ڈھاکا کیسے ڈوبا؟


علی احمد خان کی یاداشتوں پر مبنی کتاب جیون ایک کہانی سے چند جھلکیاں۔
انڈیا کی تقسیم مشرقی یو پی کے ایک گھر میں بٹوارا ڈال دیتی ہے۔ باپ پاکستان جانے سے انکار کر دیتا ہے۔ دو بچے چچا اور باقی خاندان کے ساتھ ایک جہاز میں پاکستان کے لیے روانہ ہوتے ہیں الوداع کہنے کا وقت آتا ہے تو بچے کو رونا آتا ہے لیکن وہ پھر جہاز کے اپنے پہلے سفر کی حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔

چند سال بعد یہی دو بچے کراچی سے چٹاگانگ جانے والے ایک بحری جہاز کے عشرے پر اپنے باپ سے ملنے کے لیے مشرقی پاکستان جا رہے ہیں۔ مشرقی یو پی سے لاکھوں لوگوں کی طرح بچوں کا باپ بھی مشرقی بنگال پہنچ چکا ہے اور ایک کھاتی پیتی بہاری برادری کا حصہ بن چکا ہے۔

کئی سالوں بعد یہی بچہ جوان ہو کر فاطمہ جناح کی اِنتخابی مہم میں شریک ہے۔ اُس کی ذمے داری ہے کہ ڈھاکہ کے مقامی محلے میں بنے ایک دفتر سے سارے بی ڈی ممبرز کو خط لِکھے اور انھیں قائل کرے۔ وہ دِن رات فاطمہ جناح کے حق میں پیغامات لِکھتا ہے، لفافوں میں بند کر کے اڈریس لِکھتا ہے۔ جِسے اُس کے ساتھی کارکن ڈاک کے ذریعے بی ڈی ممبروں کو بھیجتے ہیں۔

بعد میں یہ نوجوان سوچتا ہے کہ جتنے الفاظ اُس نے اِن لفافوں میں بند کیے ہیں اِن سے ایک ڈائری یا ایک مُفید اور ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔

علی احمد خان کی یہ کتاب لِکھی گئی لیکن کوئی نِصف صدی بعد۔ دیر آید درست آید شاید اِسی کتاب کے لیے کہا گیا تھا۔ میں نے بچپن سے مہم جوؤں کی، بادشاہوں کی، شاعروں کی اور شکاریوں کی یادداشتیں پڑھی ہیں لیکن بہت کم ایسا ہوا ہے کہ صفحہ پلٹنے سے پہلے گہرا سانس لینا پڑے۔

صفحے سے اُٹھتی ہوئی کشیدگی اِتنی شّدت اِختیار کر جائے کہ آپ کو چند مِنٹوں کے لیے کتاب بند کرنی پڑے اور بعض دفعہ ایک پیرا دوبارہ پڑھنا پڑے کہ یا خدا کوئی اِتنی ہولناک بات، اِتنے سپاٹ، غیر جذباتی اور تصنع سے پاک پیرائے میں کیسے کر سکتا ہے۔

سقوط مشرقی پاکستان، یا بنگلہ دیش کی آزادی، آپ اپنی پسند کا کوئی بھی نام دے دیں سنہ 1971 پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ سمجھا جاتا ہے لیکن اگر آپ یاد کرنے کی کوشش کریں کہ کیا آپ نے اِس کے بارے میں کوئی ڈاکومنٹری فلم دیکھی ہے یا کتاب پڑھی ہے تو زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو بھی بریگیڈئیر صدیق سالک مرحوم کی کتاب میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا کے علاوہ شاید کوئی کتاب یاد نہ آئے۔

( یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ کتاب کا انگریزی میں نام witness to surrender ہے جِس کا اُردو ترجمہ شکست کی گواہی بنتا ہے لیکن اُردو میں یہی کتاب میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا بن جاتی ہے)۔ جیسے ڈھاکا ساون کی گھٹاؤں کی نظر ہو گیا۔ اِس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہم انگریز کی زبان میں تو اپنی شکست پر بات کر سکتے ہیں لیکن اپنی زبان میں اپنی تاریخ پر بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔

میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا بھی ہم تک غالبا اِس لیے پہنچی کہ صدیق سالک مرحوم بریگیڈئیر تھے اور کتاب کو سکولوں، کالجوں کی لائبریریوں تک پہنچایا گیا۔ اگر آپ واقعی جاننا چاہتے ہیں کہ ڈھاکا کیسے ڈوبا تو علی احمد خان کی کتاب کا صفحہ 133 کھولیں۔ ڈھاکا میں فوجی ایکشن کے بعد ایک گڑھے میں تین لاشیں تیر رہی ہیں اُن کے گرد گدھوں کا ایک ہجوم ہے۔ وقفے وقفے سے گِدھ اُڑ کر لاش پر پنجے جماتا ہے، لاش گِدھ کے بوجھ سے ڈوبنے لگتی ہے، گِدھ اُڑ جاتا ہے۔ یہ کارروائی دو تین دِن چلتی ہے۔ آخر پانی سوکھتا ہے اور گِدھوں کو اپنی خوراک ملتی ہے۔

علی احمد خان نے ڈھاکہ ڈوبتے ہی نہیں دیکھا اپنا خاندان بھی اُسی ڈھاکہ کے ساتھ ڈوبتے دیکھا اور اپنے ہی وطن میں پناہ گزین ہوئے اور پھر ایک ایسی طویل ہجرت کی جو کِسی اُداس ایڈونچر فلم کا اِختتامیہ لگتی ہے۔ نئے نئے آزاد ہوئے بنگلہ دیش سے جعلی پاسپورٹ پر واپس انڈیا جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔ وہاں سے نیپال اور نیپال سے تھائی لینڈ اور وہاں سے واپس کراچی۔

اور اِس پورے عرصے میں زندہ رہنے والوں کو یہ نہیں پتہ کہ باقی زندہ رہنے والے کہاں گئے، جن کے بارے میں پتہ چلا کہ مارے گئے اُن کی نہ کوئی قبر نہ کوئی نشان۔ کراچی واپسی کے بعد خبر ملتی ہے کہ ایک بھائی جس کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ مارا گیا، بھارت کے کسی جنگی قیدیوں کے کیمپ میں دکھائی دیتا ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ نہیں وہ کوئی اور تھا۔ ایک مبہم سی اُمید بھی آخری ہچکی لے کر دم توڑ دیتی ہے۔

جو لوگ آج تک بحث کرتے ہیں کہ ڈھاکا میں شکست کی ذّمہ دار فوج تھی، ہمارے سیاستدان یا یہ سب کچھ بھارت کا انتقام تھا۔ وہ یہ کبھی نہیں پوچھتے کہ مشرقی پاکستان میں لوگ کیسے رہتے تھے، بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے رشتے کیسے تھے اگر وہ لوگ یہ کتاب پڑھ لیں تو اُنھیں پتہ چلے کہ جب ایک جسم کو دو ٹکڑوں میں کاٹا جاتا ہے تو کیسے کیسے غیر متوقع زخم لگتے ہیں، کہاں کہاں سے خون بہتا ہے اور کب تک بہتا رہتا ہے۔

پوری کتاب میں بیان کیے گئے دردناک واقعات کے باوجود بیانیے پر ایک اُداس سی مسکراہٹ بکھری ہوئی۔ بعض دفعہ آپ مسکراتے ہیں اور پھر شرمندہ ہوتے ہیں اور کبھی روتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ مصنف نے تو کوئی جذباتی بات کی ہی نہیں۔ کیونکہ مصنف کتاب کی غالبا واحد جذباتی بات کتاب کی آخری سطروں میں کہتے ہیں۔

’میرے حال پر میرے ماضی کا غلبہ کچھ زیادہ ہو گیا ہے اور مستقبل کا خوف ہمہ وقت ذہن پر مسلط رہتا ہے۔ گھر میں بیٹھا سوچتا رہتا ہوں یہ کہیں پھر نہ لُٹ جائے، بچوں کو جوان ہوتے دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں پھر نہ قتل ہو جائیں۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).