نوید شیخ صاحب كے کالم كے جواب میں ۔۔۔


کالم پڑھ کر صاف نظر آ رہا ہے کہ آپ نے تارڑ صاحب کو مکمل طور پڑھا ہی نہیں ۔۔۔

مستنصر  حسین تارڑ اردو ادب کا قد آور نام ۔ ایک منفرد انداز كے موجد ۔ ایک پورا عہد ، گزشتہ پچاس سال میں پاکستان كے سب سے پڑھے جانے والے اَدِیْب۔۔۔  ناول ، کہانی نویس، سفرنامہ نگاری ، کالم نویسی كے ساتھ ساتھ ٹیلی وژن پر اپنی بے پناہ فنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے والے  ادیب پر آج وہ لوگ تنقید کر رہے ہیں جنہیں یہ علم تک نہیں کہ تارڑ صاحب کی تحریروں میں پاکستان كے عام آدمی كے کتنے ہی مسائل کی نشان دہی ہے ۔

آپ فرماتے ہیں کہ۔۔۔۔

“میں پچھلے پندرہ سال سے اردو صحافت اور ادب کا قاری ہوں ، لیکن نئی نسل کو سبط حسن اور علی عباس جلال پوری کے علاوہ کوئی حوالہ نہیں دے سکتا۔ محترم مستنصر حسین تارڑ پچھلے چالیس سال سے لکھ رہے ہیں، کیا اُن کا کوئی ایک مضمون موجود ہے جسے ہم اپنے کسی معاشرتی یا انسانی مسئلے کے ضمن میں حوالے کے طور پر پیش کرسکیں”

تارڑ صاحب کی تحریروں سے درجنوں ایسے حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں جہاں انہوں نے ایک عام پاکستانی كے دکھ اور اس کی غموں کو اپنے قلم كے ذریعہ زبان دی۔

 چاہے وہ ان کی کتاب ’ پندرہ کہانیاں ’ میں اس مسیحی جوڑے کی کہانی ہو جسے جنونیوں نے جلتی آگ میں پھینک دیا تھا یا پِھر ناول ’ دیس ہوئے پردیس ’ میں بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں كے دکھ کا نوحہ۔۔۔  یا پِھر ’ راکھ ’ میں قیام پاکستان كے دوران ہونے والی ایشیا کی سب سے بڑے نقل مکانی اور اس دوران ہونے والے فسادات کا ذکر ۔۔۔ ‘بہاؤ’ میں صحرا میں رہنے والوں کا المیہ ۔۔۔ ’ قلعہ جنگی  میں 11 ستمبر  2001ء اور افغان جنگ کا نوحہ ۔ ان كے علاوہ بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔۔۔

آپ خود اپنے اِس کالم میں دو متضاد باتیں کرتے ہوئے پائے جا رہے ہیں ۔ ایک طرف تو آپ فرما رہے ہیں کہ کسی اادیب کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی خاص موضوع پر قلم اٹھائے۔۔۔  دوسری طرف فوراً ہی پینترا بدل کر یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ   ادیبوں پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے  کہ وہ  معاشرے کی تلخ حقیقتوں کو اُجاگَر کرے ۔ تو آپ کی اطلاع كے لیے عرض ہے حقیقی ادب اور اخبار کی رپورٹ میں فرق ہوتا ہے ۔ اگر ادیب اپنے کسی ناول کا پس منظر ایک عام آدمی كے زندگی كے گرد تخلیق کرتا ہے تو اس ناول کا ہر کردار خود بخود اسی پس منظر كے حقیقی کرداروں کی زبان بولتا ہے اور اسی کی زبانی انسانی نفسیات اور اس خاص پس منظر كے پوشیدہ مسائل اور رہن سہن كے رنگ سامنے آتے ہیں ۔

‘ہم سب’ والوں سے کیا گلہ کہ متنازع تحریریں شائع کرنا ان کا طرہ امتیاز ہے۔ ٹھیک ٹھاک تحریریں شائع کرتے کرتے پٹری سے اُتَر کر نامور ادیبوں اور شاعروں پر بے تکی تنقید بھی شائع کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ جس فورم نے علامہ اقبال تک کی کی نجی زندگی كے بخیہ اَدھیڑنے کی کوشش کی ہو ان سے اور کیا امید کی جا سکتی ہے ۔

 مدلل اور با معنی تنقید ایک صحت مند رویہ کی نشان دہی کرتی ہے ۔۔۔ لیکن تارڑ صاحب جیسے ادیب پر تنقید کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیجیے کہ آپ کی تنقید تارڑ صاحب كے ادبی مرتبے كے لائق بھی ہے یا نہیں ۔ تنقید برائے تنقید سے صرف آپ کا نقصان ہو گا۔   تارڑ صاحب كے ادبی قد و کاٹھ کو کوئی گزند نہیں پہنچے گی.

صدف اطہر صدیقی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments