بانجھ پن کے بارے میں کچھ ضروری باتیں


بانجھ کا لقب عورت کے لیے مخصوص کرنا قطعی غلط ہے۔ اگر مرد بانجھ ہو تب بھی معاشرے کو یہی بتایا جاتا ہے کہ عورت بانجھ ہے۔ اگر بانجھ مرد دوسری شادی بھی کرلے تب بھی تشخیص اور علاج کے نام پر عورت ہی کو عموماً قربانی کا جانور بنایا جاتا ہے۔

جب بھی ایسی خاتون اپنی ساس کے ساتھ حمل کے لیے دوا لینے آتی ہے تو سب سے پہلے میں ساس کو باکردار، صابرہ بہو ملنے کی مبارک دیتی ہوں۔ پھر شوہر اور بیوی کے ساتھ رہنے کا وقت گنتی ہوں جو عموماً ایک سال کے وقفے سے پندرہ دن یا دو سال کے وقفے کے بعد دو یا تین ماہ کا ہوتا ہے۔ شادی کا عرصہ برسوں پر محیط ہو تب بھی حمل ٹھہرنے کا ممکنہ وقفہ ان گنے چنے دنوں پر محیط ہوتا ہے جو معاشرے اور سماج سے چرا کر میاں بیوی ساتھ گزار لیتے ہیں۔

عورت کے تولیدی نظام کا سیٹ اپ ایسا ہے کہ ایک تاریخ سے دوسری تاریخ تک کے درمیانی 28 سے30 روز میں سے کسی ایک دن انڈہ خارج ہوتا ہے۔ یہ دن عموماً اگلی ممکنہ تاریخ سے ٹھیک چودہ دن پہلے ہوتا ہے۔ یہ انڈہ بارہ سے چوبیس گھنٹے کے لیے نظام تولید میں زندہ رہتا ہے جس کے بعد گر جاتا ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے ان چوبیس گھنٹے میں زوجین کے مابین دوری قائم رہے تو باقی تمام ماہ میں حمل ہونے کا امکان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہر ماہ میں ایک خاص دن کے چوبیس گھنٹے یعنی ’صرف ایک مکمل دن‘ جو حمل کے لیے موزوں ہے اسے ذہن میں رکھیں تو عورت کے حساب سے ایک سال میں صرف بارہ دن حمل کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔

مرد کے تولیدی جراثیم زنانہ نظام تولید میں چند منٹ سے لے کر پانچ دن تک زندہ رہ سکتے ہیں، یعنی رحم میں جرثومے کی زیادہ سے زیادہ عمر پانچ روز ہے۔ مختلف تحقیقات سے ثابت ہوا کہ زیادہ تر حمل انڈے کے اخراج سے ایک سے دو روز پہلے کئے گئے ملاپ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں شامل چند حمل ایسے بھی تھے جو انڈے کے اخراج سے پانچ روز پہلے کے ملاپ کے نتیجے میں وقع پذیر ہوئے۔ جرثومے کی پانچ روزہ زندگی میں ان جراثیم نے اندام نہانی، رحم کی لمبی گردن، رحم اور فیلوپئین ٹیوبز سے انڈے دانی اور انڈے سے ملاپ کے بعد ٹیوبز کے رستے واپس رحم تک کا سفر بھی طے کرنا ہوتا ہے۔

اسی طرح خاتون کے انڈے خارج ہونے کا دن ہمیشہ سو فیصد درستی سے بتانا ممکن نہیں ہوتا، اس لئے اسے بھی احتیاطاً ممکنہ دن سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد تک سمجھ لیجیے یعنی ان مخصوص 24 گھنٹوں کو مزید 48 گھنٹے کے حفاظتی حصار میں لے آئیے تاکہ حمل کا چانس مس نہ ہو۔ سائنس اس وقفے کو زرخیزی کی کھڑکی یا ’فرٹیلیٹی ونڈو‘ کہتی ہے اور اس کا قطعی وقت بیضے کے اخراج سے پہلے کے 12 سے 36 گھنٹے مانتی ہے۔ اب اس مخصوص وقفے میں حمل کا خواہشمند جوڑا کوئی پکنک یا دعوت قبول نہ کرے یعنی گھر پر رہے اور حمل کی خواہش نہ رکھنے والے زوجین ان مخصوص دنوں میں خاص پرہیز رکھیں۔ مردانہ جراثیم کی زنانہ نظام تولید میں 5 روز کی ممکنہ زندگی کے پیش نظر حمل کے لیے مفید تین روز سے بھی 5 دن کا فاصلہ رکھیں۔ اس کے مطابق بندوبست سے تکلیف دہ اور مضر صحت مانع حمل ادویات اور سرجریز سے بچاؤ ممکن ہے۔

میں اپنی مریضہ کو ہمیشہ علاج کے آغاز میں ایک تین لفظی موٹو لکھ کر دیتی ہوں’ صبر، حوصلہ، تعاون‘۔ ہر ماہ جب امید بندھ کر ٹوٹ جائے تو حوصلے سے کام لیتے ہوئے علاج جاری رکھیے اور ڈاکٹر سے دوران علاج مکمل تعاون کیجیے۔ پوتے کھلانے کی خواہشمند ساس دل بڑا کرے۔ پوتا چاہیے تو بہو کو شوہر کے پاس بھجوانے کا انتظام کریں،غیرضروری ٹیسٹوں اور علاج سے اس نئے نویلے جوڑے کو بچائیں۔ اگر ایک نیا شادی شدہ جوڑا ایک سال کا عرصہ بنا کسی دوری کے، ایک ساتھ گزارتا ہے لیکن حمل قرار نہیں پاتا، ایسی صورت میں اس جوڑے کے فریقین کو گائناکالوجسٹ سے مشورہ کرنا چاہیے اور ابتدائی ضروری ٹیسٹ کروا لینے چاہیں۔ اگر دونوں کے ٹیسٹس درست آئیں تو کسی علاج اور ٹینشن کے بنا مزید ایک سال کا ہنی مون پریڈ گزاریں۔

اس دوران اگر حمل نہیں ٹھہرتا تو ’اسپیشلائزڈ‘ ٹیسٹس کرائے جائیں اور باقاعدہ تشخیص کے بعد متعلقہ کمی/ کمزوری / بیماری کا علاج کیا جائے۔ یاد رہے کہ میں یہ تمام ٹائم پریڈ ایک نوجوان جوڑے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتا رہی ہوں۔ اگر فریقین میں سے ایک کی یا دونوں کی شادی لیٹ عمر میں ہوئی ہے یا دونوں میں سے کسی ایک یا دونوں کا اس شادی سے پہلے پچھلی شادی میں حمل ہونے یا نہ ہونے کا تجربہ موجود ہے یا آپ کے خاندان خصوصاً بہن بھائیوں میں بانجھ پن موجود ہے تو ایسی صورت میں وقت ضائع کئے بغیر جلد از جلد اسپیشلسٹ گائناکالوجسٹ سے رابطہ کیجیے۔

بانجھ پن کے علاج کے آغاز میں ڈاکٹر زوجین کا ایک انٹرویو کرتا ہے جس میں جوڑے کی ازدواجی روٹین اور طریق کار کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر طریقہ علاج طے کیا جاتا ہے۔ بہت سے جوڑوں میں بانجھ پن کی کوئی وجہ تشخیص نہیں کی جا سکتی۔ ایسے جوڑے کے مسئلے کو غیر واضح بانجھ پن ( unexplained infertility ) کہا جاتا ہے۔ بانجھ پن کا علاج مہنگا، طویل اور بسا اوقات تکلیف دہ ہوتا ہے اور آخر میں اس علاج کی کامیابی کی کوئی گارنٹی بھی نہیں دی جا سکتی۔

مرد کے ٹیسٹ

مرد کی زرخیزی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے خصیے مناسب مقدار میں صحت مند تولیدی خلیے پیدا کر رہے ہوں اور یہ خلیے کارگر طور پر اندام نہانی میں داخل کیے جائیں جہاں سے یہ بیضے تک کا سفر اچھے طریقے سے مکمل کر سکیں۔ مرد کے تمام تر ٹیسٹ اس سارے عمل کے دوران درپیش کسی بھی رکاوٹ اور مشکل کی جانچ کے لیے کیے جاتے ہیں۔ عمومی طبی معائنے اور تولیدی اعضاء کی جانچ کے بعد مندرجہ ذیل ٹیسٹ کیے جاتے ہیں:

1 ۔ مادہ منویہ کی جانچ : ایک مرد سے 1 سے 2 مختلف اوقات میں حاصل شدہ نمونوں کی جانچ کی جاتی ہے۔ نمونے کے حصول کا طریقہ متعلقہ ڈاکٹر یا لیب اسسٹنٹ سمجھاتا ہے۔ مخصوص حالات میں پیشاب میں منی کی موجودگی کی پڑتال بھی کی جا سکتی ہے۔

2 ۔ ہارمون ٹیسٹ: خون کے معائنے سے مختلف مردانہ ہارمونز مثلاً ٹیسٹوسٹیرون اور دیگر مثلاً تھائیرائڈ ، پرولیکٹن یا ایل ایچ وغیرہ کی مقدار معلوم کی جاتی ہے تاکہ کسی کمی بیشی کو دور کیا جا سکے۔

3 ۔جینیاتی ٹیسٹ : یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں بانجھ پن کسی موروثی مرض کا شاخسانہ تو نہیں۔

4 ۔خصیے کی بائیوپسی: چنیدہ کیسز میں خصیے کی کچھ حصے کا نمونہ بذریعہ سرجری حاصل کیا جاتا ہے تاکہ نہ صرف بانجھ پن کی تشخیص کی جاسکے بلکہ خصیے میں موجود زندہ تولیدی خلیے حاصل اور محفوظ / فریز کیے جا سکیں جنہیں بعد میں اسسٹڈ ری پروڈکشن مثلا ٹیسٹ ٹیوب میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

5۔ امیجنگ اسٹڈیز: کچھ خاص کیسوں میں دماغ کی ایم آر آئی، کھوپڑی کا ایکسرے (پرانا طریقہ)، بون منرل ڈینسٹی، سکروٹل (خصیہ دانی کا) الٹرا ساؤنڈ یا واس ڈیفرنس (خصیے کی رگوں) میں رکاوٹ جانچنے کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔

6 ۔ مزید خصوصی ٹیسٹ: انتہائی خاص کیسز میں چند مخصوص ٹیسٹ بھی کرائے جا سکتے ہیں مثلاً تولیدی خلیے کی صحت اور کوالٹی چیک کرنے کے لیے یا ڈی این اے میں کوئی ایبنارمیلٹی کنفرم کرنے کے لیے۔

خاتون کے ٹیسٹ

عورت کی زرخیزی و بارآوری کا دارومدار اس پر ہے کہ اس کی بیضہ دانیاں صحت مند بیضے پیدا کریں۔ اس کا تولیدی نظام اس انڈے کو بیضہ نالیوں سے گزرنے اور مردانہ خلیے سے ملنے کی سہولت مہیا کرے، بارآور انڈہ ٹیوب سے رحم تک جانے اور رحم کی اندرونی جھلی سے چپکنے کے لیے آزاد ہو، عورت کے ٹیسٹ اسی عمل میں موجود کسی بھی رکاوٹ یا مشکل کو جانچنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ عمومی طبی معائنے اور گائناکالوجیکل معائنے کے بعد کیے جانے والے ٹیسٹ یہ ہیں:

1 ۔ انڈے کے اخراج کی جانچ: خون کے معائنے سے ہارمونز کی مقدار معلوم کی جاتی ہے تاکہ پتا چلایا جا سکے کہ مناسب مقدار میں انڈے بن اور خارج ہو رہے ہیں یا نہیں۔

2۔ ٹیوبز کا ٹیسٹ: یہ ٹیسٹ رحم اور اس سے ملحقہ ٹیوبز کی شکل صورت اور ان میں موجود کسی رکاوٹ یا خرابی کا پتا چلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں ایک دوا/کنٹراسٹ (جو سیاہ ایکسرے پر سفید رنگ کی تصویر بناتی ہے) استعمال کی جاتی ہے۔ یہ دوا ایک نرم لچکدار نالی کے زریعے رحم میں داخل کی جاتی ہے، اس دوران ایکسرے یا فلوروسکوپی کی جاتی ہے۔ فلوروسکوپی یا سیلائن انفیوژن سونوگرافی کا آج کل زیادہ شہرہ ہے جس میں کنٹراسٹ کی بجائے نارمل سیلائن اور ایکسرے کی بجائے فلوروسکوپی یا الٹراساونڈ کیا جاتا ہے۔

ان تمام صورتوں میں دوا رحم سے گزر کر ٹیوب کے زریعے پیٹ میں جا گرتی ہے جہاں یہ قدرتی طور پر جذب ہو جاتی ہے اور نقصان دہ نہیں۔ اس سارے عمل کے دوران رحم میں موجود رسولی یا ٹیوب میں رکاوٹ واضح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے۔ ٹیوب بلاک ہونے کی صورت میں دوا آگے نہیں جاتی بلکہ واپس آنا شروع کر دیتی ہے۔

3 ۔اوویرین ریورس ٹیسٹنگ: اس ٹیسٹ کے ذریعے بیضہ دانی میں موجود قابل اخراج بیضوں کا معیار اور مقدار جانچی جاتی ہے۔ یہ ٹیسٹ ہارمون ٹیسٹ کے ساتھ مہینے کے آغاز میں ہی کر لیا جاتا ہے۔

4 ۔ہارمون ٹیسٹ: انڈوں کی پرورش اور پیدائش کو کنٹرول کرنے والے ہارمونز کے ساتھ ساتھ نظام تولید کو کنٹرول کرنے والے پیچوٹری ہارمونز کو پرکھا جاتا ہے۔

5 ۔امیجنگ ٹیسٹ : اندرونی الٹرا ساؤنڈ کے زریعے رحم بیضہ دانی اور ٹیوبز کی صورتحال دیکھی جاتی ہے۔ ہیسٹیرو سونوگرافی میں ایک کیمرے کے ذریعے رحم اور ٹیوب کے اندرونی خلا کا باریکی سے معائنہ کیا جاتا ہے جو عام الٹراساؤنڈ سے ممکن نہیں۔ خصوصی حالات میں ہسٹیرو سکوپی، لیپروسکوپی اور جینیاتی جانچ بھی کی جا سکتی ہے۔

ہر مریض کو ہر ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ اور آپ کا معالج باہم مشورے سے فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سا ٹیسٹ کب کروایا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).