زلزلہ آوے ہی آوے


ایک بھارتی کی چھٹی حِس نے بتایا کہ ایک زبردست زلزلہ آنے والا ہے، جس کے اثرات سات جنوبی اشیائی ممالک میں دیکھے جاسکیں گے۔ ہندُستان ہو یا پاکستان میں کئی حلقوں نے خوب ٹھٹھا اڑایا۔ کہا کہ سائنس کے مطابق پندرہ سیکنڈ سے پہلے زلزلے کی پیش گوئی نہیں‌ کی جاسکتی۔ کجا پاکستانی خفیہ ایجینسیاں اس پر اعتبار کرکے احتیاطی اقدام کی ہدایات دے رہی ہیں۔ گویا یہ مذاق اڑانے والے ہماری ایجینسوں سے بھی زیادہ باخبر ہوگئے۔ جہالت کی انتہا دیکھیے، چھٹی حِس کا تقابل سائنس سے کرتے ہیں، جب کہ یہ نہیں‌ جانتے کہ سائنس بھی چھٹی حِس کو تسلیم کرتی ہے۔

اس طرح کی پیش گوئیاں میں کئی بار کرچکا ہوں، لیکن جو ایمان نہیں لاتے اُن کا کیا جائے! پیش گوئیوں کی ایک سائنس ہوتی ہے، اس طرح سائنسی پیش گوئی بھی ہوتی ہے۔ کبھی کبھار یہ پیش گوئی غلط بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کل بارش کا امکان ہے، لیکن بارش ہوکے نہیں دیتی۔ لیکن دیکھا ہے گیا ہے کہ سائنس پر ایمان لانے والے تب یہ نہیں کہتے کہ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی غلط ہوگئی، آیندہ ہم اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔ چھٹی حس کی بنیاد پر کی گئی پیش گوئی میں سے کوئی غلط ثابت ہو جائے تو شور مچادیا جاتا ہے، کہ دیکھیے یہ جھوٹی ثابت ہوئی ہے۔ چھٹی حِس جھوٹی ہے۔

زیادہ پرانی مثالیں دوں گا تو آپ کو موازنہ نہیں کرسکیں گے، کہ میں کیا ٹھیک کہ رہا ہوں، کیا غلط۔ قریب قریب سے چند مثالیں دے کر بتاتا ہوں، کہ میں نے کون کون سی پیش گوئی کی، جو بالکل درست ثابت ہوئی، اور کون سی پیش گوئی ایسی تھی جو کانوں کے پاس سے گزر گئی، چھوکر نہیں گزری۔ دوہزار آٹھ کے عام انتخابات سے پہلے میں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ پیپلز پارٹی یہ انتخابات جیت جائے گی، اور جنرل رٹائرڈ مشرف کو صدارت سے اتار دیا جائے گا، وہ ملک چھوڑ کر چلیں جائیں گے۔ میرے گجرات اور کراچی کے دوستوں کا خیال تھا کہ ملک کا مستقبل اب صرف اور صرف ”پرویز مشرف اینڈ کو“ کے ہاتھ میں ہے۔ پیش گوئی کو جھٹلانے والوں‌ کو میں نے سائنسی انداز میں سمجھایا کہ مشرف وردی اتارنے کے بعد ”کو“ کا حصہ نہیں رہے، لہاذا ”کو“ کے لیے وہ سابق ہیں۔ کسی سرکاری کلرک کے ہتھے چڑھے تو انھیں اپنی پینشن اور گریجویٹی کے لیے بھی انڈر دا ٹیبل کچھ دے دلا کر کام نکلوانا پڑے گا، کہ یہی دستور ہے۔

عدلیہ کے بار بار اصرار پہ کہ خط لکھو، خط لکھو؛ میرا کہنا تھا خط لکھ بھی دیا گیا تو مبینہ اربوں ڈالر نہیں آنے والے۔ پاناما اسکینڈل پر پیش گوئی کی تھی کہ نواز شریف کو اس مقدمے میں نا اہل نہیں کیا جاسکے گا، نہیں کیا جاسکا، اس کے لیے اقامہ بنیاد بنا۔ یہ پیش گوئی بھی سنیے کہ بنی گالا، جاتی امرا، بلاول ہاوس، بشمول لال حویلیاں انھی کے پاس رہیں گی جن کی ملکیت ہیں۔ اس دھرتی پر انقلاب نام کی کوئی چڑیا نہیں آنے والی۔ اس سے پہلے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودی ناموجودی اسرار ہی رہے گی۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جائے گی۔ بارہ مئی کے معمولی سانحے کے بارے میں یہ پیش گوئی کی تھی، کہ اس کے ذمہ داران کبھی نہیں پکڑے جائیں گے۔ مشرف کا آرٹیکل سکس کے تحت ٹرائل ہوا بھی تو بے نتیجہ رہے گا، یہ قومی ایشو نہیں کہ ملک نازک دور سے گزرنے لگتا ہے۔ بے نظیر کے قاتلوں کا ویسے ہی کچھ پتا نہیں چلے گا، جیسے فلم اسٹار نادرہ، ضیا الحق، سلطان راہی، اور قائد ملت لیاقت علی خان و دیگر اہم قومی شخصیات کے قاتلوں کی خبر نہ ہوئی۔ ڈان لیکس جیسے حساس قومی سانحے کے بارے میں کہ دیا تھا کہ اسے اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا؛ آخر ملک کی سالمیت کا سوال ہے؛ آپ نے دیکھا کہ منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے میں‌ نے پیش گوئی کی تھی کہ عدلیہ اور فوج کے احتساب کا بل منظور نہیں ہوگا؛ آپ نے دیکھ ہی لیا منظور نہیں ہوا۔ الحمد للہ! یہ سب کام یاب پیش گوئیاں رہیں۔

میری پیش گوئی تھی کہ موٹروے پولِس کو اغوا کرنے والے اہل کاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، یہ شکر ہے موٹروے پولِس کے دہشت گرد سپاہی بخیریت واپس آگئے۔ الحمد للہ! یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔ یہ پیش گوئی دیکھیے، میرا کہنا تھا کہ یہاں ریاستی بیانیے کے خلاف رائے دینے والوں کو ”نامعلوم“ ہی ”نامعلوم“ کرتے رہیں گے، اور میڈیا ”نامعلوم“ سے اتنا خوف زدہ رہے گا کہ ان ”نامعلوم“ کی خبریں دیتے جھجکے گا۔ پھر یہ کہا تھا کہ مشال خان کے قاتل پکڑے بھی گئے تو انھیں سزا دینا ممکن نہیں ہوگا۔ اُلٹا مشال کا باپ اس کے بہن بھائی چھپتے پھریں گے۔ الحمد للہ یہ پیش گوئی بھی پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایبٹ آباد میں گاڑٰی میں جلائی جانے والی معصوم لڑکی کا واقعہ کسی کو یاد بھی نہ رہے گا۔ الحمدللہ! ہم نے بھلانے میں ذرا دیر نہ کی۔ میں نے پیش گوئی کی تھی کہ یہاں ایک کے بعد دوسرا سانحہ رونما ہوگا، کہ لوگ پہلے کو بھول جائیں گے۔ ڈاکٹر شازیہ اور مختاراں مائی تو قصہ پارینہ ہوا؛ غریب قندیل بلوچ ذکر کے قابل نہیں؛ ملالہ تو عالمی تماشے کا حصہ رہی۔ اور تماشے ہیں کہ ختم نہیں ہوں گے۔

آپ سوچتے ہوں‌ گے ہم جیسے روحانی عملیات کے عامل درست پیش گوئی کیسے کرلیتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ٹیلے ویژن پروگرام کی کھڑکی توڑ اینکرنگ کرتے ہیں۔ جیسے شیخ رشید اور چودھری نثار دفاعی امور کی نگہ بانی کرتے ہیں۔ جیسے متیرہ اور میرا کرکٹ پہ ماہرانہ رائے دیتی ہوں۔ جیسے شعیب اور وسیم کوئز شو کرتے ہیں۔ یہ تو پھر مشکل کام ہیں، اس سے بھی آسان ہے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنا۔ آپ نے سنا ہوگا، کہیں کم سن بچوں بچیوں کے ساتھ زیادتی کرکے موت کے گھاٹ‌ اتاردیا گیا؟ آپ نے خبر پڑھی ہوگی، کہ کہیں مِس خاصخیلی کو اس لیے گولی ماردی گئی کہ اس نے وڈیرے کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کردیا؟ آپ نے دیکھا ہوگا کہ تھانوں‌ میں ایف آئی آر کٹوانے جاو، تو دادرسی نہیں ہوتی؟ آپ سنتے ہوں‌ گے کہ اعلا عدلیہ میں سولہ سولہ سال مقدموں کے فیصلے چلتے ہیں، اور ملزم کو رہائی کا عندیہ دیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے وہ برسوں‌ پہلے حالت انتظار میں مرچکا؟ دادا مقدمہ کرتا ہے اور پوتے تک فیصلہ ہونا ممکن نہیں؟ پھر یہ معجزہ دیکھیے کہ اس کے مقابل جرگوں کے فیصلے کہ کیسے سستا اور گھٹیا انصاف فوری فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کی بہن کو وہ لے بھاگا، اس کی بہن کو سب بھگا لے جائیں۔ اس پہ کتے چھوڑ‌دیں، اسے زندہ دفن کردیں۔ ایک کے بعد ایک فیصلہ۔ شور، دہائی، دھول، خاموشی! نئے سانحے کا انتظار! ایسے ہر کیس کی پیش گوئی ہم پہلے سے کررکھتے ہیں، کہ کچھ نہیں ہونے والا۔ انصاف کا جنازہ اٹھ چکا۔ حد ہے کہ لوگ اس پر بھی مطمئن ہیں، کہ سب اچھا ہے!

لیجیے تازہ واقعہ تو آپ ہی نے سنایا، کہ ادھر ڈیرہ اسماعیل خان میں قوم کی بیٹی کو برہنہ کیا گیا ہے، اور تھوڑا بہت شور اٹھا ہے، دھول بھی نہ اڑی، دہائی کا کیا سوال؟ پھر خامشی! یہ سب آپ نے دیکھا؟ یہ پاکستان ہی کا احوال نہیں جنوبی ایشیائی ممالک کا منظر ہے۔ کیا ایسے ظلم ہوتے رہیں گے، ہوتے رہیں گے ہوتے رہیں گے، اور آپ پھر بھی ٹھٹھا اڑانے لگیں گے، یہ کہیں گے، کہ زلزلوں کی پیش گوئی اتنا پہلے نہیں کی جاسکتی؟ کیوں‌ بھئی؟ کیوں نہیں کی جاسکتی؟ یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس ہے کہ جس دھرتی پہ انصاف نہ ہو، ان معاشروں کو ملیا میٹ ہونا ہوتا ہے؟ اس بھارتی نے درست پیش گوئی کی ہے، کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں ایک زبردست زلزلہ آنے والا ہے؟ ہم صدیوں سے منتظر ہیں، آ ہی جائے، آ کے کیوں نہیں دیتا!؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran