شاہد آفریدی کا دو قومی نظریے پر وار


\"zafarصبح کام پر جاتے جاتے شاہد آفریدی کا بیان نظر سے گزرا۔ کچھ سیکنڈ کی اس ویڈیو میں شاہد آفریدی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’انڈیا میں ہم نے ہمیشہ کرکٹ کو بہت انجوائے کیا۔ یہاں کے لوگوں سے بہت پیار ملا۔ اتنا پیار ہمیں پاکستان میں بھی نہیں ملا‘۔ پاکستانی ٹیم کے ورلڈ کپ میں شرکت کرنے کے امکانات آخری لمحوں تک مخدوش تھے۔ بھارت میں وطن عزیز کی طرح کچھ مجاہدین پائے جاتے ہیں۔ بھارتی شدت پسند مجاہدین کی طرف سے دھمکیاں تو ایک طرف، برسراقتدار جماعت کے کچھ سیاستدانوں اور عام آدمی کی سیاست کرنے والے قدرے معتدل جماعت ’عام آدمی پارٹی‘ نے بھی پاکستانی ٹیم کی شرکت کو پسندیدگی کی نظر نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ ٹیم پر حملہ کرنے اور پچ کھودنے تک کی دھمکیاں دی گئیں۔

چونکہ یہ دو طرفہ سیریز نہیں ہے بلکہ ورلڈ کپ ہے جو کرکٹ کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل کرکٹ کمیٹی منعقد کرا رہی ہے ۔اس لئے ضروری تھا کہ پاکستانی ٹیم کی اس مقابلے میں شرکت کوکسی بھی صورت ممکن بنایا جائے۔ آئی سی سی کی کوشش اور دونوں ممالک کی جانب سے سفارتی سطح کے طویل مذاکرات کے بعد یہ شرکت ممکن ہوئی۔ اس تناظر میں شاہد آفریدی کے بیان کا سوائے سفارتی اخلاق اور قدرے ہمدردی جیتنے کے علاوہ کوئی اور پس منظر نہیں تھا۔ کشیدہ صورت حال میں سفارتی زبان ایسی ہی ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم کو اپنی نواسی کی شادی میں شرکت کی دعوت تھی۔ اس کی دوسری مثال عمران خان کے بھارتی دورے میں سوال کرنے والی ایک خاتون کو پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے کی پرمزاح دعوت تھی۔ لیکن ہمارے یہاں چونکہ صحافت چٹخارے دار ہے۔خبر سے زیادسنسنی پھیلانے میں ریٹنگ ملتی ہے۔ سوشل میڈیا کے اخلاقی اقدار بینڈ بجانے، منہ توڑ جواب دینے اور منہ بند کرنے جیسی روایات پر مبنی ہیں۔ اس لئے شام تک آفریدی کے بیان پر اتنا ہنگام مچا کہ الامان و الحفیظ۔ سوشل میڈیا میں تو طوفان آ گیا ۔ یوں لگتا ہے جیسے آفریدی نے پاکستان کی نظریاتی سرحد پر لگی خیالی باڑ اکھاڑ لی ہو۔ایک پوری غیرت برگیڈ نے کمانیں کس لیں۔ کوئی شہریت منسوخ کرنے کے مطالبے کر رہا ہے۔ کوئی نہایت غلیظ گالم گلوچ کے بعد آفریدی کو یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس نے قوم کی محبت کا پاس نہیں کیا۔ کسی نے اسے ورلڈ کپ کی فکسنگ قرار دیاہے۔ کچھ مشہور ویب سائٹس ،جن کے ماتھے پر نیم حکیموں اور مرادنہ طاقت کے اشتہار چپکے ہوتے ہیں، وطن پرستی کی مثال قائم کرتے ہوئے ہندوستان کے ’آل انڈیامجلس اتحاد المسلمین‘ کے صدر اسد الدین اویسی کا بیان ’ بھارت ماتا کی جے کا نعرہ نہیں لگاﺅں گا‘ ایسی سرخیوں کے ساتھ ’ سلام ہے اس دبنگ مسلم راہنما کو‘ لگا کر آفریدی کی غیرت ایمانی جگانے کی کوشش کی۔

چونکہ سوشل میڈیا ادارتی پابندیوں سے آزاد ہے۔ جس کا جو جی چاہے وہ لکھ سکتا ہے۔اس میڈیم کی بڑی اکثریت کا خیال ہے کہ نیل آرمسڑانگ کی ویڈیو ہالی وڈ کے کسی تہہ خانے میں بنی تھی۔ گیارہ ستمبر کو چار ہزار یہودی چھٹی پر تھے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ تورا بورا اور پنج شیر کے پہاڑوں میں دفن جواہرات نکالنے کے لئے کیا تھا۔ موہن داس کرم چند گاندھی ایک نیم برہنہ سازشی ہندو ڈرامے باز تھا۔ ہٹلر ایک عظیم آدمی تھا جس کو یہودی سرشت میں چھپے منافقت کا پتہ تھا۔ پولیو کے قطرے مسلمان بچوں کو بانجھ بنانے کی سازش ہیں۔ مارکس لینن کے ساتھ بیٹھ کر کریملین میں گرم پانیوں تک پہنچنے کی سازشیں کرتا تھا۔ اس لئے ان سے کوئی گلہ بھی نہیں کیا جا سکتا مگر مین سٹریم میڈیا کی ہنگامہ خیزی بھی کمال فن پر ہے۔ بڑے بڑے ٹیلی افلاطون اس جنگ میں کود چکے ہیں۔ وہ بڑبولے پیراشوٹی تجزیہ کار بھی آفریدی کے سیاق و سباق کو نظر انداز کرکے آفریدی کو کم بولنے کا مشورہ دے رہے ہیں جو روز سر شام سیاسدانوں کی گرفتاریوں کی خبریں دیتے ہیں اور اگلے دن اس بات کو ’اور پھر اور پھر‘ کی نذر کر کے نئی پھلجڑی چھوڑتے ہیں۔ ان پھلجڑی بازوں کے بیان سے ہی واضح ہے کہ نشانے پر آفریدی نہیں بلکہ پروفیشنل جیلیسی کی بنیاد پر نجم سیٹھی ہیں۔ وگرنہ آفریدی کے بیان پر نجم سیٹھی کو زیر بحث لانے کی کیا ضرورت تھی۔

ادھر ایک پرانے کرکٹ ہیرو آفریدی پر لعنت کر رہے ہیں۔ خیال تھا کہ کم ازکم ان کے بیان کو سنجیدہ لے کر اپنے مثبت موقف سے رجوع کیا جائے کیونکہ اگر یہ غصے میں ہیں تو ممکن ہے آفریدی کا بیان غلط ہو۔ آخر ان کا بھارت میں کھیلنے کا تجربہ ہے اور بطور کھلاڑی اور کپتان غیر ملکی دوروں پر سفارتی لب و لہجے سے واقف ہیں۔ مگر ناس ہو ماما قادر کا۔ کہنے لگے۔ ان کا بیان تو بالکل بھی سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔عرض کیا۔ ماما یہ تو قوم کے ہیرو ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ غیر ملکی دوروں پر کیسی گفتگو کی جاتی ہے۔ ماما بولے۔ ’ وہ تو ٹھیک ہے منڑا لیکن شاید تم کو مالوم نہیں ہے کہ بھارت کے سب سے مطلوب شخص کا رشتہ دار ہے۔ بھارت نے اپنے ملک میں اس کے داخلے پر پابندی لگائی ہے۔ اس کو چھوڑو‘۔

یادش بخیر! ابھی چند ماہ پہلے ایسا ہی ہنگام عدنان سمیع کے بھارتی پاسپورٹ پر بھی مچا تھا۔ اور جن جن لوگوں نے شور مچایا تھا ان کو خاکسار اپنی گنہگار آنکھوں سے کینیڈا کی ایمگریشن فارم بھرتے دیکھا ہے۔ دیکھیے کینیڈا سے یاد آیا کہ انہی ٹی وی سکرینوں پر، انہی اخباری صفحات پر، انہی ویب سائٹس پر کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی مسجد والی تصاویر بار بار تعریفی کلمات کے ساتھ دیکھیں۔ کہنے والوں کی زبانیں تھک گئیں کہ بین المذاہب اور سفارتی اخلاقیات کیا ہوتی ہیں۔ انہی صفحات پر ابھی چند دن پہلے بھارتی اداکار اوم پوری کی دورہ لاہور کی تصاویر ان کی پاکستانی محبت کی راگوں کے ساتھ نظر سے گذریں۔ چند ہی دن پہلے کی بات ہے کہ بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور سے وزیراعظم نے خود ملنے کی فرمائش کی۔ زیادہ دن اس کو بھی نہیں گزرے جب ہندوستان میں عامر خان کے بیان پر ہنگام مچا تھا تو ایک پاکستانی مجاہد نے ان کو پاکستان میں رہنے کی دعوت دی تھی۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کی پالیسی بہت پرانی ہے۔

خبر رکھنے والے جانتے ہیں کہ آگ کہاں لگی ہے اور دھواں کہاں سے اٹھ رہا ہے۔ پچھلے دنوں انہی صفحات پر برادرم وسی بابا نے لکھا تھا کہ پاکستان بدل رہا ہے، جو گاجر اکھاڑنا ہے، اکھاڑ لو۔ پاکستان واقعی بدل رہا ہے۔ نواز شریف کی ہولی کے رنگ میں رنگے جانے کی خواہش پر بھی دھواں یہیں سے اٹھا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی وزیراعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت پر بھی نظریہ پاکستان کے خود ساختہ محافطوں نے ریلیاں نکالی تھیں۔ آفریدی کے بیان کو دو قومی نظریئے پر وار بھی یہی عناصر قرار دے رہے ہیں۔ سیاست کے اساتذہ مگر جانتے ہیں کہ ایک دشمن ہمسائے کے ہوتے ہوئے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ اچھا ہمسایہ بہتر انسانی زندگی اور امن کی ضمانت ہے۔ آفریدی کا بیان دوستی کا پیغام ہے۔ وسی بابا نے تو لکھا تھا کہ جو گاجر اکھاڑنا ہے، اکھاڑ لو مگر جن لوگوں کو اس بیان سے تکلیف ہے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پاکستانی اداکار فواد خان نے بھارت میں ایک فلم میں کام کیا تھا۔ اس فلم میں ایک گانا تھا جس کے بول کچھ یوں تھے، ’جس کو ڈانس نہیں کرنا وہ جا کے اپنی بھینس چرائے‘۔ عرض ہے کہ جس کو دوستی نہیں کرنی وہ ۔۔۔۔۔ بھی ایسا ہی کچھ کر گزریں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments