شہر گڑیا کی آنکھ سے بڑا ہو گیا ہے


\"naseer مظہر الاسلام!
جب ہم ایک دوسرے کا سایہ تھے
تب دیواریں تھیں نہ دھوپ
درخت ہمیں چھاؤں دیتے تھے
اور سڑکیں ہمیں گھیر گھار کر
میریٹ سے ہاتھی چوک تک لے جاتی تھیں
ہائی ٹی، فرائی مچھلی، پزے اور یونائیٹڈ کے کیک
ہماری دوستی کی علامت تھے
میں پیدل تھا
اور تم گاڑی پر
لیکن ہم ایک ساتھ چلتے تھے
راستے ہمیں دیکھ کر ہنستے تھے
اور فاصلے ہم پر رشک کرتے تھے

مظہر الاسلام!
شام ہونے کو ہے
اور تمہارے ہاتھ سے لکھی ہوئی
\”خط میں پوسٹ کی ہوئی دوپہر\”
\"islam_zps52209d13\"ابھی تک شیلف میں پھیلی ہوئی ہے
\”باتوں کی بارش میں بھیگتی لڑکی\”
نہ جانے کن سمندروں کے پار چلی گئی ہے
یادوں کے بادل روز امنڈ کر آتے ہیں
اور برسے بغیر چلے جاتے ہیں
\”گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی\”
آج بھی اکیلا ہے
لیکن گھوڑوں اوراصطبلوں کی تعداد بڑھ گئی ہے
مظہرالاسلام!
اب کس \”گڑیا کی آنکھ سے شہر کو دیکھو\” گے
بم دھماکوں سے گڑیا کا سر کسی ڈسٹ بِن میں جا گرا ہے
اور سرخ فراک کو آگ لگ گئی ہے
اور شہر جو ہمارے اندر ہنستا بستا تھا
ہمارے جسموں اور اپنی حدوں سے تجاوز کر چکا ہے
اور خواہشوں کے جلوس لانگ مارچ اور دھرنوں میں بدل گئے ہیں
\”محبت مردہ پھولوں کی سمفنی\”
زندہ کب تھی ؟
وہ تو ہم ہیں
جو اسے نظموں اور کہانیوں میں زندہ رکھتے ہیں
اور خود عمر بھر مرتے رہتے ہیں
\”دعا، دکھ اور محبت کے موسموں کا پھول\”
اب ہونٹوں کی شاخوں پر نہیں
لیپ ٹاپ کی اسکرین پر کِھلتا ہے
اورموت اپنے فن کا مظاہرہ
آن لائن کرتی ہے

مظہرالاسلام!
تاریخ جن راستوں سے گزرتی ہے
ان پر انسانوں کے ساتھ ساتھ
گھاس اور پھولوں کی پتیاں بھی پامال ہو جاتی ہیں
وہاں ہمارے نقوشِ پا کون تلاش کرے گا ؟
عجائب گھروں میں
\"664444-Islam-1390918359-464-640x480\"ہارنے والوں کے حنوط شدہ سَر
اور فاتحین کے کاسٹیوم رکھے جاتے ہیں
روحیں اور خواب نہیں
مظہر الاسلام!
تاریخ دانوں کو کیا معلوم

کہ لفظوں کی جیت ہوتی ہے نہ ہار
یہ اپنے اپنے معانی میں
ٹوٹتے بکھرتے اور پھیلتے رہتے ہیں
اور جبر کے موسموں میں
نت نئے طریقوں سے کیمو فلاژ ہو جاتے ہیں
علامتوں، استعاروں اور امیجز میں ڈھل جاتے ہیں
اور کبھی کبھی تو
یہ کتابوں اور حاشیوں سے باہر نکل کر
کائنات کی کسی دُور دراز نُک میں بیٹھے
مطالعے میں مصروف
خود فراموش خدا کی تنہائی میں گونجنے لگتے ہیں
یہاں تک کہ وہ تنگ آ کر
عظیم خاموشی کی کتاب بند کر دیتا ہے

مظہرالاسلام!
اگرچہ خدا انسانوں سے تنگ آ گیا ہے
لیکن مایوس نہیں ہُوا
تیز رو وقت نے راستہ ضرور بدلا ہے
سفر کا اختتام نہیں
انت وہی ہے جو ہر روز ہوتا ہے
اور تا اور ما بعد ابد ہوتا رہے گا
بس اتنا فرق پڑا ہے
کہ ہم آغاز سے بچھڑ گئے ہیں
اور انجام کار ایک ایسی دنیا میں آ گئے ہیں
جو شاید ہمارے لیے تھی ہی نہیں
عمروں اور لفظوں کے اسی ادھیڑ بُن میں
ہم کاغذ کے جہاز اڑاتے اڑاتے اسپیس شپ اڑانے لگے ہیں
اور زندگی اتنی مصروف اور مطلب آشنا ہو گئی ہے
کہ یادیں بھی کسی کام کے بغیر نہیں آتیں
اور ہماری ملاقاتوں میں
ڈھابوں کی جگہ گلوریا جینز نے لے لی ہے!!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments