پومپیائی کے آثار اور ناول کا مطالعہ: وسی بابا کے لئے ایک آسان کالم


برطانوی مصنف رابرٹ ہیرس کا ناول ’’پومپیائی‘‘ کسی بھی اعلیٰ پاپولر فکشن ناول کی طرح ایک ایسی پُرکشش کہانی ہے جو اختتام سے پہلےقاری کو خود سے باآسانی الگ نہیں ہونے دیتی ۔ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے ناول کا پلاٹ تو اٹلی کے قدیم شہر پومپیائی میں ہونے والی تباہی کے گرد گھومتا ہے جو کم وبیش 70ء میں کوہِ ویسووئیس کا آتش فشاں ابلنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ناول کا آغاز ہی ایک ایسے غلام کے بہیمانہ قتل سے ہوتا ہے جس پراپنے آقا کی قیمتی مچھلیاں مار دینے کا الزام ہوتا ہے۔ آقا کی بیٹی اور غلام کی ماں جلد از جلد پر اس آبی انجینئر کے پاس پہنچتے ہیں جو کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ وہ فوری طور پر اندازہ لگا لیتا ہے کہ مچھلیوں کے مرنے کی وجہ پانی سے متعلق ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے باعث بدقسمتی سے غلام کی جان نہیں بچ پاتی۔ ابھی پومپیائی کا آتش فشاں پھٹنے میں تقریباً اڑتالیس گھنٹے باقی ہیں۔ کہانی بہت تیزی سے آگے بڑھتی ہے اور کئی دلچسپ موڑ آتے ہیں۔ چونکہ عمومی انجام تو پہلے ہی معلوم ہے لہٰذاقاری شدید تجسس کا شکار رہتا ہے کہ کون بچ پائے گا اور کون نہیں!

کسی بھی مسالے دار دوسرے یا تیسرے درجے کے ناول کی طرح ’’پومپیائی‘‘ کرداروں کے نفسیاتی مطالعے، تفصیلی منظر نگاری او ر تہہ در تہہ طبقاتِ متن سے نہیں بلکہ لمحاتی منظر نگاری، تجسس اور واقعاتی کشمکش کے ذریعے قارئین کی فوری توجہ اپنی جانب مبذول کئے رکھتا ہے۔ انہی وجوہات کی بناء پر اس ناول کو 2014ء میں ہونے والی ایک تجرباتی تحقیق میں استعمال کیا گیا۔ تحقیق کا موضوع یہی سوال تھا کہ بالعموم مطالعہ اور بالخصوص ناول کا مطالعہ کسی طرح دماغی خلیوں پر مشتمل اعصابی نیٹ ورک پر اثر ڈالتا ہے؟ نو دن کی اس تحقیق میں اکیس طلباء نے شرکت کی ۔ ناول کو تیس تیس صفحات پر مشتمل نو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور طلباء کو ہر رات ایک حصے کا مطالعہ کرنے کے بعد اگلی صبح ’’فنکشنل ایم آر آئی‘‘ کے ذریعے دماغی اسکین سے گزرنا تھا۔ یاد رہے کہ قرأت متن کی اولین نشست سے قبل بھی طلباء اسی اسکین سے گزر چکے تھے تاکہ ذہن کو ایک خالی تختی کے طور پر قیاس کرتے ہوئے بعد کے تقابل کے لئے ایک بنیادی سکین سامنے رکھا جا سکے۔ بالکل اسی طرز پر ناول ختم ہونے کے پانچ دن بعد بھی متواتر انہیں اسی اسکین سے گزارا گیا۔

تحقیق کے نتائج دلچسپ ہیں اور دماغ کے مختلف حصوں میں عصبی طبیعاتی تبدیلیوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے تحقیقی مطالعے کے نتائج کئی ایسے عوامل پر منحصر ہیں جن میں مسلسل بہتری کا عمل جاری ہے۔ قرأتِ متن اور انسانی دماغ کی طبیعاتی ساخت میں تبدیلیوں کے امکانات پر تحقیق کے یہ بالکل اولین ننھے ننھے قدم ہیں۔ لیکن بہرحال ان کمزورتجرباتی شواہد کی حد تک بھی بہت معقول قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ مطالعہ کسی نہ کسی صورت ذہنی ساخت میں ایسی تبدیلیوں کا محرک بنتا ہے جن کا تعلق لسانی اور فکری منطقوں سے ہے۔ یہ ماننا بے وجہ نہ ہوگا کہ جس طرح خوراک اور ورزش بالکل حیاتیاتی سطح پر تبدیلیوں کے ذریعے نفسیاتی اور جذباتی سطح پر تبدیلیوں کا پیش خیمہ بنتی ہے، اسی طرح متن کا ذہن سے مسلسل ٹکراؤ بھی کئی منفرد تبدیلیوں کا محرک بنتا ہے۔

یہ قیاس آرائی قبل از وقت ہو گی کہ وہ تبدیلیاں حتمی طورپر کیا ہیں اور ان تبدیلیوں کا دورانیہ کس حد تک اور کس قسم کے مطالعے پر منحصر ہے؟ لیکن اس کے باوجود میں خالص قیاسی سطح پر مسلسل یا چوبیس گھنٹوں کا کثیر حصہ ثقیل متن کی دنیا اور دلچسپ انسانوں کی دنیا میں رہنے والے دو مختلف اشخاص کا ایک تقابلی خاکہ کھینچنا چاہتا ہوں۔ ہاں میں فی الحال یہ دعویٰ کرنے سےقاصر ہوں کہ کیا یہ تبدیلیاں اگر واقع ہو جائیں تو مستقل ہوتی ہیں یا نہیں!

میری رائے میں انسانوں کی دنیا میں رہنے والے افراد کو کتابوں کی دنیا میں رہنے والے افراد سے اس وقت تک ذرا بھی مرعوب ہونے کی ذرا بھی ضرورت نہیں جب تک وہ انسانوں کی دنیا میں برپا ہوتے واقعات کے مشاہدے میں مشغول ہیں اور انسانوں کو کتابوں ہی کی طرح پڑھ رہے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہاں ایک خلقی نوعیت کا فرق ہے جو دو طرفہ مرعوبیت کو لازم کرتا ہے۔ صرف اور صرف کتابوں کی دنیا میں رہنے والے افراد انسانوں کی دنیا میں تبدیلی لانے کی خواہش نہیں کر سکتے۔ ہاں تاریخ میں بارہا دیکھا گیا ہے کہ ایسی تبدیلیاں ان لوگوں کے ذریعے برپا ہوئی ہیں جنہوں نے دونوں دنیاؤں کا یکساں سفر کیا ہے۔

دوسری طرف عصرِ حاضر یعنی ہمارے زمانے میں ایسی عملی تبدیلیاں کم سے کم ہونے کے واقعات کی ایک وجہ بھی شاید ’’قاری ‘‘ نامی نوع میں ایک واضح ارتقائی تبدیلی رونما ہونے کا واقعہ ہے۔ (اس موقع پر قارئین کو ایک پرانا مضمون ’’مطالعہ کیسے کیا جائے؟‘‘ ضرور دیکھ لینا چاہیے۔) قارئین کی ایک ذاتی تقسیم کے مطابق شاید یہ قاری استقراری اور قاری استمراری کے درمیان کی ایک نوع ہے جو تقریباًنصف صدی قبل تک کتابوں کی قدرے متعین اور سست رفتاری سے بڑھتی تعداد کے باعث مطالعے کے ساتھ ساتھ مکرر مطالعے میں بھی مشغول تھی۔ قرأتِ متن میں مکرر مطالعہ ایک ایسی اہم عادت تھی جو اب تقریباً معدوم ہو چکی ہے۔ یعنی اس مخلوق میں معدوم ہو چکی ہے جسے میں زیرِ نظر تحریر کی حد تک’’قاری‘‘ کہہ رہا ہوں۔ مکرر مطالعے کا عمل نہ صرف قاری کو متن میں زندہ رہنے پر قادر کر دیتا تھا بلکہ متن کی تہہ میں غواصی کے بعد وہ جواہر بھی دکھا دیتا تھا جو شاید متن میں عمومی طور پر نادیدہ ہی ہوتے تھے۔ لیکن آج کا ’’قاری‘‘جس دنیا میں زندہ ہے وہ بہت سرعت سے پھیلتے ہوئے متن کی دنیا ہے۔ آئے دن اس قسم کے مضمون نظر سے گزرتے ہیں کہ ’’اس ہفتے کے دس بہترین ناول‘‘، ’’اس ماہ کی دس اہم تاریخی کتب‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ میرا قیاس ہے کہ ان حالات میں مسلسل قرأت کا عمل کسی ایک خاص حد کے بعد ایک کتاب کو دوسری کتاب سے علیحدہ کر کے دیکھنے پر قادر نہیں رہتا۔ یعنی یہ انفرادی کتابوں میں بٹی معلومات نہیں ہوتیں بلکہ متن ایک مجموعی صورت میں ذہن میں پھیلتا رہتا ہے۔ یہ متن اس طرح کئی کتابوں پر مشتمل ہوتا ہے کہ اسے ایک ملغوبہ کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اجزاء جو کبھی اجزاء تھے ، ایک کُل میں ڈھل کر اپنی انفرادی حیثیت کھو بیٹھتےہیں۔

Robert Harris

ذہن کے اعصابی خلیوں کی یہ حالت کس حد پر واقع ہوتی ہے؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ گمان ہے کہ شاید تجربہ کیا جائے تو دو یا تین سو سنجیدہ اور دقیق کتابوں کے بعد یہ حالت ہو جائے۔ مثال کے طور پر جن قارئین نے باقاعدگی سے زندگی کے بیس پچیس سال کوئی بھی اہم یا غیراہم جاسوسی ڈائجسٹ یاناول نہیں چھوڑا، وہ ظاہر ہے کہ کہانی کار تو نہیں، لیکن کم از کم اس صنفِ ادب میں ’’قاری‘‘ کے رتبے کو پہنچ چکے ہیں۔ ان کے ذہن میں تمام جاسوسی کہانیوں کے پلاٹ یوں گڈمڈ ہو چکے ہیں کہ وہ اب صحیح معنوں میں جاسوسی ادب کے ’’قاری‘‘ ہیں۔ کسی بھی نئی کہانی پڑھنے کا عمل ان کے لئے شاید نوے فی صد تکرار اور دس فی صد ندرت پر مشتمل ہو گا۔ ہم ڈیٹا سائنس کی زبان میں اس کو redundant data بھی کہہ سکتے ہیں۔

جو قارئین اب تک اس متن سے جڑے ہیں وہ جان لیں کہ قرأت کا یہ عمل اس حد سے ٹکرانے کے بعد قرأت نہیں بلکہ ایک مہاقرأت کا عمل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاقرأت کا یہ عمل توجہ، علمی نکھار، ذہنی قابلیت وغیرہ سے نہیں بلکہ سراسر متن کی کمیت اور مقدار پر منحصر ہے۔ انسانوں کی متقابل دنیا میں رہنے والے حضرات یوں سمجھ لیں کہ پانچ سو انسانوں کو ملنے اور ان کی زندگیوں کے مطالعے کے بعد وہ اب اپنے ذہن میں ایسے سانچے بنانے پر قادر ہیں جن میں بقیہ ماندہ انسانوں کی کثیر تعداد سمائی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر نہ بھی سمائی جا سکے تو وہ جیسے تیسے سما ہی لیں گے۔ ہاں پھر شاید کوئی چھ سوویں نمبر پر ایک انسان ایسا آئے گا جو سانچوں میں تبدیلی کا تقاضہ کرے گا۔ متن کی دنیا میں بھی کم وبیش یہی واقعہ ہے۔ یہاں بھی اس طلسمی حد کے بعد یہ مسئلہ سراسر ایک pattern recognition کا مسئلہ ہے۔

میرا خیال ہے کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے میں ثابت کر چکا ہوں کہ وسی بابا کو مجھ سے مرعوب ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں بلکہ واقعہ شاید الٹ ہے۔ لیکن اب مشکل کہاں واقع ہوتی ہے اور فرق کہاں ہے؟ انسانوں کی دنیا واقعاتی دنیا ہے اور انسانوں کے لئے فطری طور پر زیادہ دلچسپ ہے۔ انسانوں کی دنیا کے قاری کے ذہن میں موجود تمام سانچے ایک دوسرے سے واقعاتی نسبت میں بندھے ہیں ۔ ان سانچوں میں موجود انسانوں کی زندگیوں کے واقعات جو بظاہر انفرادی ہیں ، ایک دوسرے سے دلچسپ نسبتیں سامنے لا رہے ہیں۔ یہ نسبت اس کی آنکھ سے پوشیدہ ہے جو انسانوں کی دنیا کا قاری نہیں۔

 بالکل اسی طرح متن کی دنیا میں مختلف نظریات جو بظاہر ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ ہیں ، کسی فوری محرک کے زیرِ اثر ایک ہی کڑی میں بندھے نظر آر ہے ہیں۔ یہ فوری محرک ایک تیسرا متن ہے جس میں قاری اس لمحے بس استقراری جبلت سے مجبور غوطہ خوری کر رہا ہے۔ متن کی تہہ میں موجود غوطہ خور کو وجدانی طورپر معلوم ہے کہ دراصل متن میں ندرت کے سبز منطقے کہاں ہیں ۔ وہ وہاں غوطہ لگاتا ہے اور ایک موتی نکال لاتا ہے۔ اس موتی کی قیمت اسے تو خوب معلوم ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اسے خریدار کو کیوں کر اور کیسے بیچے۔ آخر کو وہ غوطہ خور ہے، تاجر نہیں۔

رہے نظریات کے تاجر تو وہ زیادہ وقت انسانوں کی دنیا میں گزارتے ہیں اور جانتےہیں کہ وقت پڑنے پر کس غوطہ خور کی خدمات حاصل کرنی ہیں۔

وسی بابا جنہیں ان کے دوست جدید دور کا پومپیائی کہتے ہیں

مجھے سب کام چھوڑ کر فوری طور پر یہ آسان کالم اس لئے لکھنا پڑا کیوں کہ وسی بابا نے اعتراف کیا کہ وہ میرے زیادہ تر کالم ایک حد سے آگے نہیں پڑھ سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں اور وسی بابا ایسے رشتے میں بندھے ہیں جو نفسیاتی منظرنامے میں Dunning–Kruger effect کی کوئی فرع یا ضمنی نتیجہ ہے۔ میں اسے ضمنی نتیجہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اس نفسیاتی تھیوری کے حوالے سے میری مراد اس کا صریح اطلاق نہیں بلکہ صرف اور صرف ایک ایسے فاصلے کو ظاہر کرنا ہے جس کی نظیر تجرباتی نفسیات میں موجود ہے۔ لیکن اصل تھیوری کے برعکس یہاں ذہنی قابلیت کے طرفین مختلف ہیں۔ میں کتابوں کے درمیان تنہا ہوں۔ ان کےمردہ لکھاریوں کو ایک دوسرے سے باتیں کرتا سنتا ہوں۔ ان کی کوئی نہ کوئی سرگوشی چرا کر اپنے ذہن میں بکھرے متن کو یکجا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے لئے زمانی بہاؤ بس متن کی علامتوں کا ایک سیلابی ریلا ہے۔ کبھی تو سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے اور کبھی کچھ عطا کر جاتا ہے۔ وسی بابا انسانوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ اس کے ذہن میں کہانیاں، کردار اور واقعات زندہ و جاوید ہیں۔ وہ سیاست کی بساط کا مبصر ہے اور ان تمام چالوں کی کڑیوں سے کڑیاں ملا کر پیشین گوئیوں کا کھیل کھیلتا ہے۔

پس ثابت ہوا کہ وسی بابا کو میرے متن کی پیچیدگی سے مرعوب ہونے کوئی ضرورت نہیں۔ متن میں غواصی اس کے لئے ’’بنجی غوطہ خوری‘‘ کی طرح ایک خطرناک تفریحی عیاشی ہے۔ میں اور وہ دو یکسر مختلف دنیاؤں کا ملاپ ہیں۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi