کائنات کی وسعت پر پھیلا بے لباس جسم


نگر سے نکل کر جب سڑک میچار کا رخ کرتی ہے تو دادیمل سے ذرا پہلے بار بار ایک سو اسی کے زاویے پر مڑتی رہتی ہے۔ یوں ہر بار جب یہ احساس ہو کہ سفرطے ہو رہا ہے، سڑک مڑ کر واپسی کا راستہ لیتی ہے۔ واپسی کا راستہ پلٹ آنے والے خطوں کی طرح امیدوں اور اندیشوں کے تال میل کی کہانی ہے۔ نامعلوم پتوں پر بھیجے گئے خط جب واپس پلٹ آتے ہیں تو امید اور اندیشے ساتھ لاتے ہیں۔ چاک شدہ لفافہ امید دلاتا ہے کہ وہ بات جو کہی نہ جا سکی وہ پڑھ لی گئی ہو گی۔ خط کا واپس آنا مگراندیشہ دلاتا ہے کہ نہ صرف بات ادھوری رہ گئی بلکہ راز بھی ڈاک خانے کی چوکھٹ پر دھرا رہ گیا۔

دادیمل سے ذرا پہلے جب سڑک مڑ کر ایک بار پھر واپسی کا راستہ اختیار کرتی تو سامنے ایک ڈھابہ نظر آتا ہے۔ تین کرسیوں پر تین انسان بیٹھے ہوئے ہیں یا یوں سمجھ لیجیے کہ تین تخیلاتی کردار تھے۔ ایک استاد ہے جو روایتی پیمانوں سے بے نیاز ہے۔ ایک لڑکا ہے جو سماج میں ایک اچھا اور نیک لڑکا سمجھا جاتا ہے۔ ایک لڑکی ہے جو پڑھ لکھ کر اب شاید ایک خراب لڑکی مانی جا رہی ہے۔ چائے کے آنے کا انتظار ہے۔ استاد نے سگریٹ سلگا کر ٹہلنا شروع کر دیا۔ چائے آئی تو لڑکی نے بڑبڑاتے ہوئے معاشرے کو چند برہنہ گالیاں دیں۔ اس نے بتایا کہ کیسے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک لڑکی کو بے لباس کر کے پھرایا گیا۔ لڑکے نے تاسف سے سر ہلایا اور کہا، ’ معلوم نہیں سچا واقعہ کیا ہے لیکن اگر ایسا ہے تو یہ بہت قابل افسوس ہے۔ ویسے بھی آج کل میڈیا کا تو کوئی بھروسہ نہیں۔ اب یہی خبر دیکھ لیجیے کہ اسامہ بن لادن کے کمپاونڈ سے ملنے والے مواد میں گندی فلمیں بھی شامل تھیں۔ اسامہ بن لادن سے ہزار اختلاف سہی مگر وہ ابیٹ آباد میں چھپ کر چون سال کی عمر میں گندی فلمیں دیکھتا تھا اس خبر پر کم ازکم ایک سالم العقل شخص تو یقین نہیں کر سکتا‘۔ اس نے ایک تائیدی نظر کی امید میں استاد کی جانب دیکھا مگر استاد دونوں باتوں سے بے نیاز سگریٹ کے کش کے ساتھ اب چائے کی چسکیاں لینے میں مصروف تھا۔

لڑکی اور لڑکے درمیان ایک بحث شروع ہو گئی۔ ایک جانب فیمنزم پر یقین رکھنے والی ایک پڑھی لکھی کے دلائل تھے دوسری جانب ایک صالح سماج کے آرزومند لڑکے کے دلائل تھے جو بار بار ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اصل چیز انسانوں کا عمل نہیں بلکہ لکھے ہوئے اصول ہیں۔ انسانوں کے عمل کی کجی سے اصول غلط ثابت نہیں ہوتا۔ طویل بحث کے بعد لڑکے نے استاد کی جانب دیکھا اور سوال کیا۔ سر، کیا یہ معاشرہ کبھی اچھے انسانوں کا معاشرہ بن بھی پائے گا جبکہ ہمارے پاس خدا کی ابدی سچائی موجود ہے؟

استاد۔ ایک انسان کی اوسط عمر کیا ہوتی ہے؟
لڑکا۔ اوسط عمر مختلف ممالک میں فرق کے ساتھ موجودہے تاہم اچھی اوسط زیادہ سے اسی سال ہو گی۔

استاد۔ گزشتہ 60 ہزارسال میں زمین اور مریخ کا کم سے کم فاصلہ 34,647,420 میل ریکارڈ ہوا ہے۔ اس فاصلے کو اگر ہمیں نوری سال سے طے کرنا ہو تو معلوم ہے ہم کتنی دیر میں مریخ تک پہنچیں گے؟ صرف 182 سیکنڈ میں، یعنی قریباً تین منٹ۔ ایک اچھا ڈرائیور ایک سیدھی سڑک پر 150کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی دوڑا سکتا ہے۔ اسی رفتار سے چلتے ہوئے اگر وہ مریخ کی طرف اپنے سفر کا آغاز کرے اور سال کے 365دن، دن کے 24 گھنٹے سفر کرتا رہے تو مریخ تک پہنچنے میں اسے 42 سال لگیں گے۔ گویا جب کوئی سپیس کرافٹ 6 منٹ کے نوری وقت میں زمین سے مریخ تک ہو کر آتا ہے اتنی دیر میں ایک 80 سالہ شخص کی زندگی تمام ہو جاتی ہے۔

لڑکا۔ سر ہمارے پاس نوری سال دستیاب نہیں ہیں میں زمینی وقت کی بات کر رہا ہوں۔

وقت! استاد نے ایک طویل توقف کیا۔ یوں تو انسان نے آسانی کے لئے اسے پیمانوں میں تقسیم کر رکھا ہے مگر وقت حقیقت میں ایک لامحدود مظہر ہے۔ روشنی نے جب اپنے مدار سے سفر کا آغازز کیا تھا اس واقعہ کو اب تیرہ ارب نوری سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ غیر مشاہداتی کا کائنات کو چھوڑ دیجیے، اب تک مشاہدے میں آنے والی کائنات کو اگر دوخیالی نقطوں کے درمیان رکھ کر دیکھا جائے تو ایک نقطہ دوسرے نقطے سے ترانوے ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہو گا۔

لڑکا۔ سرمجھے قطعی اندازہ نہیں ہے کہ آپ ان باتوں سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ میرا موقف بہت سادہ تھا کہ ایک شخص یا کچھ اشخاص، چاہے وہ جس بھی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں ان کے عمل کو بنیاد بنا کر بنیادی سچائی کو نہ غلط کہا جا سکتا ہے اور نہ کہنا چاہیے۔

استاد۔ میرا سوال بھی سادہ ہے کہ اس کائنات میں زمین کی حیثیت ایک بڑے شہر کے مقابلے میں ایک ٹینس بال کی ہے۔ اس پر بھی تین حصے میں پانی کھڑا ہے۔ ایک چوتھائی خشکی پر آباد انسانوں کے کسی پہلے، دوسرے یا تیسرے گروہ کو کیا یہ دعوی زیب دیتا ہے کہ سچائی پر صرف انہی کا قبضہ ہے؟

لڑکا۔ سچائی کا دعوی نہیں ہے سر مگر جس گروہ کے پاس سچائی کی جو بھی قسم ہو یا جو گروہ سچائی کی جس بھی صورت پر یقین رکھتا ہو، اس پر عمل کرنے یا اسے دوسرے انسانوں کے سامنے رکھنے میں تو کوئی امر مانع نہیں ہے؟

استاد۔ بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا وہ اپنی سچائی پر یقین رکھتا ہے؟ یہ تو ابھی زیر بحث ہی نہیں کہ اگر وہ یقین رکھتا ہے تو وہ اپنی سچائی پر عمل کیوں نہیں کر رہا؟ حالانکہ تھوڑی دیر پہلے تو آپ کا خیال تھا کہ اصل چیز لکھی ہوئی سچائی اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کو دلیل نہ بنایا جائے۔ بات کو آسان کر لیتے ہیں، میں آپ کو کائنات کی وسعت کیوں بتا رہا تھا؟

لڑکا۔ معلوم نہیں سر۔
استاد۔ اچھا اور آسان کرتے ہیں۔ آپ کا کیاخیال ہے کہ یہ کائنات کس کی تخلیق ہے؟
لڑکا۔ میرا خیال نہیں میرا یقین ہے کہ یہ کائنات خدا کی ہی تخلیق ہے۔
استاد۔ مجھے آپ کے یقین پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس سے یہ منطقی نتیجہ تو نکلتا ہے نا کہ لامحدود حد تک محدود کائنات کے تخلیق کار کی ذات یقینا لامحدود ہو نی چاہیے؟
لڑکا۔ جی، ہونا تو ایسے ہی چاہیے۔

استاد۔ کیا سچائی کا دعویدار وہ گروہ جنہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بچی کے کپڑے اتارے تھے، واقعی خدا کی لامحدود ذات پر یقین رکھتا تھا؟ کیا یہ انہیں لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ مرنے کے بعد اٹھائے جائیں گے اور خدا کے سامنے ان کی جوابدہی ہو گی؟ جبکہ زمان و مکان کی پابندی سے تھوڑا اوپر اٹھ کر دیکھا جائے تو ان کل زندگی شاید 6 منٹ ہو؟
لڑکا۔ بالکل وہی لوگ ہیں مگر سر یہ انسان ہیں اور انسان جس بھی نظریئے یافکر کا پیروکار ہو اس سے ہمیشہ غلطی سرزد ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
استاد۔ غلطی؟
لڑکا۔ آپ کا اعتراض درست ہے مجھے جرم کہنا چاہیے تھا۔

استاد۔ نہیں تھوڑی دیر کے لئے غلطی ہی کہہ لیتے ہیں۔ اب جس گروہ سے سچائی پر ہونے کے باوجود غلطی سرزد ہونے کا امکان ہو سکتا ہے، کیا اس گروہ نے سچائی کی آڑ لے کر دوسرے چھوٹے گروہوں کے حقوق کا تعین اپنے ذمے نہیں لے رکھا؟ کیا یہ گروہ اپنی سچائی کے لئے دوسرے انسانوں کے خلاف جنگ کا پروانے ہاتھ میں لئے نہیں گھومتا؟

لڑکا۔ آپ کی بات کسی حد تک درست ہے سر، مگر یہ موضوع کہیں اور نکل جائے گا اوریہ بحث لمبی ہے۔ پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ فی الحال تو ہمیں میچار چلنا ہے۔
استاد لڑکی سے۔ آپ نے کچھ کہنا ہے؟

لڑکی۔ نہیں مجھے کچھ نہیں کہنا۔ مجھے ان مباحث سے اس وقت کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے روایتی مذہبی ذہن یا غیرمذہبی عقلیت پسند ذہن کی دوئی میں نہیں بٹنا۔ میں یہ سمجھنے میں ناکام ہو رہی ہوں کہ اس مجمع میں انسان کیا دیکھنا چاہتا تھا؟ کیا وہ جسم کے اس حصے کو دیکھنا چاہتے تھے جہاں سے وہ دنیا میں آئے تھے یا اس حصے کو دیکھنے کے آرزومند تھے جہاں سے انہوں نے ماں کا دودھ پیا تھا؟ میں یہ سمجھ نہیں رہی کہ میری جلد اور آپ کی جلد میں کیا فرق ہے؟ بالکل ایسے ہی جیسے میں یہ سمجھنے میں ناکام ہوں کہ میرے سینے اور کسی ماں کے سینے میں کیا فرق ہے؟ جو میرے پردے کے علمبردار ہیں انہوں مجھے بے لباس کیا۔ جو میرے حقوق کے دعویدار ہیں انہوں نے مجھے بارہا objectify کیا۔ مجھے اس وقت کائنات کی وسعت پر پھیلا صرف اپنا جسم نظر آ رہا ہے جو بے لباس ہے۔ اسے نہ کوئی فلسفہ ڈھانپ رہا اور نہ کوئی عبارت۔ میں ادھوری تھی۔ میں ادھوری ہوں کیونکہ میں ادھوری لکھی گئی ہوں۔ مشکل یہ ہے کہ سچائیوں پر یقین رکھنے والے مجھے پورا لکھنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ میں ایک ایسی جنس ہوں جس کی جلد بازار میں ایک صابن کے لئے بیچی جا رہی ہے۔ میں چاک شدہ لفافے کا وہ خط ہوں جو ڈاک خانے کی چوکھٹ پر دھرا ہے۔

 

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah