ہمارے خود ستائشی میاں مٹھو


آپ کسی ریستوران میں ہیں، آپ کے ارد گرد ٹیبلوں پر بھانت بھانت کے لوگ بیٹھے ہیں، بزرگ، پکی عمر کے جوان، لڑکے وغیرہ۔ سب اپنی اپنی باتوں میں مصروف ہیں۔ کسی نے آفس کی کہانیاں چھیڑی ہوئی ہیں، کسی کو غمِ روزگار ہے، کوئی اپنے یک طرفہ عشق پر نازاں ہے۔ اب آپ غور سے ان کی باتیں سنیں۔ ہر کوئی اپنی زندگی میں ہیرو ہے۔ جو بول رہا ہوگا اور اپنی کہانیاں سنا رہا ہوگا وہ ایسے حتمی لہجے میں بولتا ہے اور ایسے اپنی کارگزاریاں سناتا ہے کہ جیسے بس اسی کے دم سے دنیا آباد ہے، وہ نہ ہوتا تو قیامت تو شاید نہ آتی مگر آندھی جھکڑ ضرور چل پڑتے اور دنیا کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔

دوسروں کی طرح ہم بھی اسی زعم میں غلطاں ہیں (غلطاں سمجھ نہیں آیا تو اس کی جگہ ”گوڈے گوڈے ڈوبے“ پڑھ لیں) مگر مسئلہ یہ ہے کہ آج پندرہ دن کی سالانہ چھٹی کا دسواں دن ہے اور مجال کسی نے آفس سے بھول کر بھی فون کر کے کوئی سوال، کوئی جواب، کوئی مسئلہ، کوئی حل، کوئی مشورہ، کوئی بات پوچھی ہو۔ آفس میں ہوں تو سر کھجانے کا وقت نہیں ملتا کہ لگتا ہے سب کسوٹی کھیل رہے ہیں ہمارے ساتھ، کبھی بزنس والوں کے سوال، کبھی آپریشنز کے رولے، کبھی آئی ٹی والوں سے بحث، اور سر کھپانے کو تو فائنانس ہے ہی۔ تب چھٹی لینے کا فیصلہ کرنا عذاب ہو جاتا ہے کہ یار اگر میں چھٹی چلا گیا تو ان بیچاروں کا کیا بنے گا جو ای میل میں سینڈ کا بٹن کلک بھی ہم سے پوچھ کر کرتے ہیں۔ مگر ہمارے سالانہ چھٹی کرتے ہی گویا ہماری ضرورت ہی ختم ہو جاتی ہے، جیسے ہم اپنڈکس تھے اور ہمیں نکال باہر کر کے اب سکون سا برپا ہے۔ اتنی بے رخی تو پہلی اور آخری محبت نے بھی نہیں دکھائی تھی (یہاں پہلی اور آخری سے مراد ایک محبت نہیں بلکہ دو الگ الگ مراد ہیں، مطلب یہ ہے کہ درمیان والیوں کا ذکر مناسب نہیں جنہوں نے بے رخی نہیں برتی، اب ہم احسان فراموش تھوڑی ہیں۔ اور آخری مطلقاً آخری نہیں بلکہ ابھی تک آخری ہے)۔

کرکٹ کا حال دیکھ لیں، اوسط درجے کا کھلاڑی بھی اپنے آپ کو پاکستان میں کرکٹ کی بقا کا ضامن سمجھتے ہیں۔ سیاست میں ایک سیٹ والی پارٹی والے بھی ہر دوسرے روز ملکی سیاست پر ایسی ایسی پیشگوئیاں کرتے ہیں کہ جن کے پورا ہونے کا دن شاید قیامت سے ایک روز پہلے کا ہے۔ معیشت پر وہ لوگ بھی رائے دینا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں جنہیں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں کم یا زیادہ ہونے کا تیل برآمد کرنے والے ممالک کی معیشت پر اثر اندازی کا رتی برابر علم نہیں ہے۔ دین میں دیکھ لیں کہ ہر فرقہ ناجی ہے اور سب نے جنت میں جانا ہے تو جہنم میں ہمارے ساتھ کون ہوگا، معلوم نہیں۔ صحافت کا حال تو بدمست ہاتھی کی طرح ہے جسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے بس ہر چیز اپنے پاؤں تلے روندتا چلا جاتا ہے۔ اور اگر لاپتہ ہونے سے امان پاؤں تو عرض کروں کہ فوج تو ہمیں بلڈی سیویلین ہی کہہ کر اپنی نظر میں ہماری اوقات گراتے رہتے ہیں چاہے خود صرف ایف اے پاس ہی ہوں۔

اپنے آپ کو ضروری اور لازم و ملزوم سمجھنا ہمارے اسی تکبر کا حصہ ہے جس کے ہم سب سزاوار ہیں (یہ وجاہت مسعود صاحب والا ”ہم سب“ نہیں ہے)۔ کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی کا لیڈر اپنے آپ کو ملک اور جمہوریت کے لئے ناگزیر سمجھتا ہے۔ فوج کا ہر جرنیل یہی سمجھتا ہے کہ وہ نہیں تو شاید خدانخواستہ پاکستان نہیں۔ ہر بڑے نام والا جج اپنے انصاف کو عقل کل سمجھتا ہے۔ اور تو اور ہمیں ہی دیکھ لیں، کونسی کمی ہے ہم میں۔ حسین ہم، سمارٹ ہم، گنجے ہم، موٹے ہم، پڑھے لکھے ہم، صائب رائے رکھنے والے ہم، پڑھ ہم لیتے ہیں، لکھ ہم لیتے ہیں، اپنے پروفیشن کے معاملات تو چلو ہمیں پھر آتے ہیں مگر کسی بھی ٹاپک پر ہم سے کچھ بھی بلوا یا لکھوا لیں۔ ہمیں اس کا دھیلا بھی نہیں پتا ہوگا تو ہم گوگل سے دو چار آرٹیکل دیکھ کر اس پر ماہرانہ و حتمی رائے دے دیں گے۔

مطلب یہ کہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے لاعلاج مرض نے ہمارے معاشرے سے صحت مندانہ بحث کا شوق، تحقیق کی جستجو اور سوال کا مرتبہ ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ ویسے ہمیں ان سب بےکار چیزوں میں کھپنے کی ضرورت ہی کیا ہے، اسلام کے ٹھیکیدار ہم، جنت و دوزخ کے داروغہ ہم، پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہم، امت کے درد میں آنسو ہمارے نہیں تھمتے، سیاست و آمریت کو ہم سے زیادہ کوئی سمجھتا نہیں، تو کونسی بحث، کہاں کی تحقیق اور کیسے سوال؟

کمپنی کی مشہوری کے لئے عرض ہے کہ سماجی رویوں پر ہمارا علم بھی صرف اپنے مشاہدے پر مبنی ہے جو کہ حتمی اور اٹل ہے لہذا اس کے رد میں کی گئی کوئی بھی بات قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگی اور آپ کو آئین کی شق 6 کے تحت غداری کا سرٹیفیکیٹ دے کر جیل میں سڑنے کے لئے ڈال دیا جائے گا کیونکہ آپ اس ایلیٹ کلاس میں سے نہیں ہیں جو کہ کمر درد اور دردِ دل کے بہانے باہر کے ملک علاج کے لئے بھاگ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).