ایکو سسٹم کی بددعا تمہارے ساتھ ہے!


ایک گینڈے نے کافی بڑی قسم کی آری سے تصویر میں موجود آدمی کی ناک کاٹ دی ہے۔ آدمی ناک سے بہتا خون لیے اپنے چہرے پہ ہاتھ رکھے بہت خوف اور اذیت میں کھڑا ہے۔ گینڈا بہت مطمئن نظروں سے آدمی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ آدمی نے صرف نیکر پہنی ہوئی ہے، اس کی داڑھی اور بال بڑھے ہوئے ہیں، وہ کئی دنوں کی بھوک کا شکار نظر آتا ہے۔ پیچھے ایک گھنا جنگل ہے، گینڈا مکمل شانت ہے اور وہ کہیں سے بھی اپنے کیے پہ شرمندہ نظر نہیں آتا۔ وہ خوش ہے کہ اس نے آدمی کو مارا نہیں ہے صرف اس کی ناک کاٹی ہے۔ آدمیوں کی ناک گینڈوں کے یہاں بہت قیمتی چیز سمجھی جاتی ہے اور وہ سجاوٹ کے علاوہ بہت سی دواؤں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔

ایک وسیع و عریض میدان ہے، چاروں طرف تماشائی موجود ہیں، ان سب کے بیچ، وہاں ایک بیل ایک آدمی کو نیزے سے مار رہا ہے۔ وہ نیزہ جو بل فائٹنگ کے دوران آدمی بیلوں کو مارتے ہیں۔ اسی طرح کے دو نیزے اس انسان کی پشت میں گڑے ہیں۔ وہ چاروں شانے چت ہے اور اس ادھ مرے آدمی کے جسم میں آخری نیزہ گاڑتے ہوئے بیل ایک شاہانہ غرور کے ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے۔ تماشائی تالیاں پیٹ رہے ہیں اور ان میں اسی جیسے کئی دوسرے بیل شامل ہیں۔ وہ سب ”اوئے ڈرپوک آدمی، او کمزور نسل، ہار گیا، آدمی ہار گیا‘‘ قسم کے وحشیانہ نعرے لگا رہے ہیں۔ دیوانگی ان کے چہروں سے پھوٹی پڑ رہی ہے۔ نہتے آدمی کو ہتھیاروں سے لیس ہو کے مار دینا ان کے نزدیک ایک کھیل ہے۔ اس آدمی کی لاش مرنے کے بعد کچرا خانے میں جمع کروا دی جائے گی۔

سردیوں کا موسم ہے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ بارش ہو رہی ہے۔ لاؤنج کے اندر شیشے کے پیچھے بہت ہی گرم ماحول میں ایک کتا چائے پی رہا ہے۔ باہر ایک انسان کپڑوں سے بے نیاز ہاتھ پیر سکیڑ کر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے گلے میں ایک زنجیر ہے اور وہ بہت ہی رحم طلب نظروں سے کتے کی طرف دیکھ رہا ہے۔ کتا بے فکری اور اطمینان کی حالت میں ہے۔ وہ سمجھ رہا ہے کہ انسان کی نگاہوں میں صرف پیار ہے جو اس کے لیے چھلکا پڑ رہا ہے۔ وہ مطمئن ہے کہ اپنے پالتو آدمی کو پیٹ بھر کے کھانا کھلا چکا ہے۔

ایک انسان پنجرے کے اندر بند ہے۔ پنجرہ ایک اونچی جگہ پر ٹنگا ہوا ہے۔ پنجرے کے اندر کھڑے آدمی نے سلاخوں کو تھاما ہوا ہے اور زور زور سے مدد کے لئے چلا رہا ہے۔ اس کی آواز بہت صاف اور واضح ہے، وہ ہیلپ، ہیلپ کے نعرے لگا رہا ہے۔ سامنے ایک طوطا بیٹھا ہے وہ اپنے کمپیوٹر پہ کوئی کام کر رہا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ اگر یہ انسان ایسے ہی میٹھے سروں میں گانے گا رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خوش ہے۔ طوطا اس آدمی کے گانے کو انجوائے کرتا ہوا اپنا کام کر رہا ہے۔ آدمی چیخ چیخ کے نڈھال ہو چکا ہے۔

ایک ریچھ صوفے پر بیٹھا ہوا ہے، اس کے ہاتھ میں مشروب کا ایک گلاس ہے۔ اس نے عینک لگائی ہوئی ہے، سگار اس کے دوسرے ہاتھ میں ہے اور وہ فل ٹائم موج میں ہے۔ سامنے آتش دان میں آگ جل رہی ہے۔ اس کے اوپر موجود مینٹل پیس پر ایک بندوق ٹنگی ہے جس کے ساتھ پانچ مختلف انسانی سر بطور ٹرافی ٹنگے ہیں۔ ایک سر جاپانی انسان کا ہے۔ ایک امریکی ہے۔ ایک افریقی سر ہے۔ ایک برصغیر پاک و ہند کے لوگوں جیسا ہے اور ایک سر اسکیمو لوگوں کے جیسا ہے۔ اس کے قدموں میں ایک کھال بچھی ہے جو کسی مرے ہوئے آدمی کی ہے۔ آدمی کا منہ بالکل ویسے ہی کھلا ہے‘ جیسے زمین پر بچھی کھالوں میں ہمارے یہاں شیر یا بھالو کا منہ کھلا ہوتا ہے۔

دو خرگوش ایک لیبارٹری میں ہیں۔ ان کے سامنے ایک میز پر ایک آدمی لیٹا ہوا ہے۔ آدمی کو ہاتھ پاؤں باندھ کر لٹایا گیا ہے۔ ایک خرگوش جراحی میں استعمال ہونے والے ایک آلے سے اس بندھے ہوئے آدمی کی آنکھ باہر نکال کر اس کے اندر کوئی دوا ڈال رہا ہے۔ دوسرا خرگوش اس کی پشت میں کسی زہریلے مادے کا انجیکشن لگا رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ آدمیوں کو درد کا احساس نہیں ہوتا اور خرگوشوں کی نسل آگے بڑھانے کے لیے ایسے تجربے ضروری اور بہت مناسب ہیں۔

اگلی تصویر ایک شیر کی ہے جس میں اس نے جنگل میں شکار کیے گئے آدمی کے ساتھ فوٹو بنوائی ہے۔ وہ اس مرے ہوئے آدمی کے اوپر اپنا پاؤں رکھے بہت ہی فخر سے کیمرے کی طرف دیکھ رہا ہے۔ شیر کی بندوق ساتھ ہی ایک کونے میں پڑی ہوئی ہے۔ شیر کی مونچھوں میں ایک فخریہ اکڑاہٹ نظر آتی ہے۔ وہ اس طرح تن کے کھڑا ہے جیسے انسان مار دینا کوئی بہت ہی بہادری کا واقعہ ہو۔ تصویر یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اس آدمی کی کھال میں بھس بھروا کے شیر اسے اپنے ڈرائنگ روم میں رکھے گا یا اس کے گوشت سے ضیافت کی جائے گی۔

ایک فوٹو سرکس میں بنائی گئی ہے۔ وہاں ایک رنگ ماسٹر میدان کے بیچوں بیچ اپنے ہاتھوں پہ کھڑا ہوا ہے، اس کا تمام جسم ہوا میں معلق ہے۔ اس کی آنکھیں تکلیف سے بوجھل ہیں۔ جسم شدید تھکن کا شکار ہے۔ ایک شیر اپنے ہاتھ میں چھڑی لیے اس کے پیچھے موجود ہے۔ جیسے ہی وہ آدمی ڈس بیلینس ہوتا ہے تو شیر اسے مارتا ہے۔ بندر، ہاتھی، زرافہ، ریچھ، بکریاں، کتے، بھالو، اور بہت سے پرندے آدمی کی طرف دلچسپی سے دیکھ رہی ہیں۔ کچھ لوگ اسے خوش کرنے کے لیے خوراک بھی اندر اس کی طرف اچھال رہے ہیں۔ وہ سب بہت خوش ہیں کہ اس شیر نے آدمی کی تربیت بہت اچھی کی ہے۔

ایک درخت نہایت غصے کے عالم میں کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک کلہاڑی ہے۔ اس کلہاڑی سے وہ اپنے سامنے موجود اس انسان کو مارنے جا رہا ہے جس کا آدھا جسم زمین میں گڑا ہے۔ وہ اس پہ دو تین وار پہلے ہی کر چکا ہے۔ آدمی کے اردگرد بہت سا خون ہے۔ وہ اپنے آپ کو نہیں بچا سکتا کیوں کہ وہ زمین میں گڑا ہوا ہے۔ اس کے بیوی بچے بہت خوف کے عالم میں ہیں۔ وہ اسے دیکھ رہے ہیں لیکن اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتے کیوں کے ان کے پیر بھی زمین سے جوڑ دئیے گئے ہیں۔ درخت شاید اپنے راستے سیدھے کرنے کے لیے آدمیوں کو مار رہے ہیں۔

یہ 2080ء ہے۔ سڑک پر جتنے بھی لوگ موجود ہیں‘ انہوں نے چہرے پر ماسک چڑھائے ہوئے ہیں۔ یہ ماسک بالکل اسی طرح کے ہیں جو چاند پہ جانے والے لوگوں نے پچھلی صدی میں پہنے تھے۔ ان کی کمر سے آکسیجن ٹینک لٹک رہے ہیں۔ خالص آکسیجن ملنا عین اتنا ہی ناممکن ہے جیسے آج کل شہد ڈھونڈا جاتا ہے۔ مساجد کے لاؤڈ سپیکر اعلان کر رہے ہیں کہ شام چھ بجے سے پہلے پہلے اپنے گھروں میں آکسیجن کا بندوبست کر لیجیے، اس کے بعد سرکاری آکسیجن کی لوڈ شیڈنگ شروع ہو جائے گی۔ بچوں کو آکسیجن ٹینٹ کے اندر لیٹے ہوئے ہم لوگ کہانیاں سنا رہے ہوں گے کہ بیٹا، تمہیں معلوم ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہوا میں آکسیجن مفت ملتی تھی۔ تمہارے پیدا ہونے سے تھوڑا پہلے ہمارے یہاں سموگ کا راج ہوا، یہ پہلی وارننگ تھی۔ ہم قدرت کی طرف سے دیا گیا کوئی بھی اشارہ نہ سمجھ سکے۔ آج تم لوگ جو ایک ایک سانس پیسوں کی خریدتے ہو، یہ ہمیں مفت ملا کرتی تھی۔

شاید اوپر والی سب کہانیاں تخیل کی پیداوار ہوں اور ان کا ممکن ہونا کبھی بھی پاسیبل نہ ہو لیکن یہ جو آخری منظرنامہ ہے، یہ ہو کے رہے گا۔ پورے ایکو سسٹم کی بددعا ہمارے ساتھ ہے!

(ان میں سے چند کہانیاں انٹرنیٹ پر موجود تصویروں اور پینٹنگز سے ماخوذ ہیں)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain