تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو


اکتوبر انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ کے طفیل دنیا میں پہلی بار تیل بطور ہتھیار جانا گیا اور تیل کی فی بیرل قیمت ساڑھے تین ڈالر سے بڑھ کے بارہ ڈالر تک پہنچ گئی اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی دولت میں راتوں رات تین گنا اضافہ ہو گیا۔ لیکن تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے عرب رکن ممالک مغربی دنیا کی اسرائیل نوازی کے خلاف یہ ہتھیار بس پانچ ماہ تک ہی استعمال کر پائے۔ آج اس بات کو بیالیس برس ہو چلے۔

بھلا ہو تیل کی بندش کا کہ امریکا کو پہلی دفعہ خیال آیا کہ آیندہ کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آڑے وقت کے لیے جتنا محفوظ ذخیرہ ہو سکتا ہے کر لیا جائے۔ چنانچہ انیس سو پچھتر میں امریکا نے تیل کا اسٹرٹیجک ذخیرہ اتنا بڑھا لیا جو امریکا کی تین ماہ کی ضروریات کے لیے کافی تھا۔ اور آج یہ ذخیرہ چھ ماہ کی امریکی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔

انیس سو تہتر میں مشرقِ وسطی کے ممالک بالخصوص ایران، عراق، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت نے جب پہلی اور شاید آخری مرتبہ تیل کو ایک مشترکہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تو ذرا دیر کے لیے یوں لگا جیسے ان تمام ممالک کے نوآبادیات گزیدہ تلخ ماضی نے انھیں آئل ڈپلومیسی کی شکل میں مشترکہ پلیٹ فارم دے دیا ہے جس پر کھڑے ہو کر وہ آیندہ بھی فلسطین اسرائیل شاخسانے سمیت علاقائی بحرانوں کے یکطرفہ حل کے یکطرفہ جھکے پلڑے کو متوازن کر پائیں گے۔

مگر تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کے صرف سات برس میں ایسی کایا کلپ ہوئی کہ یہ ممالک ایک دوسرے سے شدید بدظن ہو گئے یا کر دیے گئے۔ انقلابِ ایران کی مبینہ ایکسپورٹ روکنے کے خوف نے عربی عجمی نفاق پھر سے زندہ کر دیا۔ ایران اور عراق اور عراق کے پیچھے دیگر خلیجی ممالک ایران سے صف آرا ہو گئے۔ پھر عراق اور کویت کی چپقلش شروع ہو گئی۔

اس کے نتیجے میں یہ خطہ عراق ایران جنگ ختم ہونے کے صرف دو برس بعد جنگِ خلیج کی لپیٹ میں آ گیا جس کا پورا خرچہ تیل پیدا کرنے والی خلیجی ریاستوں نے اٹھایا اور امریکا کی گرفت علاقے پر اور بڑھ گئی۔ اور اس جنگ کے تیرہ برس بعد ایک اور جنگ میں عراق کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور اس اینٹ بجاؤ مہم میں خلیجی ریاستوں نے خوشی خوشی اپنے سابقہ حلیف کے مقابلے میں امریکا کا پہلے سے بڑھ کے ساتھ دیا اور ان دو جنگوں کے ردِ عمل نے القاعدہ کی شکل میں جڑ پکڑنی شروع کی اور پھر اگلے دس برس میں افغانستان سے لیبیا اور نائیجیریا تک دہشت گردی اور اتھل پتھل کا نیا دور شروع ہو گیا۔ جس نے آج نئے انڈے بچے دے دیے ہیں۔

انیس سو تہتر چوہتر کے تیل بطور ہتھیار تلخ تجربے کے تدارک کے لیے مغربی کمپنیوں نے دنیا کے دیگر حصوں میں سرمایہ کاری شروع کر دی۔ چنانچہ بحیرہ شمالی، خلیجِ میکسیکو، نائجیریا اور مغربی افریقہ کی سمندری حدود میں تیل کے نئے ذخائر کو ترقی دینے کا کام تیزی سے شروع ہوا۔ ان ذخائر کے مارکیٹ میں آنے کے سبب تیل کی عالمی قیمت کو ایک خاص سطح پر مستحکم رکھنے میں خاصی مدد ملی۔

جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ جو ہتھیار اوپیک نے متعارف کروایا اسے موثر ترین شکل خود انھوں نے دی کہ جن کے خلاف سب سے پہلے یہ ہتھیار استعمال ہوا یعنی امریکا اور اس کے اتحادی۔ سوویت یونین جیسی سپرپاور کی کمر توڑنے کے دعویداروں میں اگرچہ جنرل ضیا الحق، حمید گل، جماعتِ اسلامی اور افغان مجاہدین سمیت بہت سے شامل ہیں۔ مگر اصل فاتح شاید کوئی اور ہے۔

جب ریگن انتظامیہ نے افغانستان پر سوویت قبضے کے ایک برس بعد سوویت یونین کو ایول ایمپائر یعنی ابلیسی سلطنت کا خطاب دیا تب تک امریکی اسٹیبلشمنٹ اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ جوہری ہتھیاروں کے انباروں نے جو توازنِ دہشت قائم کیا ہے اسے توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ سوویت یونین کو اقتصادی مار ماری جائے۔ روسی معیشت کا دارو مدار جس زرِ مبادلہ پر تھا اس کا بیشتر حصہ یا تو تیل اور گیس کی یورپ کو فروخت سے آ رہا تھا یا پھر تیسری دنیا کو ہتھیار بیچنے سے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا نظریہ یہ تھا کہ روس جیسے وسیع و عریض ملک کو نپولین اور ہٹلر کی طرح فوج کشی کر کے شکست نہیں دی جا سکتی۔

لیکن اگر ہتھیاروں کی دوڑ کو عروج تک پہنچا دیا جائے تو سوویت یونین کو اس دوڑ میں تھکایا جا سکتا ہے۔ اسے اپنے وسائیل کا بیشتر حصہ خود کو اس دوڑ میں برابر رکھنے کے لیے صرف کرنا ہو گا۔ لہٰذا اندرونی کنزیومر بیس کمزور ہو گا اور اس کے نتیجے میں سوویت سلطنت میں نچلی سطح تک جو بے چینی پھیلے گی وہ رفتہ رفتہ اس دلدل کی شکل اختیار کرتی چلی جائے گی جس میں دھنسنے سے خود کو بچانے کے لیے ماسکو کو مشرقی یورپ کی طفیلی ریاستوں اور غیر روسی وفاقی ریاستوں کا بوجھ اپنے کاندھوں سے ہٹانا پڑ جائے گا۔

یوں ابلیسی سلطنت کی ٹوٹ پھوٹ اور سکڑنے کا عمل شروع ہو جائے گا۔ چنانچہ مغربی یورپ بالخصوص جرمنی میں نئی نسل کے پرشنگ میزائیل کی تنصیب کا غوغا شروع ہوا اور خلا میں ہتھیاروں کا ذخیرہ کرنے اور اسٹار وار کے لیے نئے پیچیدہ اور مہنگے موت کے کھلونے بنانے اور نیوٹرون بموں کی پیداوار شروع کرنے کا پروپیگنڈہ عروج پر پہنچایا گیا تا کہ روسی ریچھ اس ہانکے سے گھبرا جائے۔ ( آج خلائی ہتھیاروں اور نیوٹران بموں کا افسانہ کسی کو یاد بھی نہیں۔

مگر اس کام کو تب تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا تھا جب تک توانائی کا ہتھیار بھی بیک وقت استعمال نہ ہو۔ سرد جنگ کے عروج کے باوجود انیس سو پچھتر کے بعد سے مغربی یورپ کے سرمایہ دار ممالک کی توانائی بالخصوص تیل اور گیس کی ضروریات کا پچیس فیصد روسی ذخائر سے پورا ہوتا رہا۔ جب کہ مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ممالک کا تو دارو مدار ہی روسی تیل اور گیس پر تھا۔ اور یہی سوویت یونین کے لیے زرِ مبادلہ حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔

چنانچہ انیس سو پچاسی میں ریگن اور شاہ فہد کے مابین یہ انڈر اسٹینڈنگ ہوئی کہ اگر سعودی تیل سے عالمی منڈی بھر جائے تو قیمتیں لامحالہ نیچے آئیں گی اور اس کا اثر سوویت یونین پر اس قدر کمر توڑ ہو گا کہ نہ تو وہ ہتھیاروں کی دوڑ جاری رکھنے کے قابل رہے گا اور نہ ہی اسے تیل اور گیس کی فروخت سے اتنا زرِ مبادلہ مل پائے گا کہ وہ اپنے عوام کی بنیادی ضروریات کو تشفی بخش انداز سے پورا کر پائے۔

چنانچہ انیس سو چھیاسی کے شروع میں سعودی عرب نے بظاہر عراق ایران جنگ کے سبب تیل کی عالمی رسد میں کمی پورا کرنے کے لیے اپنی پیداوار دو ملین بیرل روزانہ سے بڑھا کر پانچ ملین بیرل کر دی۔ یوں فی بیرل قیمت جو انیس سو اکیاسی میں پینتیس ڈالر کے لگ بھگ تھی۔ انیس سو چھیاسی میں دس ڈالر سے بھی نیچے آ گئی۔ اگلے تین برس کی تیل کساد بازاری نے سوویت یونین کا بھٹہ بٹھا دیا۔ اس دوران افغانستان سے سوویت فوجوں کا انخلا ہوا اور دیوارِ برلن ٹوٹ گئی۔

جولائی دو ہزار آٹھ میں تیل کی عالمی قیمت ایک سو پینتالیس ڈالر کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی۔ آج سات برس بعد یہی تیل پچاس ڈالر سے بھی کم میں دستیاب ہے۔ روس کی جانب سے کریمیا پر قبضے اور یوکرین کو مغربی کیمپ میں جانے کی مزاحمت کے نتیجے میں ایک بار پھر ولادی میر پوتن کو انسانی حقوق کی پامالیوں کے بوقتِ ضرورت کام آنے والے الزامات سمیت مغربی پابندیوں کا سامنا ہے۔ تیل کی عالمی قیمت میں موجودہ کمی کے سبب روس کی قومی پیداوار اگلے برس ساڑھے چار فیصد کی شرح تک سکڑ سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو امریکا کو امید ہے کہ روس ایک بار پھر اچھا بچہ بن جائے گا۔

دوسرا ہدف ایران ہے۔ جسے نہ صرف اپنے جوہری پروگرام کے بھگتان میں مسلسل اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے بلکہ جو تھوڑا بہت تیل وہ فروخت کر سکتا ہے وہ بھی کوڑیوں کے مول آن پہنچا ہے۔ امید ہے اگلے دو چار مہینے میں ایران بھی اپنے جوہری پروگرام پر مغرب کی مرضی کا سمجھوتہ کر لے گا تا کہ اس کا اقتصادی سانس بحال ہو سکے۔ امید ہے تیل کی طاقت سے یہ دو بڑے کام نکالنے کے بعد اگلے ستمبر سے قیمتیں چڑھنی شروع ہو جائیں گی۔

امریکا کو تیل کی بابت اب کوئی خطرہ نہیں۔ اپنی ضروریات کا پچھتر فیصد وہ خود پیدا کرتا ہے۔ اور اگلے پانچ برس میں وہ شالے ٹیکنولوجی کے فضل سے یہ پچیس فیصد بیرونی تیل خریدنے سے بھی بے نیاز ہو جائے گا اور کھل کے دوسروں کے تیل کو عالمی بساط پر حریفوں کو سیدھا کرنے کے لیے استعمال کر پائے گا۔ اگلا میچ چائنا سے ہے اور خلیجی ریاستیں آج بھی امریکن الیون کا حصہ ہیں۔
ہفتہ 14 فروری 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).