کچھ ضمیر کی بیداری اور اخلاقی ذمہ داری کے بارے میں


\"wajahat\" موسم بدلا ، رت گدرائی…. ظہیر کاشمیری نے یہ کسی اور موسم کے بارے میں لکھا تھا۔ موسم ان دنوں بھی بدل رہا ہے مگر یہ گریبان چاک کرنے کا نہیں ، دامن کے چاک سلنے کا موسم ہے۔ دیکھئے چاک سلنے سے حبیب جالب یاد آگئے۔ ابھی 13مارچ کو جالب کی برسی گزری ہے۔ جالب ایک فتنہ پرور شاعر تھاجو ہر مبارک موقع پر منڈیا ہلا کر کچھ ایسی کہتا تھا کہ کسی نے کہی ہو اور نہ سنی ہو۔ مثلاً حالیہ دنوں میں درجن بھر امید افزا کالم پڑھ کر جالب نے کہا ہوتا ۔ ’چاک سینوں کے سلنے لگے، تم کہو، میں نہیں مانتا….‘۔ واقعہ یہ ہے کہ کراچی کے سابق میئر مصطفی کمال کسی صحرائی ٹیلے پر تین برس کی چلہ کشی کے بعد شہر میں نمودار ہوئے ہیں اور خلق کو پیغام دیا ہے کہ ان کی کایا کلپ ہو چکی ہے۔ قلب میں گداز آگیا ہے۔ ضمیر جاگ گیا ہے…. نیز یہ کہ کراچی کے دن پھرنے کا وقت آگیا ہے۔ درویش نے جو معرفت کا دعویٰ نہیں رکھتا اور تقویٰ سے تعلق نہیں رکھتا، سر اٹھائے بغیر کہا’اور ہم تمہارے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں‘۔فرمان امروز اگرچہ یہی ہے کہ ’دن پھر آئے ہیں باغ میں گل کے….‘، درویش مگر مصرع اٹھاتا ہے کہ ’بوئے خوں ہے ایاغ میں گل کے….‘۔مختصر یہ کہ مصطفی کمال نے ایک سیاسی جماعت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نام ابھی طے نہیں ہوا اور اس بے نام سیاسی جماعت کے پرچم کی جگہ محترم مصطفی کمال نے پاکستان کا پرچم لہرا دیا ہے۔ ارے یہ تو آغاز ہی قبضہ گیری کی روایت سے تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان کا پرچم تو دستور ساز اسمبلی نے اگست 1947 ءمیں منظور کیا تھا اور یہ پرچم پاکستان کے رہنے والوں کو عطا کیا تھا۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ یہ پرچم ایک ایسی جماعت نے اپنے نام کر لیا ہے جس کے پروگرام کے نام پر واحد بات یہ معلوم ہو سکی کہ ملک میں صدارتی نظام کے لیے کوشش کی جائے گی۔ اس موقع پر بے درودیوار کے پرائمری سکول میں تختی لکھتا بچہ سر اٹھاتا ہے اور آوازہ لگاتا ہے ’ڈاکیا ڈاک لایا‘۔ ڈاک بھی کیا ہے، اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ….

مصطفی کمال اور ان کے قافلے میں جوق در جوق شامل ہونے والے اصحاب ضمیر کیا کراچی کے معاملات صاف کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ یہ تو اہل سیاست جانیں۔ فی الحال کراچی کی سڑکوں پر جھاڑو پھیری جا رہی ہے۔ ہمارے لیے اس بنیادی سوال پر غور کرنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سیاست دان کا ضمیر کب جاگتا ہے۔ایک جملہ بہت مزے کا مشتاق احمد یوسفی نے لکھا کہ بینک سے کوئی بیوپاری قرض مانگتا ہے تو من جملہ دیگر باتوں کے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ منڈی میں بھاﺅ گرنے پر شخص مذکورہ کی روئی آگ تو نہیں پکڑتی۔ 1978ءمیں ایوب مرزا کی کتاب ’ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے منو بھائی نے کہا تھا کہ اگر بازو بند بار بار کھل جاتا ہے تو معلوم کرنا چاہیے کہ بازو بند کے بار بار کھلنے میں عادت کارفرما ہے یا مجبوری۔ بازو بند کی قابل اشاعت اصطلاح درویش کا تصرف ہے ۔ منو بھائی نے لباس کے ایک اور بھلے جزو کا نام لیا تھا۔ ہماری تاریخ میں ضمیر کی باجماعت بیداری 1945 ءکے موسم گرما میں شروع ہوئی اور موجودہ پاکستان کے جغرافیے میں موجود یونینسٹ پارٹی کا ہر قابل ذکر نام تحریک پاکستان کا پرجوش کارکن بن گیا۔ دس برس بعد اپریل 1956 ءمیں جنت مکانی سکندر مرزااور مشتاق احمد گورمانی کی شبانہ روز مساعی کے نتیجے میں ری پبلکن پارٹی قائم ہوئی ۔ اسمبلی کے ارکان کا ضمیر راتوں رات جاگا اور عبدالرب نشتر تنہا رہ گئے۔ ستمبر 1962 ءمیں ایوب خان نے تحریک پاکستان کے عظیم رہنما چوہدری خلیق الزماں کی رہنمائی میں کنونشن مسلم لیگ قائم کی تو سیاست دانوں کی نااہلی اور بدعنوانی سے تنگ آئے ہوئے تمام سیاسی زعما نے ضمیر کی آواز پر صدر ایوب کے ہاتھ مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1969 ءمیں اس گروہ کے ضمیر کو پھر اونگھ آگئی ۔ ایوب خان ریحانہ چلے گئے۔ یحییٰ خان برسراقتدار آئے اور کنونشن لیگ اسی طرح بیوہ ہو گئی جیسے دس برس پہلے ری پبلکن پارٹی پردہ نشین ہو گئی تھی۔ بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی بنائی تو ابتدائی طور پر ضمیر میں خیزش کے زیادہ آثار نظر نہیں آئے البتہ 1974 ءکے بعد ضمیر نے انگڑائی لی اور اہل دل ہزاروں ساتھیوں سمیت قائد عوام کی ولولہ انگیز قیادت میں تیسری دنیا نیز عالم اسلام کی رہنمائی کے لیے بھٹو صاحب کے ساتھ ہو لیے۔ راولپنڈی جیل میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تو تیسری دنیا کا نام و نشان نہیں ملا جب کہ عالم اسلام اپنے احیا کے ایک نئے عہد میں داخل ہو چکا تھا۔ ’ہزاروں ساتھیوں سمیت‘ والوں میں سے کچھ جیل چلے گئے ، کچھ نے بیرون ملک کی راہ لی اور باقی کام دھندے میں لگ گئے۔

1988 ءکے موسم سرما میں ان اصحاب کا ضمیر پھر جاگا اور انہوں نے بے پناہ قربانیاں دیتے ہوئے محمد خاں جونیجو کو فدا لیگ سمیت سندھڑی بھیج دیا اور نواز شریف کی ولولہ انگیز قیادت میں ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔ قریب تھا کہ ضمیر کی یہ بیداری رنگ لائے لیکن سیاست دانوں کی نااہلی کے باعث ملک میں طوائف الملوکی پھیل گئی۔ اکتوبر 1999 ءمیں ایک مرد دانا نے ہمیں خواب سے جگایا ۔ ہم جاگے اور ہمارا ضمیر جاگا۔ جنرل احتشام ضمیر کی رہنمائی میں مسلم لیگ قاف بنی ۔ پیپلزپارٹی پیٹریاٹ ہوئی۔ عمران خان نیازی اور شیخ الاسلام طاہر القادری کو بے مثال انتخابی کامیابی ملی کیونکہ اپریل 2002ءکے ریفرنڈم ہی سے ان اصحاب باصفا کا ضمیر جاگ چکا تھا اور پاکستانیت کے عظیم علمبردار طارق عزیز کی نظامت میں مینار پاکستان کے سائے تلے قومی مفاد کی بالادستی کا بیڑا اٹھایا جا چکا تھا۔ چند برس بعد ملک کی بار ایسوسی ایشنز کا ضمیر جاگ گیا۔ بیداری کی اس عظیم الشان لہر میں ہم نے ایک صاحب انکار کی قیادت میں انصاف کی بحالی کا عہد کیا۔اس ضمن میں تاریخ البتہ خاموش ہے کہ دھرنے کی عظیم الشان تحریک میں کالے کوٹ کا ضمیر کیوں نہیں جاگا۔ غالباً قانون کے منشا میں ناقابل فہم کیمیائی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ بہرصورت ضمیر کو زیادہ دیر تک سلایا نہیں جا سکتا۔ گل سے کوئی کہے کہ شگفتن سے باز آ۔ مئی 2011ءمیں اسامہ بن لادن کی رحلت کے بعد سے باخبر اہل قلم بار بار خبردار کر رہے تھے کہ قوم کا ضمیر جاگنے والا ہے۔ ایک محترم صحافی نے تو جولائی 2011 ءہی میں لکھ دیا تھا کہ جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی جیسے پاک صاف رہنماﺅں کا ضمیر جھرجھری لے رہا ہے اور یہ اصحاب ملک کی سیاست کی تطہیر فرمائیں گے۔ بالآخر 2011 ءکے موسم سرما میں ضمیر بیدار ہوا۔ 27 دسمبر 2011 ءسے 19جنوری 2012 ءتک تین ہفتے میں درجن بھر سیاسی رہنما بیدار ضمیر کے ساتھ جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ ذوالفقار مرزا کا ضمیر بھی اسی عرصے میں جاگا اگرچہ عشق کے اس درد مند کا نالہ و پیام کچھ اور رہا۔

منو بھائی کے کلیدی جملے سے استفادہ کریں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ ضمیر کی بیداری کے اسباب و علل کیا ہوتے ہیں۔ ضمیر کی نیند عادت ہے ، مجبوری ہے یا ضرورت۔ ضمیر کے جاگنے سے کہیں زیادہ غور اس نکتے پر کرنا چاہیے کہ ضمیر بار بار سو کیوں جاتا ہے۔ سیاست میں ضمیر چاہیے یا شعور؟ کیا ضمیر اور شعور دو الگ الگ معاملات ہیں۔ سیاسی شعور ایک واضح معاشی اور معاشرتی نصب العین کا تقاضا کرتا ہے، جسے پرکھا جا سکے اور جس کی جواب دہی ہو سکے۔ اگر سیاست ایک اخلاقی ذمہ داری ہے تو اسے شفاف ہونا چاہیے۔ ٹھوس سیاسی بیانیے کے بغیر ضمیر کی بیداری ایک موضوعی بیان ہے جس کا ماضی بھی دبیز پردوں میں ہے اور جس کا مستقبل بھی بل کھاتی پگڈنڈی کی طرح مسافر کے ارادے کی بجائے لمحہ¿ موجود کی ہنگامی ضروریات بیان کرتا ہے۔ خان عبدالقیوم ایسے موقع پر وسیع تر قومی مفاد کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ سیاسی نقطہ نظر اور معاشی پالیسی کی صراحت کے بغیر وسیع تر قومی مفاد ، نظریہ ضرورت اور ضمیر کی بیداری معنی سے خالی اصطلاحات ہیں۔ ’منزل نہیں، رہنما چاہیے‘ کی تفسیر ہیں۔ اگر منزل کا نشان بیان نہیں کیا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ رہنما الطاف حسین ہوں یا مصطفی کمال۔ شفاف سیاست کی اخلاقی ذمہ داری بہرحال نہیں اٹھائی جا رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments