“ہم سب” پر تنقید کے ضمن میں ادارتی پالیسی


محترمہ صدف اطہر صدیقی کی یہ پہلی تحریر ہے جو ادارہ “ہم سب” کو موصول ہوئی ہے۔ انہوں نے نوید شیخ صاحب کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔ جس طرح نوید شیخ کے حق اختلاف کو تسلیم کیا گیا، اسی طرح صدف اطہر صدیقی کا نقطہ نظر من و عن شائع کر دیا گیا ہے۔ ایک جملہ البتہ محترمہ صدف اطہر صدیقی نے ایسا لکھا ہے جس کا محل بالائے فہم رہا۔ فرمایا

‘ہم سب’ والوں سے کیا گلہ کہ متنازعہ تحریریں شائع کرنا ان کا طرہ امتیاز ہے۔ ٹھیک ٹھاک تحریریں شائع کرتے کرتے پٹری سے اتر کر نامور ادیبوں اور شاعروں پر بے تکی تنقید بھی شائع کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں . جس فورم نے علامہ اقبال تک کی کی نجی زندگی كے بخیہ اَدھیڑنے کی کوشش کی ہو ان سے اور کیا امید کی جا سکتی ہے . (کذا)

یہ امر کسی قدر ناقابل فہم ہے کہ اگر آپ کو کسی کی رائے سے اختلاف ہے تو اس کا اظہار کرتے ہوئے دو چار غیر متعلقہ طعن دشنام “ہم سب” پر ارزاں کرنا مفید مطلب سمجھا جاتا ہے۔ یہ الزام عجیب ہے کہ “ہم سب” متنازع تحریریں شائع کرتا ہے۔  ادب ہوتا ہی متنازع ہے۔ ورنہ ادب کہلانے کا استحقاق کھو بیٹھتا ہے۔ منٹو 1954ء میں متنازع تھا جب اسے جرمانے کی سزا دی گئی۔ 2012ء میں منٹو متنازع نہیں رہا جب ریاست نے اس کے نام کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ ادیب اور صحافی اپنی رائے قائم کرتے ہوئے ریاست کے نوٹی فی کیشن کا اتباع نہیں کرتے۔

غالباً کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے فرق عالیہ پر جو پھلجھڑی اترے، اسے تسلیم کرنا دوسروں پر فرض ہے۔ نیز یہ کہ ان سے مختلف رائے ظاہر کی گئی تو وہ متنازع قرار پائے گی۔ مکالمے کا مطلب ہی اختلاف رائے ہے۔ ادب، سیاسی رائے اور معاشرتی نقطہ نظر مذہبی اوراد کا مجموعہ نہیں ہوتے۔ فکر کے امکان کا اظہار ہوتے ہیں۔

علامہ اقبال کا ذکر اس بحث میں گھسیٹنا ماورائے فہم ہے۔ اقبال ایک فانی انسان تھے۔  1976 میں قائم کردہ سرکاری کمیٹی کے فیصلے کے مطابق اقبال 1877ء میں پیدا ہوئے اور 21 اپریل 1938ء کو وفات پائی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی ایک مدت تک علامہ اقبال کو اقبال مرحوم لکھا اور بولا کرتے تھے۔ اس سے ان کے اورنگ آبادی پندار کی تسکین ہوتی تھی۔ معلوم کرنا چاہیے کہ مولوی اشرف علی تھانوی اپنی تصانیف میں اقبال کے لئے کیا طرز تخاطب برتتے تھے۔ اقبال کا انتقال ہوا تو پاکستان کی ریاست موجود نہیں تھی اور اس کا مطالبہ بھی موجود نہیں تھا۔ اقبال پر اجارے کا دعویٰ کرنے کا حق دعویٰ محل نظر ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نصابی آموختہ یاد کرنے والے کسی ممکنہ اختلاف میں یوں اقبال کی آڑ لیتے ہیں گویا اقبال کی ادبی اور سیاسی قامت سے خائف ہو کر حریف اپنے موقف سے رجوع کر لیں گے۔

اقبال فلسفے، قانون اور علم الکلام کے شناور تھے۔ اردو شعر میں اقبال کا مقام ہم جیسوں کی رائے کا محتاج نہیں۔ البتہ اقبال سیاسی اور معاشرتی معاملات میں بھی اپنا ایک موقف رکھتے تھے۔ ان کے فلسفیانہ، سیاسی، معاشرتی خیالات سے اتفاق کسی پر فرض نہیں۔ اقبال سیاست اور مذہب کے ادغام کی حمایت کرتے تھے۔ راقم الحروف سیکولر خیالات رکھتا ہے۔ سیاست میں مذہب کی مداخلت کو درست نہیں سمجھتا۔ معاشرے میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں اقبال کے خیالات سے چنداں اتفاق نہیں۔ درویش بے نشاں صنف کی بنیاد پر کسی سیاسی، معاشی اور سماجی امتیاز کو صحیح نہیں سمجھتا۔ میں جمہوریت پسند ہوں۔ میں مقننہ کے حق قانون سازی پر کسی غیر منتخب فرد یا ادارے کی رائے کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔ جہاں تک اقبال کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے، اقبال کے سیاسی، تاریخی اور ادبی مقام کے باعث ہزاروں کتابیں ان موضوعات پر لکھی جا چکی ہیں۔ اقبال کے اپنے فرزند جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت سوانح میں اقبال کی زاتی زندگی کر کھل کر بات کی ہے۔ اقبال چھوئی موئی کا پودا نہیں، ایک تناور شجر ہیں۔ انہیں کسی برخود غلط استثنیٰ کی حاجت نہیں۔

ہم سب کے جملہ اراکین ادارت محترم مستنصر حسین تارڑ کے ادبی مقام سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اپنے ہنر، ریاضت اور تخلیقی قوت کے بل پر مستنصر حسین تارڑ گزشتہ نصف صدی سے اردو ادب کی صف اول میں بہار دے رہے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ ہم ایسے نیاز مندوں کی توصیف اور تنقیص سے ماورا ہو چکے ہیں۔ ہم سب کے رفقا بالخصوص وقار احمد ملک، عدنان خان کاکڑ اور حسنین جمال تو محترم مستنصر حسین تارڑ کے غالی مداح ہیں۔ اپنے ممدوح کی تحریر کا ٹکڑا کہیں سے مل جائے، اس عقیدت سے اٹھائے لئے آتے ہیں جیسے امیر خسرو نے اپنے مرشد کی جوتیاں اٹھائی تھیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے خاص شفقت سے اجازت دے رکھی ہے کہ ان کی تحریر ہم سب پر شائع کی جا سکتی ہے۔ اس نعمت غیر مترقبہ سے استفادے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا جاتا۔ ادابی رائے میں اختلاف کا امکان البتہ ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ سو وہ ایک مسلسل ڈسکورس کا حصہ ہے۔

ہم سب کے رفقا فانی انسان ہیں۔ انہیں اپنی رائے کی اصابت پر کوئی اصرار نہیں۔ رائے کے حق پر اصرار البتہ کیا جاتا ہے۔ ہم سب کی دو ٹوک اور متعین پالیسی اختلاف رائے کو احترام دینے کی ہے۔ کوئی تحریر یہاں اختلاف رائے کی بنیاد پر مسترد نہیں کی جاتی۔ آج ہی (4 نومبر، 2017ء) ایک نوجوان محمد عبداللہ نے بے نقط تنقید کی ہے۔ ان کی رائے کو بلا کم و کاست شائع کر دیا گیا۔ معترض نظر اٹھانے کا بھی خیال نہیں آیا۔ عرض صرف یہ ہے کہ اختلاف کیا جائے، بلاوجہ دھول نہ اڑائی جائے۔ پاکستان میں قانون، معاشرت اور سیاست کے بہت سے زاویے مخدوش ہیں۔ اشتعال انگیزی سکہ رائج الوقت ہے۔ “ہم سب” کا عمومی موقف پاکستان کے غالب سیاسی بیانیے سے انحراف کرتا ہے۔ ایسے میں محض اپنی رائے میں دھونس بڑھانے کے لئے “ہم سب” پر کفش کاری میں احتیاط کرنی چاہیے۔ “ہم سب” محض ایک ویب سائٹ نہیں، دستور میں دیے گئے حقوق کی پاسداری کا مورچہ بھی ہے۔ ہم ایسے بے ثبات نہیں کہ متکلمین مدرسہ اور ابلہ مکتب کی بھبھکی میں آ کر سپر ڈال دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).