دینا واڈیا اور اندراگاندھی۔ دو عورتیں ایک کہانی


نیپال کے دارلحکومت کٹھمنڈو میں باگھ متی دریا کے کنارے واقع پشوپتی ناتھ کے مندر میں سن 2001 میں مجھے بڑے تفاخر سے بتا یا گیا کہ مندر کی انتظامیہ نے ہندوستان کی کئی بار وزیر اعظم رہی اندرا گاندھی کو ایک غیر ہندو سے شادی کرکے دھرم بھرشٹ کرنے کے کارن اس مند رمیں داخلہ کی اجازت نہیں دی تھی۔ میں نہ ہندو تھا اور نہ ہندوستانی اس کے باوجود مندر کے اندر چلا گیا اور کسی نے پوچھا بھی نہیں۔ میری پتلون کی چمڑے کی بیلٹ، چرمی بٹوہ اٹھاکر جوتے اتروالئے گئے کیونکہ ہندوؤں کے اس مقدس مندر میں غیر ہندوؤں کے علاوہ چمڑے سے بنی اشیا ء کو اندر لےجانے کی بھی ممانعت تھی۔

کئی سال گزرنے کے بعد بھی میرے کانوں میں اس بات کی باز گشت شاید اس لئے بھی ہے کہ نیپال جیسے چھوٹےاورہندوستان پرانحصار کرنے والے ملک میں اندرا گاندھی جیسی اہم شخصیت کے ساتھ ایسا سلوک ہونا میرے توقعات کے برعکس تھا۔ مگر یہ کسی ملک کی نہیں مندر کی طاقت تھی جس نے ایک طاقتور سے طاقتور شخص کو بھی اپنی چوکھٹ عبور کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس سے پہلے بھی رنجیت سنگھ جیسے طاقتور مہاراجا کو اس کی اپنی راجدھانی امرتسر کے ہری مندرکے خالصہ تخت نے ایک مسلمان عورت سے شادی یا تعلق رکھنے کے جرم میں سز ا کا مستحق ٹھہرایا تھا، حالانکہ رنجیت سنگھ نے خود اس مندر کو سونے سے مزیّن کرکے گولڈن ٹیمپل بنا دیا تھا۔

ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم کشمیری پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا جب وہ پیدا ہوئی تو اس کے والد اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے اپنی بیوی اور اکلوتی بیٹی پر توجہ نہ دے پائے۔ بیوی کافی طویل علالت کے بعد جوانی میں ہی انتقال کر گئی۔ اندرا گاندھی کو باپ کی غیر موجودگی میں بہت کم عمری میں اپنی علیل ماں کا خیال رکھنا پڑا جس کی وجہ سے ان کی تعلیم میں بھی حرج ہوا اور باقاعدگی سے سکول، کالج اور یونیورسٹی بھی نہ جا پائی۔ ماں کے انتقال کے بعد ہی اکسفورڈ یونیورسٹی گئی مگر تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی چھوڑنا پڑا کیونکہ اب باپ کو ہندوستان میں اس کی ضرورت تھی۔ (بعد میں اکسفورڈ نے ان کو اعزازی ڈگری دی)۔

اکسفورڈ میں پڑھائی کے دنوں میں ہی اندرا کو گجرات کے رہنے والے ایک پارسی نوجوان فیروز گاندھی سے پیار ہوگیا جو لندن میں ہی زیر تعلیم تھے۔ انھوں نے اپنے والد کو اپنے شادی کے ارادے سے آگاہ کیا اور کچھ پس و پیش کے بعدیہ شادی انجام پائی جس کے بعد وہ اندرا نہرو سے اندرا گاندھی کہلائی۔ بعض لوگ گاندھی کے لاحقے کو مہاتما گاندھی سے جو ڑتے ہیں جو صحیح نہیں۔ اندرا گاندھی نے باپ کے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ واپس ہندوستان آکر ان کی معاونت سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا۔ باپ کی زندگی میں ہی وہ کانگریس کی لیڈر بن گئی اور ان کے مرنے کے بعد وزیر اور پھر اپنے والد جواہر لال نہرو کے بعد سب سے طویل عرصے تک ہندوستان کی وزیر اعظم رہی۔ ایک پارسی فیروز گاندھی سے شادی کرنے اور ان کے نام کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ لگانے کے باوجود ہندوستان کے لوگوں نے انھیں بار بار اپنی وزیر اعظم منتخب کیا لیکن سرحد کے اس پارنیپال میں پشو پتی ناتھ مندر کےبنیاد پرست پروہتوں نے انھیں معاف نہیں کیا۔

اندرا کی طرح دینا جناح بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی ان کی پارسی نژاد بیوی سے اکلوتی اولاد تھی۔ محمد علی جناح بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے راہنما تھے جن کے کاندھے پر بھاری سیاسی ذمہ داریاں تھیں جن کی بجاآوری میں ان کو اپنی بیوی اور بیٹی کو نظر انداز کرنا پڑا۔ دینا کی نازوں پلی ماں اپنے شوہر کی بے اعتنائی برداشت نہ کرسکی وہ بھی نہرو کی بیوی کی طرح جوانی میں ہی اپنی بیٹی کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئی۔ دینا ممبئی سے لند ن چلی گئی اور ان کو بھی دوران تعلیم ایک پارسی نوجوان سے پیار ہوگیا جن سے شادی کرکے وہ وینا جناح سے دینا واڈیا بن گئی۔ محمد علی جناح پاکستان کے بانی اور قائد اعظم تھے جو اپنے نئے بنائے ملک کے پہلے گورنر جنرل بن گئے لیکن اس کی اکلوتی اولاد وینا اس ملک کی شہری نہ بن سکی۔

نہرو اور جناح تاریخ کے جس موڈ پر پر ہندوستان کی سیاست میں سرگرم ہوئے وہ عام حالات نہیں تھے۔ دنیا تبدیلیوں سے گزر رہی تھی دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا انگریزوں سے آزادی کی تحریک چل رہی تھی جس میں وہ اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ نہرو کشمیر کے پنڈت تھے جس نے ہندوستا ن میں سیاست کی جہاں گجرات، بنگال، پنجاب، وسطی اور شمالی ہندوستان کے بڑے بڑے خاندان اور نام ان کے حلیف اور حریف تھے۔ کشمیر کا یہ پنڈت ہندوستان میں اپنے سیکیولر اور سوشلسٹ نظریات کے ساتھ کھڑے تھے جس کی حمایت اور مخالفت یکساں طور پر کی جارہی تھی۔

محمد علی جناح بھی کراچی کی خوجہ براداری سے تعلق رکھتے تھی جس نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔ جناح کے سامنے بھی بنگال، اور وسطی ہندوستان کی اشرافیہ کے علاوہ سرحد کے خان، پنجاب کے نواب، بلوچستان کے سردار اور سندھ کے ریئس تھے جو اپنی بیٹیوں کے سات پردوں میں رکھنے کو ہی اپنی غیرت اور انا سمجھتے تھے۔ جناح اپنی تمام تر محبت اور مجبوریوں کے باوجود پسند کی شادی کرنے والی اپنی بیٹی کو گلے نہ لگا سکا جو اس کے لئے مذہبی سے زیادہ ایک سماجی مجبوری تھی کیونکہ بیٹی کا یہ عمل اس کے سیاسی حلقہ احباب کے لئے ناقابل قبول تھا۔

ان دو سیاسی شخصیات میں ایک ایک فرق یہ تھا کہ نہرو سیکیولرزم کے پرچارک تھے جہاں مذہب اور شادی ایک نجی معاملہ ہوتا ہے جس میں ریاست یا کسی دوسرے شخص کو مداخلت کا کوئی حق نہیں، جناح نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا جس میں وہ اپنی زندگی گزار سکیں۔ نہرو انے اپنی بیٹی کی پسند کو اس کا ذاتی معاملہ قرار دیا جس کو اگر ہندو بنیاد پرستوں نے نا پسند کیا تو ملک کی غیر ہندو آبادی نےاپنے سیاسی راہنما کی اس کشا دہ دلی کو پسند بھی کیا اور ان کے ساتھ کھڑی بھی رہی۔ جناح ایسا نہ کر سکے کیونکہ وہ جن نظریات کی پر چار کرتے تھے اس میں ایسا کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔ وہ اکیلے جاکر اپنی بیٹی کو گلے لگا سکتے تھے ان کے بچے کو اپنی ٹوپی بھی پہنا سکتے تھے لیکن دنیا کے سامنے اس کا نام بھی نہیں لے سکتے تھے۔

اندرا گاندھی اور دینا واڈیا برصغیر میں مذہب سے باہر پسند کی شادیاں کرنے والی پہلی یا آخری لڑکیاں نہیں تھیں۔ آج بھی ایسی پسند کی شادیاں کی جاتی ہیں مگر اب ایسا کرنے والی کو غیرت کے نام پر رات کے اندھیرے میں قبر میں اتا کردن کے اجالے میں خود کشی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے کیونکہ اب مذہب اور غیرت عورت سے شروع ہو کر عورت پر ختم ہوجاتے ہیں۔ اندرا اور دینا نے اپنی پسند کی شادیاں کیں یہ ان کے باپ کی دی ہوئی خود اعتمادی کا مظہر تھا مگر ایک اپنے ملک کے لوگوں کے لئے اپنے باپ کی متبادل کے طور پر قبول ہوئی اور دوسری کو اپنے باپ کے بنائے ملک میں دو گز زمین بھی نہ مل سکی یہ معاشرتی عدم برداشت اور رواداری کے فقدان کا شاخسانہ ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan