افسانے اور شاعری میں اِس جبر کو آشکار کرنے پر قادر نہیں ہے تو وہ تحریر کی کسی اور صنف میں اپنے قلم کے جوہر دکھا سکتا ہےاور اس کی سب سے عمدہ مثال ارون دھتی رائے ہے۔

ارون دھتی رائے نے صرف دو ناول لکھے ہیں، لیکن معاشرتی اور انسانی مسائل پر ان کے درجنوں مضامین منظر عام پر آچکے ہیں، وہ مضامین اگرچہ ادب کے زمرے میں نہیں آتے، لیکن اپنی تخلیقی اپج، حساس بیانیے اور منفرد اسلوب کی وجہ سے کسی بھی ادبی فن پارے سے کم نہیں ہیں ۔ لاکھوں، کروڑوں لوگوں کی فکر ونظر کو ان مضامین نے متاثر کیا۔

میں پچھلے پندرہ سال سے اردو صحافت اور ادب کا قاری ہوں ، لیکن نئی نسل کو سبط حسن اور علی عباس جلال پوری کے علاوہ کوئی حوالہ نہیں دے سکتا۔ محترم مستنصر حسین تارڑ پچھلے چالیس سال سے لکھ رہے ہیں، کیا اُن کا کوئی ایک مضمون موجود ہے جسے ہم اپنے کسی معاشرتی یا انسانی مسئلے کے ضمن میں حوالے کے طور پر پیش کرسکیں۔

میرے خیا ل میں معاشرے کی بہتری کے لئے اپنی صلاحیتوں کو صرف کرنا ادیب کی بحیثیت انسان اہم ذمہ داری ہے، لیکن اپنی ہر شے کو ادب کہنا بھی علمی و ادبی بد دیانتی ہوگی۔ ہمارے لکھاریوں کو ادب کے علاوہ غیر ادب پر اپنی مکمل توجہ صرف کرنی چاہیے جیساکہ ارون دھتی رائے نے کی۔ صرف بھرتی کے کالم لکھنے سے ہماری پکار رنڈی رونے سے آگے نہیں بڑھ سکے گی۔


تارڑ صاحب کی بہتان طرازی کے جواب میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments