سموگ کا روگ اور سوگ


کشور ناہید کی شاعری رومانوی جہاں کے دریچے کھولتی ہے۔ سموگ نے نومبر کا مزہ کرکرا کر دیا ہے، ورنہ اس موسم میں ان کے کیف آفریں تخیل کی آبشار دل پر گرتی ہے کہ:

مجھے نومبر کی دھوپ کی طرح مت چاہو
کہ اس میں ڈوبو تو تمازت میں نہا جائو
اور اس سے الگ ہو تو
ٹھنڈک کو پور پور میں اترتا دیکھو

سموگ نے نومبر کا ہی نہیں، زندگی کا مزہ بھی کرکرا کر دیا ہے۔ وہ دھند چھائی ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ماحولیاتی آلودگی کی پیداوار سموگ کا روگ یہ ہے کہ دم گھٹتا ہے اور پھیپھڑوں، گلے، سانس اور آنکھوں کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ سڑکوں پر حادثات سے قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور فلائٹ آپریشن متاثر ہو رہا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نومبر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ صفر کرنے کا اعلان کیا تھا مگر سموگ سے 17 بجلی گھر بند ہو گئے اور بجلی کا شارٹ فال 7000 میگا واٹ تک پہنچ گیا، جس سے خصوصاً دیہات میں سولہ گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ ترجمان بجلی ڈویژن کا کہنا ہے کہ فرنس آئل اور ڈیزل پر چلنے والے مہنگے پاور پلانٹس بند کر دیئے گئے ہیں، جس کی بڑی وجہ گردشی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ گردشی قرضے 800 ارب روپے سے بھی بڑھ گئے ہیں، جس کی بنا پر حکومت نے فرنس آئل اور ڈیزل پر چلنے والے چار ہزار دو سو پچاس میگا واٹ کے پاور پلانٹس بند کر دیئے۔ اس بندش سے سسٹم پر لوڈ بڑھا تو ایٹمی بجلی گھر بھی ٹرپ کر گئے، جو نہلے پہ دھلا ثابت ہوا اور ملک اندھیرستان بن گیا۔ اگرچہ وزارت پانی و بجلی کے حکام کا دعویٰ ہے کہ ایٹمی پاور پلانٹس کے ٹرپ کرنے کی وجہ سموگ ہے، تاہم ترجمان اٹامک انرجی کمیشن نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سموگ کا نیوکلیئر پاور پلانٹس سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تین ایٹمی بجلی گھر نیشنل گرڈ میں ٹرپنگ کے باعث بند ہوئے جبکہ ایک پر مرمتی کا کام ہو رہا ہے۔ آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تمام ریفائنریز آئندہ ہفتے تک بند ہونے کا خدشہ ہے۔ پی ایس او بھی مشکلات کا شکار ہے، چھ کارگو کی بکنگ کی جا چکی ہے اور یہ فیول پاور پلانٹس میں استعمال نہ ہوا تو یومیہ دس ہزار ڈالر کا خسارہ ہو گا۔ اگرچہ پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ بند شدہ بجلی گھر دوبارہ چلا کر لوڈ شیڈنگ ختم کر دی گئی ہے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ سموگ کے سوگ میں ملک ابھی تک اندھیرستان ہی ہے۔

وطن عزیز کی سیاسی فضا میں بھی اُفق در اُفق سموگ چھائی ہے۔ اس سموگ کا ایک روگ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے وارننگ دی ہے کہ 10نومبر تک حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہے ورنہ 2018ء کے انتخابات کا بروقت انعقاد خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس سے قبل 27 اکتوبر کو چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا کی زیر صدارت اجلاس میں حکومت کو نئی حلقہ بندیوں سے متعلقہ آئینی و قانونی ترامیم کرنے کے لیے سات دن کی مہلت دی گئی تھی۔ سیکرٹری قانون نے الیکشن کمیشن کو یقین دلایا کہ تمام ضروری ترامیم جلد کی جائیں گی تاکہ الیکشن کمیشن اپنا کام بروقت مکمل کر سکے۔ اجلاس میں سیکرٹری شماریات ڈویژن نے بھی الیکشن کمیشن کو ضروری نقشہ جات اور ڈیٹا فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس اجلاس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پارلیمانی لیڈروں کا اجلاس 31 اکتوبر کو طلب کیا، جس میں مردم شماری 2017ء کے تحت حلقہ بندیوں کے لیے ضروری آئینی تقاضے پوری کرنے کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر 272 نشستیں برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا، جس سے اسلام آباد کی ایک، خیبر پختونخوا کی پانچ اور بلوچستان کی تین نشستیں بڑھ گئیں، جبکہ پنجاب کی 9 نشستیں کم ہو گئیں۔

پارلیمانی جماعتیں اس فیصلے کے مطابق اگلے چند دنوں میں آئینی ترمیم کرنے کے لیے متفق ہو گئیں اور یوں انتخابات کا معاملہ کھٹائی میں پڑنے کا امکان معدوم ہو گیا۔ تاہم بعد ازاں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی طرف سے ترمیمی بل کی حمایت سے دستبرداری نے آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کی راہ میں دوبارہ سموگ کا گرد و غبار لا کھڑا کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے الیکشن کے بروقت انعقاد پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم بھی ایک مرتبہ پھر اپنے خدشے کا اظہار کرنا نہیں بھولے کہ ٹیکنو کریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی دہرایا ہے کہ ملک میں سب ٹھیک نہیں، کوئی غیر آئینی مداخلت نہ کرے۔ ان حالات میں کچھ دور بین نظروں کو سموگ کے اس پار عبوری سیٹ اپ کا ہیولا رقص کرتا نظر آتا ہے تو حیرت کی کوئی بات نہیں۔

ملکی فضا میں چھائی سموگ کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہم ابھی تک منزل کے تعین کے لیے متوازن خطوط کھینچنے میں ناکام رہے ہیں۔ 2015ء میں سینیٹ میں تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف کی ایک رپورٹ کی توثیق کی تھی، جس میں نئے احتسابی نظام کی تشکیل پر زور دیا گیا تاکہ تمام ریاستی اداروں کے اراکین کا بلا تخصیص احتساب ہو سکے۔ نیا احتسابی نظام تجویز کرنے کے لئے دونوں ایوانوں میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی۔ تاہم ہمیں خوشی ہے کہ طویل غور و خوض کے بعد اب تقریباً تمام جماعتیں اپنے مؤقف سے منحرف ہو گئی ہیں۔ یقینا انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ جب دیگر ریاستی اداروں میں ان کا اپنا اپنا مضبوط اور بہترین احتسابی نظام موجود ہے تو پھر ایسے کسی بل پر وقت ضائع کرنے کی بجائے کیوں نہ ایک دوسرے کا احتساب کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے، کیونکہ کرپشن اور حالات کے بگاڑ کا اصل منبع تو وہ خود یعنی سیاستدان ہی ہیں۔

اللہ کے کرم سے شریف خاندان احتساب کے شکنجے میں کسا جا چکا ہے اور عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف بھی اسی طرح کے نا اہلی کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنے کے لیے بے چین ہیں جبکہ پیپلز پارٹی ان دونوں پر تالیاں بجا رہی ہے، جیسے کبھی اس پر ایسا وقت آنے پر دیگر جماعتوں نے بجائی تھی۔ ہمارے فیورٹ لیڈر شیخ رشید احمدکہتے ہیں کہ الیکشن سسٹم یہی رہا تو مزید نواز شریف ہی پیدا ہوں گے۔ تیری آواز مکے اور مدینے۔ ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ سسٹم کو ایسا ”غسل‘‘ دیا جائے کہ اس کے بطن سے نواز شریف کی بجائے شیخ رشید جیسے راہ نما ہی پید ا ہو سکیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ن لیگ کی اینٹیں نکلنا شروع ہو گئی ہیں۔ ہم اپنی اور ان کی تسکین کی خاطر اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ ن لیگ ہی نہیں، جمہوریت کی اینٹیں بھی نکلنا شروع ہو گئی ہیں۔ امید واثق ہے کہ جلد ہی نواز شریف کی طرح ووٹ کی طاقت کی دُم پر کھڑا ہونے والے لیڈروں کی بجائے نوکری کے متلاشی افراد کی مرادیں بَر آئیں گی اور نظام درست ہو جائے گا۔

ملکی فضا پر چھائی سموگ کا ایک روگ وہ رپورٹ بھی ہے کہ یہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ آزادیٔ اظہار کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم ایسے کج فہموں کا سوگ یوں ہے کہ ہم احمد نورانی پر حملے کو لڑکیوں کے ساتھ ان کے چکر کا شاخسانہ قرار دینا چاہتے ہیں اور ہمارا روگ یہ ہے کہ ایسا کہنے پر ضمیر کہنیاں مارتا ہے۔ سموگ کی اس گرد گرد فضا میں آزادیٔ اظہار کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ کمبخت ضمیر ہی ہے۔ ظفرؔ اقبال نے کہا ہے :

اندر کہیں رہ جاتا ہے طوفان ہمارا
اب تک جو سلامت ہے گریبان ہمارا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).