دینا جناح اور تحریک پاکستان کے مقاصد


محترم بھائی حامد میر روانی سے لکھتے لکھتے بہاؤ کے رخ ایک موجہ خیال ایسا شامل کرتے ہیں کہ پڑھنے والا جھوم جائے۔ اب دیکھیئے نا! قائد اعظم محمد علی جناح کی صاحبزادی دینا جناح کا ذکر تھا۔ 6 نومبر 2017ء کے کالم میں رواں دواں سطروں کے بیچ میں چپکے سے لکھ دیا،

2جون 1947ء کے خط میں دینا نے اپنے والد کو اُن کی سیاسی کامیابیوں پر مبارکباد دی جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے مقاصد سے اتفاق رکھتی تھیں۔۔” تحریک پاکستان کے مقاصد۔۔۔۔؟ اس پر تو قوم میں آج تک اتفاق نہیں ہو سکا۔

قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو سنسر کرنے کی کوشش کی گئی۔ گویا پاکستان کے بانی نے قوم کا جو نصب العین بیان کیا اس سے کچھ طاقتور حلقے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔

قائد اعظم نے اس تقریر میں کہا تھا، “وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ ایسا کسی مذہبی اصطلاح میں نہیں ہوگا کیونکہ مذہب ہر فرد کا نجی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی اصطلاح میں، ایک ریاست کے شہری کی حیثیت سے”۔

ضمیر نیازی مرحوم نے “صحافت پابند سلاسل” میں یہ واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، کچھ اشارے چوہدری محمد علی کی طرف جاتے ہیں۔ تقریر سنسر کرنے کی کوشش کی رسمی تردید کرنل مجید ملک نے کی تھی۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کا موقف موجود نہیں ہے۔ البتہ 30 اگست 1947 کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک بیان جاری کیا تھا جو قائد اعظم محمد علی جناح کی بیس روز پہلے 11 اگست 1947 کی تقریر کا حرف بہ حرف جواب تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کا یہ بیان تاریخ کا حصہ ہے۔ مولانا نے اس بیان میں کہا کہ اگر علما قائد اعظم کا ساتھ نہ دیتے تو مسلم لیگ اور اس کا کوئی رہنما پاکستان حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ نیز یہ بھی کہا کہ “وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ہندو، ہندو رہے اور مسلمان، مسلمان۔ یہ قائد اعظم کے اس فرمان کا جواب تھا کہ “پاکستان میں سیاسی طور پہ ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا”۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کے بیان میں “میں چاہتا ہوں” کی ترکیب قابل غور ہے گویا قائد اعظم جو چاہتے تھے، مولانا عثمانی وہ نہیں چاہتے تھے۔

21 مئی 1947ء کو رائیٹرز کے نمائندے ڈون کیمبل نے نئی دلی میں قائد اعظم سے سوال کیا کہ پاکستان کا سیاسی بندوبست کیا ہو گا؟

قائد اعظم نے فرمایا، “پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے سیاسی بندوبست کا فیصلہ دستور ساز اسمبلی کرے گی لیکن پاکستان کی حکومت عوام کی نمائندہ اور جمہوری حکومت ہو گی ۔ پارلیمینٹ اور کابینہ رائے دہندگان اور عوام کو حتمی طور پر جوابدہ ہوں گی اس میں ذات پات، عقیدے اور مسلک کی بنیاد پر کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا”۔

قرار داد مقاصد مرتب کرنے والوں نے حاکمیت اعلی کی تعریف متعین کرتے ہوئے عوام کی حتمی حکمرانی کے اس اصول کو روند ڈالا۔

اور پھر بانی پاکستان کی وفات کے ٹھیک چھ ماہ بعد 12 مارچ 1949 کو ایک قرار داد منظور کی گئی۔ یہ قرار داد 1973 کے آئین کا دیباچہ قرار پائی۔ 1985ء میں آمر نے قوم کا بازو مروڑ کر یہ قرارداد دستور کا قابل نفاذ حصہ بنا دی۔ اب کچھ صاحبان اختیار آئین کی اس شق کو کو آئین کا ناقابل ترمیم جزو اعظم کہتے ہیں۔

قائد اعظم کی افتتاحی تقریر اور قرار داد مقاصد میں کچھ مشترک نہیں۔ “تحریک پاکستان کے مقاصد” تقریر میں بیان ہوئے یا ان کی صحیح ترجمانی قرار داد میں کی گئی؟ قوم میں آج تک اتفاق نہیں ہو سکا۔ دینا جناح نے اپنے عظیم والد کے مذہبی عقائد سے لاتعلقی اختیار کر لی تھی۔ انہوں نے کبھی پاکستان کی سیاست سے تعلق نہیں رکھا۔ کیسے معلوم ہو گا کہ دینا جناح کو تحریک پاکستان کے کون سے مقاصد سے اتفاق تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).