استرا، چموٹا اور بہت سارے نائی


مجال ہے جو دونوں قلمیں کبھی برابر رہ گئی ہوں۔ دائیں طرف والی کان کے درمیان تک آتی ہے تو بائیں والی اس سے دو تین سوتر اوپر ہو گی، اگر قسمت سے دونوں برابر ہیں تو ایک طرف کا ‘‘ٹک‘ دوسری طرف والی سے بالکل الگ ہو گا، یہ سیدھی ہے تو وہ ترچھی ہے، وہ صحیح بن گئی تو یہ ٹیڑھی ہو جائے گی۔ ابا کے پیٹینٹ نائی گلزار چاچا تھے اور ہم لوگوں کی ان سے جان جاتی تھی۔ ان کا پسندیدہ ہتھیار وہ والی مشین تھی جو ہاتھ سے قچ قچ کرتے ہوئے چلتی تھی اور پورے سر کے بال دو منٹ میں چاروں طرف پڑے ہوتے تھے۔ پھر گلزار چاچا بال کبھی گیلے کر کے نہیں کاٹتے تھے، ہمیشہ سوکھے بالوں کی نیست مارتے تھے۔ بھائی بندہ کوئی سپرے گن رکھ لے، ویسے ہی ڈونگے میں پانی بھر کے چھڑک دے، نرم ہو جائیں گے تو بسم اللہ یار، کٹوانے تو ہیں، اور ابا ساتھ ہیں تو ان کی مرضی کے ہی کٹوانے ہیں مگر تمیز سے تو کٹ جائیں گے یار۔ نہ سوال ہی نہیں، سوکھے بال کٹوا کے، دونوں قلموں میں تیس پینتیس ڈگری کا فرق رکھوا کے، وہ منحوس مشین چلوا کے، پھر بھی ہم لوگ خوشی خوشی گھر آ جاتے تھے۔ اب اندازہ ہوتا ہے ہم لوگ کتنے اچھے بچے تھے۔

گلزار چاچا سے پہلے خانو چاچا کے آگے حاضری ہوتی تھی۔ خانو چاچا اصل میں دادا کی شیو بنانے آیا کرتے تھے۔ صبح صبح دروازہ کھٹکھٹا کے آواز دیتے تو دادا فٹافٹ سارا ارینجمینٹ صحن یا برآمدے میں کروا لیتے اور بڑے مزے سے گھر ہی میں بیٹھے بیٹھے شیو یا حجامت سب کچھ ہو جاتا تھا۔ لیکن ہم لوگ ابا کے ساتھ خانو چاچا کی دکان پر جاتے تھے۔ وہاں دو انگریزی فلموں کے پوسٹر لگے ہوتے، ان میں سے ایک وہ تھی جس کا نام اردو میں ‘‘کونان دی باربیرئین‘ لکھا ہوتا تھا اور ایک قدآور ہیروئین فل فلوٹی بنی کھڑی ہوتی تھیں۔ خانو چاچا کی دکان میں پھٹے پہ بیٹھنا پڑتا تھا، نوٹ کیا جائے کہ عمر بہت کم لیکن جذبے جوان تھے۔ خیر، تو پھٹے پہ بیٹھنے کے بعد کٹنگ ہوتی، ان کی قینچیوں میں بال پھنستے تھے۔ پتہ نہیں کیا چکر تھا۔ زندگی میں پہلی اور آخری بار چموٹا بھی وہیں دیکھا تھا۔ اپنے زمانے میں اچھے بھلے سیفٹی ریزر تک آ گئے تھے لیکن اس دکان میں وہی دھار والا استرا استعمال ہوتا تھا جو شاید انہیں کہیں پرکھوں سے ملا ہو گا۔

چموٹے کا سین یہ ہے کہ ایک چمڑے کا ٹکڑا ہے، ایک یا سوا فٹ کا، عموماً نائیوں کی دکان میں چوکھٹ میں لگے کیل سے لٹکا ہوتا ہے، کتے کے کانوں کی طرح اس کا وہ سرا تھوڑا سا کھینچ کے پکڑا جو فری ہے، اب چموٹا تن گیا تو دوسرے ہاتھ سے اس پہ استرا ترچھا کر کے رگڑنا شروع کر دیا، دونوں سائیڈوں سے رگڑا اور استرا تیار۔ یہ پریکٹیکل ہر دوسری تیسری کٹنگ کے بعد ہوتا تھا، مجال ہے جو کبھی بلیڈ بدلنے والے ‘‘جدید‘ استرے کی طرف ان کا دھیان گیا ہو۔ وہ دکان بھی مٹی گارے سے بنی ہوئی تھی۔ کوئی عجیب ہی ماحول تھا۔ فرش بھی مٹی کا اور عین شہر کے بیچ، جو بھی تھا، چموٹے کی سیر وہیں ہوتی تھی۔

خانو اور گلزار چاچا والا دور جب ختم ہوا اس وقت شاید چودہ پندرہ برس کی عمر ہو گی۔ ابا نے اجازت دے دی تھی کہ اچھا خود جا کے بال کٹوا لیا کرو۔ تب ہم دوستوں نے فضل بھائی دریافت کیے تھے۔ وہ یارباش قسم کے آدمی تھے۔ جیسے کہا جائے گا بال کاٹ دیں گے، یہ رمبے کے جیسی بڑی قلمیں رکھنی ہیں، کریو کٹ کروانا ہے، کٹورا کٹ چاہیے، صرف ٹریمینگ ہے، جو مرضی کروا لیں جا کے، بس سمجھانا پورے طریقے سے ہے۔ بھلے ہاتھ میں فلمی اداکاروں کی تصویر لے جائیے یا ادھر وہ جو سن زیرو کے تھکے ہوئے ہیئرسٹائل والے پوسٹر لگے ہوتے ہیں، جن میں ایک ہی شکل کے پینتیس کورین لڑکے عجیب و غریب حجامت میں نظر آتے ہیں، ان میں سے کوئی ہیئر سٹائل بنوا لیجیے۔ ویسے آج تک مجھے کوئی ایک بھی ایسا ذی روح نظر نہیں آیا جس نے کبھی ان پوسٹروں میں سے کسی پہ ہاتھ رکھ کے کہا ہو کہ ایسے بال بنوانے ہیں۔ معلوم نہیں کیا وجہ تھی‘ لیکن اپنے زمانے میں وہ پوسٹر پاکستان بھر کے نائیوں کا ‘‘بین الاقوامی‘ ٹریڈ مارک تھے۔ فضل بھائی پھر تب تک چلے جب تک ملتان چل سکا۔

لاہور آ کے ایک اور کریکٹر سے تعارف ہوا۔ یہ حسن صاحب تھے۔ حسن بھائی فنکار آدمی تھے۔ وہ رزق کے لیے دکان پہ آنے میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ انہیں یہ کامل یقین تھا کہ گاہک انہیں کہیں سے بھی ڈھونڈ لائے گا۔ ان کا موبائل نمبر سب مظلوم گاہکوں کے پاس ہوتا تھا اور تیس چالیس بار ملا کے ایک آدھ مرتبہ وہ دستیاب ہو ہی جاتے تھے۔ پھر ان سے وقت طے کرنا ایک الگ مرحلہ ہوتا تھا۔ خدا خدا کر کے ٹائم مل جاتا تو بندہ آدھا گھنٹہ پہلے ہی جا کے دکان پہ بیٹھ جاتا تھا کہ یار یہ کہیں پھر سے نہ بھاگ جائیں۔ حسن بھائی منہ کے ایک کونے میں پان دبا کے حجامت شروع کرتے اور ساری کارروائی منہ اوپر اٹھا کے ہوتی تھی۔ مجال ہے وہ بندہ نارمل اینگل پہ گردن رکھے اور بال کاٹ دے، لیکن بال پرفیکٹ بنتے تھے۔ جس دن بغیر فون کیے حسن صاحب دکان میں نظر آ جاتے اس دن تو باقاعدہ عید ہوتی تھی، خواہ مخواہ بال کٹوانے کا دل چاہتا تھا۔ کئی مرتبہ ایک ہفتے پرانی کٹنگ دوبارہ جا کے تازہ کروا لی، کی دم دا بھروسہ یار، دم آوے نہ آوے۔

نوکری بدلی تو آفس بدل گیا۔ پہلے دفتر کے پاس ہی حسن صاحب کی دکان تھی، اب نیا علاقہ تھا، یہاں کیا ہو۔ انہیں دنوں نئی کمپنی والوں نے ایک گرومنگ سیشن کروایا۔ اس میں علی عباس بھائی بطورہیئر سٹائلسٹ آئے۔ وہ پہلا دن تھا جب اندازہ ہوا کہ اچھا، مطلب نائی اور ہیئر سٹائلسٹ میں واقعی فرق ہوتا ہے؟ خالی باتیں نہیں بنی ہوئیں، رقمیں لگتی ہیں تو شکل نکلتی ہے۔ علی بھائی نے شاید بیس منٹ لگائے لیکن ایسا فٹ کام کیا کہ وہ دن ہے اور آج کا دن، سال میں ایک مرتبہ علی بھائی کی زیارت ضرور ہوتی ہے۔ شروع میں ان کی فیس بہت زیادہ تھی، پھر وہ غریب نواز ہو گئے تو کافی جانا رہا۔ بعد میں اپنی رہائش شہر سے تھوڑی دور ہو گئی تو وہ آنا جانا بس ششماہی یا سالانہ بنیادوں کا رہ گیا۔

آج کل شہزاد بھائی کا دور چل رہا ہے۔ وہ سب سے ہٹ کے ایک الگ کردار ہیں۔ کوئی ایسا حجام جو بال کاٹتے ہوئے بولتا نہ ہو؟ بھئی وہ نہیں بولتے، بات کرتے بھی ہیں تو ایسی دھیمی آواز میں کہ آدمی کو باقاعدہ کان لگا کے سننا پڑتا ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ پہلے دن سمجھا دیجیے، ساری عمر ایک ہی پیٹرن پہ بال کاٹیں گے۔ مجال ہے جو پچھلی کٹنگ اور اب کی والی میں کوئی فرق آ جائے۔ حجامت سے زیادہ نازک معاملہ داڑھی کی سیٹنگ کا ہوتا ہے۔ اس میں بھی شہزاد بھائی ماسٹر ہیں۔ خدا انہیں صحت دے، ابھی پچھلے ماہ ان کو ٹائیفائیڈ تھا تو فقیر دو مہینے تک بابا بگلوس بن کے گھومتا رہا۔ بندہ کہاں جائے بھائی؟ نئی دکان والا داڑھی کی ایسی تیسی پھیر دے تو آپ کتنی سوری سن سکتے ہیں؟

ماسکو میں ایک آدمی نے کٹنگ پسند نہ آنے پہ سالم نائی مار ڈالا۔ اسے دوستوں نے کہیں کہہ دیا کہ تمہاری حجامت تو فلاں جیل کے قیدیوں جیسی ہوئی ہے، صاحب چھریاں لے کے چڑھ دوڑے۔ یہ پوری داستان اسی ایک خبر کو پڑھ کے یاد آ گئی۔ پھر یہ حیرت ناک انکشاف بھی ہوا کہ فقیر نے اب تک گھر زیادہ بدلے ہیں اور نائی کم، دعا کیجیے خدا دونوں معاملات میں اور زیادہ استقامت بخشے۔
چھوٹی سی بات؛ باہر ملک والے تیس اپریل کو ہر سال ‘‘ہیئر سٹائلسٹ اپریسئیشن ڈے‘ مناتے ہیں۔ ہم کبھی بھی منا سکتے ہیں۔ یہ لوگ جو اچھے بھلے وحوشوں کو انسان کی شکل میں لاتے ہیں، انہیں ٹپ سے بھی زیادہ تھوڑا عزت احترام چاہیے ہوتا ہے۔ قلمیں ٹیڑھی ہو جائیں یا کٹنگ تھوڑی خراب ہو جائے، بال اپنی کھیتی ہیں، دوبارہ آ جائیں گے، گالم گلوچ کر لی، بدتمیزی کر دی تو بندہ مڑ کے نہیں آنا!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain