قدرت کا نظام اور بوٹے کی خوش فہمی مکمل کالم


میرا دوست ایک امیر آدمی ہے، کئی فیکٹریوں کا مالک ہے، وہ روزانہ ان فیکٹریوں کا دورہ کرتا ہے، اپنی امارت کا حساب لگاتا ہے اور پہلے سے زیادہ دولت مند ہو کر گھر لوٹتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ شاہ خرچ نہیں ہوتے مگر بوٹا بالکل بھی کنجوس نہیں۔ جی ہاں، اس کا نام بوٹا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اتنے امیر کبیر آدمی کا نام بوٹا بہت عجیب ہے مگر مجھے بالکل عجیب نہیں لگتا کیونکہ جس وقت سے میں بوٹے کو جانتا ہوں اس وقت وہ سر تا پا ’بوٹا‘ تھا۔

خیر چھوڑیے، نام میں کیا رکھا ہے۔ میں بتا رہا تھا کہ بوٹے کو اللہ نے ایک سخی دل سے نوازا ہے، کوئی شخص اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دے وہ کچھ نہ کچھ دے کر ہی رخصت کرتا ہے، فیکٹری ملازمین کی تنخواہیں نہ صرف وقت پر ادا کرتا ہے بلکہ دیگر سیٹھوں کے مقابلے میں اجرت بھی زیادہ دیتا ہے۔ کئی رفاہی ادارے اس کے مالی تعاون سے چل رہے ہیں، بے شمار اسکولوں میں قابل اور ضرورت مند بچوں کی فیس بھی بوٹا خود دیتا ہے اور یوں اس کا شما ر شہر کے مخیر حضرات میں ہوتا ہے۔

یقیناً اس سارے کام میں بوٹے کی نیک دلی شامل ہے اور وہ ایک درد مند انسان کی طرح غریبوں کی مدد کرتا ہے مگر بوٹے کے دل میں بہر حال نمود و نمایش کی بھی خواہش ہے۔ اس کا دل چاہتا ہے کہ اس کی نیکی کی تشہیر ہو، لوگ اس کی سخاوت کے گن گائیں، جب وہ کسی اسکول کے لیے عطیہ دے تو چیک دیتے ہوئے اس کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوں۔ میری اکثر اس موضوع پر بوٹے سے بات ہوتی ہے مگر میں بوٹے کو اس تشہیر سے منع نہیں کرتا، مجھے لگتا ہے کہ اگر بوٹا نیکی کر کے دریا میں نہیں ڈالنا چاہتا تو اس کی مرضی، کم از کم وہ نیکی تو کر رہا ہے، ویسے بھی ہر شخص سے پارسائی کے اعلیٰ ترین درجے کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

کچھ عرصے سے میں بوٹے میں ایک تبدیلی دیکھ رہا ہوں۔ اب وہ اپنی نیکی اور سخاوت کی تشہیر میں اتنی زیادہ دلچسپی نہیں لیتا جتنی پہلے لیتا تھا۔ میں نے اپنی اس رائے کا اظہار بوٹے سے کیا تو وہ بہت خوش ہوا۔ بوٹے کو ہمیشہ یہ بات مسرت دیتی ہے کہ دنیا میں لوگ اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ میری بات کے جواب بوٹے نے انکشاف کیا کہ کچھ عرصے سے اسے محسوس ہو رہا ہے کہ قدرت ایک خاص طریقہ کار کے تحت اس سے کام لے رہی ہے۔ ویسے تو میں بوٹے کو کئی برسوں سے جانتا ہوں مگر اس بات نے تو مجھے بھی چونکا دیا۔

بوٹا ایک کائیاں آدمی ہے اسے فوراً میری کیفیت کا احساس ہو گیا، مسکرا کر بولا ”مجھے معلوم تھا کہ تم حیران ہو گے مگر جو بات میں تمہیں اب بتاؤں گا وہ تمہیں ششدر کر دے گی۔“ بوٹے نے ششدر کا لفظ استعمال کر کے مجھے مزید ششدر کر دیا۔ بوٹے نے بتایا کہ کچھ عرصے سے اس نے غریبوں کی مدد کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے، وہ روزانہ صبح اپنے بنک سے کچھ روپے نکلواتا ہے اور کسی نا معلوم منزل کی جانب چل پڑتا ہے، راستے میں اسے جو شخص بھی ضرورت مند نظر آتا ہے بوٹا اس کی مدد کرتا ہے۔

کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ جس شخص کی اس نے مدد کی وہ حیران پریشان ہو گیا کیونکہ وہ شخص سخت مشکل میں تھا اور کہیں سے بھی مدد کی امید نہیں تھی، بوٹے کی مدد اس شخص کے لیے گویا ایک غیبی امداد ثابت ہوئی۔ اسی طرح ایک دن بوٹا جس راستے پر نکلا وہ اسے کچی بستی کی طرف لے گیا، وہاں اس نے دو بچیوں کی شادی کے لیے پیسے دیے، ان بچیوں کا والد معذور تھا، اسے جب پتا چلا کہ ایک نا معلوم ’فرشتہ‘ اس کی مدد کے لیے پہنچا ہے تو وہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور بوٹے کے قدموں میں گر گیا۔

بوٹے نے مجھے بتایا کہ یہ واقعات اب معمول بن چکے ہیں اور اسے یقین ہو گیا ہے کہ قدرت اس کے ذریعے ان غریبوں کی مدد کر وا رہی ہے۔ بوٹے کو کسی نے بتایا ہے کہ یہ قدرت کا نظام ہے جس میں اسے ایک خاص کردار ملا ہے اور وہ خوش قسمت ہے جو اس نظام میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہا ہے۔ بوٹے نے جب یہ واقعات مجھے سنائے تو ساتھ یہ بات بھی کہی کہ ’میں پہلے بھی غریبوں کی مدد کرتا تھا مگراس وقت کبھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ قدرت نے مجھے اس کام کے لیے چنا ہے۔

اب میں ایک اجنبی کی طرح جب غریب کے گھر میں اچانک داخل ہوتا ہوں تو انہیں لگتا ہے جیسے خدا نے ان کی سن لی ہو، ان کی آنکھوں میں میرے لیے تشکر کے جو جذبات ہوتے ہیں وہ اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھے ”۔ میں نے بوٹے کی باتیں تحمل سے سنیں مگر اپنی عادت کے برخلاف خاموش رہا۔ میں نے سوچا کہ اگر کوئی شخص کسی بھی جذبے کے تحت معاشرے میں غریبوں کی مدد کر رہا ہے تو اس میں کیا حرج ہے! بوٹا اگر خود کو قدرت کے نظام کا کوئی اہم پرزہ سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے، اس سے نیکی ہی جنم لے رہی ہے، برائی تو نہیں۔ بوٹا اگر سمجھتا ہے کہ اس کی وساطت سے غریب بچیوں کے ہاتھ پیلے ہو رہے ہیں یا کسی ضرورت مند کو روزگار مل رہا ہے یا کسی بھوکے کے گھر چولہا جل رہا ہے تو بوٹے کو یہ نیا سٹیٹس مبارک ہو، کسی کو بھلا اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے! مگر پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔

بوٹے نے مجھے بتایا کہ ایک روز اسی طرح وہ صبح ایک نئے مگر نا معلوم راستے پر جا رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک بارہ چودہ سال کے بچے پر پڑی جو سڑک کے کنارے بیٹھا جوتے پالش کر رہا تھا۔ ’نہ جانے کیوں میرے قدم خود بخود اس بچے کی جانب اٹھ گئے۔ گو کہ میرے جوتے صاف تھے مگر پھر بھی میں نے اسے پالش کرنے کے لیے دے دیے۔ اتنے میں دو نوجوان جو موٹر سائیکل پر سوار تھے، میرے پاس آئے، ان میں سے ایک نے میرے پہلو میں پستول کی نال رکھی اور کہا کہ جو کچھ ہے نکال دو۔

میں نے چپ چاپ تمام روپے نکال کر ان کے حوالے کر دیے۔ انہوں نے جلدی جلدی روپے اپنی جیبوں میں ٹھونسے اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گئے۔ ”بوٹے نے جب یہ واقعہ مجھے سنایا تو نا چاہتے ہوئے بھی میں اپنی ہنسی نہیں روک پایا۔ اپنی اس حرکت پر میں آج بھی شرمندہ ہوں لیکن بوٹا بھلا مانس آدمی ہے اس نے میرے ہنسنے کا برا نہیں منایا۔ اسے صرف اس بات کا ملال تھا کہ وہ تو قدرت کے بنائے ہوئے سسٹم کے عین مطابق چل رہا تھا پھر اس کے ساتھ یہ ڈکیتی کی واردات کیوں ہو گئی۔

کیا اس نے اپنا کردار بخوبی نہیں نبھایا، کیا غریبوں کی مدد میں اس سے کوئی کوتاہی ہو گئی جس کی اسے یہ سزا دی گئی؟ بوٹے نے یہ سوال مجھ سے بھی کیے۔ میں نے بوٹے کو تسلی ٰ دیتے ہوئے کہا کہ قدرت کے جس سسٹم کی تم بات کر رہے ہو وہ صرف تمہارے اپنے ذہن کی اختراع تھی، ایسا کوئی نظام قدرت نے وضع نہیں کیا جس میں تمہیں کوئی اہم پوزیشن سونپی گئی ہو یا جس کے تحت تم نے یہ سمجھ لیا ہو کہ تم بہت نیک ہو اس لیے نادیدہ قوتیں تمہاری رہنمائی کریں گے۔ ہر شخص کو اپنے بارے میں یہی غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ بہت اہم ہے۔

تم ان ڈاکوؤں سے پوچھو گے تو شاید وہ بھی تمہیں یہی بتائیں گے کہ آج انہوں نے ایک نئے اور نا معلوم راستے کا انتخاب کیا اور صبح ہی کامیابی نے قدم چوم لیے حالانکہ یہ سب اتفاقات کا کھیل ہے۔ اس کائنات میں اربوں انسان بستے ہیں اور وہ اربوں انسان روزانہ صبح کھربوں کام کرنے نکلتے ہیں، ایسے میں کسی کو تم جیسا کوئی نیک اور سخی مل جاتا ہے اور کسی کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ خود کو اہم سمجھنا چھوڑ دو، ہم میں سے کوئی بھی اتنا اہم نہیں کہ کائنات کی نادیدہ قوتیں اس کی رہنمائی کریں۔ غریبوں کی مدد اسی طرح کرتے رہو جیسے پہلے کرتے تھے۔ ویسے میری اس تقریر کا بوٹے پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ بوٹا اب بھی اجنبی بن کر مسکینوں کی مدد کرتا ہے مگر اب اس کے ساتھ دو گن مین بھی ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments