روس میں اکتوبر 1917 میں کودیتا ہوئی، انقلاب یا بغاوت؟


7 نومبر کو عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی صد سالہ سالگرہ ہے۔ آج کل اس پر بحثوں کی شدت خاص طور پر بڑھ گئی ہے کہ دراصل یہ کیا تھا؟ ایک عظیم انقلاب، کودیتا یا بغاوت؟ ایک اور سوال ہے کہ وہ کیوں اکتوبر انقلاب کہا جاتا ہے جبکہ سالگرہ نومبر میں منا‏‏ئی جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب دینا مشکل ہرگز نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ زارشاہی کے زمانے میں روس میں جولین کیلنڈر رائج تھا جبکہ دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں گریگورین کیلنڈر مانا جاتا ہے۔ تو جولین کیلنڈر اور گریگورین کیلنڈر میں فرق 14 دنوں کا ہے۔ انقلاب یا بغاوت یا جو بھی ہو، 25 اکتوبر کو ہوا۔ سن 1918 میں نئے روس کی حکومت نے ملک میں گریگورین کیلنڈر رائج کیا جس کے مطابق 25 اکتوبر کی تاریخ 7 نومبر بن گئی۔ اس طرح ہوا یہ کہ اکتوبر کی سالگرہ نومبر میں منائی جاتی ہے۔

خیر، یہ سیدھی تو سادہ سی بات ہے۔ لیکن ہوا کیا تھا 25 اکتوبر یعنی 7 نومبر سن 1917 کو؟ اس پر بہت مختلف بلکہ متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ لیکن میرے خیال میں ضرور ماننا ہوگا کہ یہ بیسویں صدی کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور اس نے ساری عالمی تاریخ کی روش کو اثر انداز کیا۔ اس کے نتیجے میں نوآبادیوں میں اور انڈیا میں بھی، جو برطانوی نوآبادی تھی، قومی تحریک آزادی ابھر آئی۔ اس کے نتیجے میں سرمایہ دار مغربی ممالک کی حکومتیں ڈر کے (خوفزدہ ہو کر) اپنے اپنے ہاں کچھ سماجی اصلاحات کیں، عوام کے حالات زندگی کچھ بہتر بنانے کے لیے، لیکن خود روس میں کیا ہوا؟ اور کیوں؟

واضح رہے کہ اس وقت دنیا میں پہلی عالمی جنگ ہو رہی تھی جس میں روس بھی ملوث تھا۔ اس جنگ کی وجہ کیا تھی؟ بنیادی وجہ یہ تھی کہ بعض سرمایہ دار ملکوں خاص طور پر جرمنی اور برطانیہ کے معاشی مفادات تضاد میں آئے۔ کچھ ملکوں نے جرمنی کا ساتھ دیا اور دوسروں نے، جن میں روس بھی شامل تھا، برطانیہ کا۔ روس کی فوج زیادہ تر کسانوں پر مشتمل تھی اور وہ نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کیوں اور کسی بات کی خاطر لڑنے اور کام آنے پر مجور ہیں۔ دشمن نے ان کی سرزمین پر نہ تو قبضہ کیا تھا نہ ہی مداخلت کی تھی۔ وہ اپنے اپنے گھر لوٹنا، کاشت کاری میں پھر سے مصروف ہو جانا چاہتے تھے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ فوج کو بارود اور سامان کی سپلائی بے حد بری تھی، یہاں تک کہ نہ صرف خوراک بلکہ گولیوں کی بھی سخت کمی تھی جو کرپشن کا نتیجہ تھی۔ فوج میں سپاہیوں کی مایوسی اور ناراضی بڑھتی رہی تھی یہاں تک کہ انہیں غصہ بھی آنے لگا۔

دوسری طرف، ملک میں زار اور ان کا خاندان زیادہ مقبول نہیں تھے۔ زار کی چار بیٹیاں تھیں اور ایک بیٹا۔ لیکن یہ لڑکا بیمار تھا، اور واحد انسان جو اس کی مدد کر سکتا تھا، وہ راسپوتین تھا جس کا نام آپ لوگوں نے شاید سنا ہوگا۔ تو یہ آدمی زار اور زارینا، ان کے سارے خاندان کے بہت قریبی دوست بن گئے جس سے نہ صرف ‏عوام بلکہ دانشور لوگ اور شرفاء بھی سخت ناراض تھے۔ اور خود زار، ملک کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے، زیادہ سے زیادہ توجہ اپنے گھر کے مسائل پر دے رہے تھے۔ کسی حد تک ان کی یہ بے پروائی اور وزیروں کا کرپشن ایسے حالات پیدا کر چکے تھے جو انقلاب، کودیتا اور بغاوت کے لیے بہت مناسب اور سازگار تھے۔ اور پہلی عالمی جنگ بے شک اسے تقویت پہنچا دی۔

اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ اس سے 12 برس قبل سن 1905 میں روس میں پہلا انقلاب ہوا تھا جو بڑی بے رحمی کے ساتھ کچل دیا گیا تھا۔ لوگوں نے، جن میں بہت زیادہ دانشور بھی تھے، شہری آزادیوں اور آئین کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ آئین کی منظوری اور پارلیمنٹ کی تشکیل کا نعرہ لگا رہے تھے۔ زرعی مسئلہ بھی حل طلب تھا۔ کسان چاہتے تھے کہ انہیں زمین کے ٹکڑے دے دیے جائیں، پھر وہ زمین داروں کے تسلط سے آزاد ہو سکیں۔ اور مزدور، جو زیادہ تر گاؤں سے آئے ہوئے پہلے خود بھی کسان تھے، بڑے شہروں میں درحقیقت بے گھر تھے، اور روزانہ بارہ چودہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور تھے۔ وہ بھی اپنے حالات میں کچھ نہ کچھ بہتری کے منتظر تھے۔ لیکن یہ مطالبے پورے نہیں کیے گئے۔ انقلاب کو کچل دیا گیا، حالات درحقیقت نہیں بدلے۔ اور اگر کوئی تبدیلی لائی گئی، تو وہ بھی برائے نام تھی۔ اس طرح، پارلیمنٹ کی آخرکار تشکیل ہوئی جو ”ریاستی دوما“ کہناتی تھی۔ لیکن یہ کٹھ پتلی تھی۔

فروری سن 1917 میں اس نے پھر بھی زار کو اقتدار سے انکار کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ زار اور ان کے خاندان کے، ملک میں بے حد نامقبول ہونے، اور معاشرے میں بڑھنے والی مایوسی، تھکاوٹ اور ناراضگی کے نتیجے میں ہوا۔ پھر عارضی بورژوا حکومت تشکیل دی گئی۔ لیکن اس نے کسی بھی مسئلہ کو حل نہیں کیا اور پوری طرح بے بس ثابت ہو گئی۔

ان حالات میں بالشیویکوں کی پارٹی نے زیادہ تر عوام کے سہارے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اور حالانکہ اس وقت یہ پارٹی زیادہ بڑی نہیں تھی، شاید وہ سب سے زیادہ منظم شدہ تھی اور پھر صحیح نعرے لگائے جن پر عوام میں بہت مثبت ردعمل ہوا۔ نعرے اس طرح کے تھے: کارخانے مزدوروں کو، زمین کسانوں کو۔ جنگ ختم کر دو، عوام کو امن چاہیے۔

عوام اپنا اقتدار قائم کرنے کے آرزو مند تھے۔ اور بالشویکوں کی پارٹی نے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کی آمادگی ظاہر کر دی۔ اگر بحیثیت مجموعی کہا جائے تو اکتوبر انقلاب انسانی اقدار اور جمہوریت کو رائج کیے جانے کے نعروں تلے ہوا تھا۔ لیکن پھر خانہ جنگی چھڑ گئی کیونکہ جیساکہ عام طور پر ہوتا ہے، کچھ لوگوں نے انقلاب کی تائید کی لیکن مخالفین بھی تھے۔ تشدد کی زبردست لہر دوڑ گئی، خون خرابہ ہوا، بہت سے لوگ اس میں شہید ہو گئے۔

تو آخر کار روس کے عوام کو انقلاب نے کیا دیا؟ ناخواندگی پوری طرح ختم کر دی گئی۔ لازمی ثانوی تعلیم کا نظام رائج ہوا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مساوی حقوق سب کو ملے۔ روس، جو پہلے ایک ناخواندہ ملک تھا، قطعی بدل گیا۔ ملک بہت مضبوط اور صنعت یافتہ بن گیا کافی جلد، حالانکہ اس سے پہلے روس ایک زرعی ملک تھا جس کی زیادہ تر آبادی کاشت کاری میں لگی ہوئی تھی۔ سائنس نے نمایاں فروغ پایا، بے روزگاری نہیں رہی۔ یہ سب خوش گوار اور مثبت نتائج تھے۔

لیکن دوسرا پہلو بھی قابل ذکر ہے۔ انقلاب کے مقاصد تھے کہ زیادہ منصفانہ معاشرے کی تشکیل کی جائے، ایک انسان سے دوسروں کا استحصال ختم ہو، لوگوں کے حقوق اور ذمہ داروں کی مساوات قائم کی جائے۔ مگر تقریر و تحریر اور ضمیر کی آزادیوں کا اگرچہ اعلان کیا گیا اور آئینی ضمانت بھی دے دی گئی، لیکن درحقیقت وہ بہت ہی محدود رہیں۔ زمین داری کا خیر قطعی خاتمہ کر دیا گیا لیکن کسانوں کے خواب کی تعبیر نہیں ہوئی۔ ان کو اپنی اپنی اراضی نہیں ملی بلکہ انہیں اجتماعی فارموں میں متحد کیا گیا۔ بہت سارے دانشور لوگوں، فلسفہ دانوں، شاعروں اور ادیبوں نے تبدیلیوں کو نہیں مانا۔ وہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور تارکین وطن بن گئے۔ اور خاص طور پر یہ کہ اسٹالین کے زمانے میں بہت سارے بے گناہ لوگوں کو نظر بندی کیمپوں میں بھیج کر رکھا گیا جہاں وہ غلاموں کی طرح کام کرنے پر مجبور تھے یا انہیں گولیوں کا نشانہ بنا کے مارا جاتا تھا۔

بحیثیت مجموعی، اگر مختصر کہا جائے، جو ہوا سو ہوا۔ اکتوبر انقلاب (یا اسے بغاوت کہیے یا کودیتا) کے نتیجے میں ساری دنیا کی کایا پلٹ گئی۔ وہ بہت زیادہ خوبیاں لایا لیکن اس کے ناگوار اثرات بھی تھے۔ کہیں بہتر ہوتا کہ وقت پر لازمی اصلاحات کی جاتیں، معیشت میں اور معاشرے کی زندگی میں بھی۔ جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ دوڑ ہے انہیں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے بروقت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

تو آخرکار یہ کیا ہوا تھا روس میں سن 1917 کے اکتوبر کے ان دنوں میں؟ یہ کیا تھا، کودیتا، انقلاب یا بغاوت؟ شاید اپنے اپنے حوالے سے سب تینوں ہی۔ کودیتا بھی ہوا اور بغاوت بھی۔ لیکن اگر زیادہ تر عوام نے اس کی حمایت نہ کی ہوتی تو وہ کامیاب نہ ہو سکتا۔ اس لیے میرے خیال میں اسے انقلاب ہی کہنا سب سے زیادہ صحیح ہے۔

ارینا ماکسی مینکو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارینا ماکسی مینکو

ارینا ماکسی مینکو روسی اردو دان، مترجم اور صحافی ہیں۔ وہ برسوں ماسکو ریڈیو، پھر صدائے روس اور بعد میں سپتنک ایجنسی کے شعبہ اردو میں کام کرتی رییں۔ اپنے کام کے دوران انہوں نے ریڈیو پروگراموں کی میزبان کی حیثیت سےبرصغیر کی بہت سی نمایاں شخصیات کے انٹرویو کیے۔ انہوں نے کئی مشہور اردو مصنفین کے افسانوں کا روسی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ آج کل وہ روس کے متعلق اردو زبان میں فیس بک 'جانیے روس کے بارے میں' پیج کی مدیر ہیں

irina-maximenko has 8 posts and counting.See all posts by irina-maximenko