عاصم بخشی کے نام محبت نامہ


یہ عاصم بخشی کے نام پہلا محبت نامہ لیکن ’ہم سب‘ کے لکھاریوں کے نام تیسرا محبت نامہ ہے۔ اس سے پہلے میں عارف وقار اور حاشر ارشاد کے نام محبت نامے لکھ چکا ہوں ۔ میری خوش بختی کہ میں ’ہم سب‘ کے مدیروں‘ لکھاریوں اور قاریوں کے محبت نامے وصول بھی کرتا رہتا ہوں۔ ۔ ویسے میں اپنی تخلیقات کو انسانیت کے نام محبت نامے ہی سمجھتا ہوں۔

عاصم بخشی ایک مشکل پسند دانشور ہیں۔ میں ان کا تہِ دل سے احترام کرتا ہوں۔ ان کی تخلیقات بار بار پڑھتا ہوں ۔ ان کو پڑھ کر مجھے مرزا غالب کا یہ شعر یاد آیا ہے

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ

گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی

عاصم بخشی کی تحریریں ان یونیورسٹی کے پروفیسروں کے مکالوں کی طرح ہیں جن سے صرف پی ایچ ڈی کے طلبا و طالبات ہی استفادہ کر سکتے ہیں۔ میری نگاہ میں عاصم بخشی ایک صاحب الرائے ادیب ہیں ان کی رائے سے اختلاف تو ہو سکتا ہے ان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔

چونکہ پچھلے چند ہفتوں کے چند کالموں میں مجھ جیسے پاپی کا ذکر ایک سے زیادہ بار آیا ہے اس لیے میں نے سوچا کہ میں اپنے حیران خیالات اور پریشان نظریات کو یکجا کرنے کی اور عام فہم زبان میں پیش کرنے کی کوشش کروں۔ عین ممکن ہے کئی اور لوگوں کو بھی سوچنے اور لکھنے کی تحریک ہو اور سنجیدہ مکالمے کا سلسلہ آگے بڑھے۔ میں ’ہم سب‘ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہم سب کے لیے انٹرنیت کا HYDE PARK تخلیق کیا ہے جہاں

صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

میرا اپنی زندگی میں جتنے مردوں اور عورتوں سے سنجیدہ مکالمہ ہوا ہے میں انہیں اپنے موقف کی وضاحت کے لیے دو گروہوں میں بانٹ سکتا ہوں۔

پہلا گروہ BELIEVERS کا ہے۔ یہ لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس گروہ میں یہودی‘ عیسائی اور مسلمان سبھی شامل ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ خدا اس کائنات کا خالق ہے۔ اس نے ہی کرہِ ارض پر انسان پیدا کیے اور پھر ان کی ہدایت کے لیے پیغمبر اور آسمانی کتابیں بھیجیں جن میں تورات‘ زبور‘ انجیل اور قران سبھی شامل ہیں۔ ان کتابوں میں انسانی کی بھلائی کے لیے پیدائش سے موت اور بچپن سے بڑھاپے تک نیک اور صالح زندگی گزارنے کے سبھی اصول اور احکامات موجود ہیں۔ ان لوگوں کا ایمان ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کا حل ان آسمانی کتابوں میں موجود ہے۔ یہ لوگ وحی اور REVELATION کو منطق اور REASON سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔

دوسرا گروہ NON BELIEVERS کا ہے یہ اپنے آپ کو ATHEISTS, AGNOSTICS, FREE THINKERS AND HUMANISTS کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ خدا کو مانتے ہیں نہ پیغمبروں کو‘ نہ آسمانی کتابوں کو اور نہ حیات بعد الموت کو۔ ایسے لوگ یہ مانتے ہیں کہ کائنات قوانینِ فطرت سے چلتی ہے اور یہ قوانین خدا کو ماننے یا نہ ماننے والوں کے لیے یکساں ہیں۔ ایسے لوگ یہ نہیں مانتے کہ خدا دعائیں سن کر اپنے قوانین بدل دیتا ہے۔ یہ لوگ معجزوں پر ایمان نہیں رکھتے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ ارتقا کے سفر میں انسانی عقل‘ انفرادی ضمیر اور سماجی شعور نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب انسان کو صحتمند اور بامعنی‘ کامیاب اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے کسی الہام یا وحی کی ضرورت نہیں۔ ہر فرد اور ہر قوم اپنی زندگی کے لیے خود معنی تلاش کر سکتی ہے۔ ان کی نگاہ میں منطق اور REASON وحی اور REVELATION سے زیادہ اہم ہیں۔ اگر سائنس اور کسی آسمانی کتاب میں تضاد ہو تو وہ سائنسی سچ کو مذہبی سچ سے زیادہ اہمیت دیں گے۔

میرے لیے یہ مشاہدہ دلچسپی کا حامل رہا ہے کہ سائنسدان اپنی تحقیقات کو سچ ثابت کرنے لیے آسمانی کتابوں کی طرف رجوع نہیں کرتے لیکن مذہبی رہنما اپنی مذہبی کتابوں اور عقیدوں کو سچ ثابت کرنے کے لیے سائنسی تحقیقات کا سہارا لیتے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جب کوئی سائنسدان‘ جو کسی آسمانی کتاب پر یقین نہیں رکھتا‘ اپنی تحقیق سے کوئی نیا سائنسی سچ اور قانونِ فطرت دریافت کر لیتا ہے تو کچھ عرصے کے بعد مذہبی رہبنما کسی آیت کا ایسا ترجمہ کرتے ہیں جیسے وہ تحقیق اسی آیت کی تفسیر ہو۔ اس کی ایک مثال ڈارون کا نظریہ ہے۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا سے پہلے قرآنی الفاظ۔۔ ۔۔۔نفس الواحدہ۔۔۔ کا ترجمہ آدم کیا جاتا تھا لیکن ڈارون کے نظریے کے بعد ابوالکلام آزاد نے ۔ ۔ ۔ نفس الوحدہ۔ ۔ کا ترجمہUNICELLULAR ORGANISM…AMOEBA,,  کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن اور ڈارون کے نظریے میں کوئی تضاد نہیں۔

جب ہم مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ مسلماوں کے سنہری دور میں الکندی‘ الفارابی‘ ابن رشد اور بوعلی سینا جیسے ادیب‘ طبیب‘ فلاسفر اور دانشور پائے جاتے تھے۔ ان ادیبوں نے یونانی فلاسفروں کی کتابوں کے تراجم کر کے یورپ کو یونانی فلسفے سے متعارف کروایا۔ بوعلی سینا کی کتاب CANON OF MEDICINE کئی صدیوں تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی تھی۔ ’[ میری خوش بختی کہ میں جب ایران کے شہر ہمدان میں کام کرتا تھا تو میرے کلینک کی کھڑکی سے بو علی سینا کی آرامگاہ نظر آتی تھی۔ ]

لیکن پھر بو حمید غزالی کا دور آیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر قرآن اور سائنس میں تضاد ہو تو قرآن کو مانو اور سائنس کو رد کر دو۔ اگر وحی اور منطق میں تضاد ہو تو وحی کو مانو اور منطق کو رد کر دو۔ شاید اسی لیے بہت سے مسلمانوں نے سائنسی تحقیق کرنی چھوڑ دی اور پچھلے سات سو سالوں میں مسلمانوں نے بو علی سینا جیسے مسلمان پیدا کرنے چھوڑ دیے۔ اس موضوع پر پرویز ہود بھائی کی کتاب ISLAM AND SCIENCE ایک معراکتہ الآرا کتاب ہے۔

میری عاجزانہ رائے میں اگر مسلمانوں نے دوبارہ اقوامِ عالم میں عزت حاصل کرنی ہے تو انہیں دوبارہ سائنس‘ منطق اور فلسفے کو گلے لگانا ہوگا اور سائنس کے معروضی سچ کو سیکھنا اور تلاش کرنا ہوگا۔ ۔

پچھلی چند صدیوں میں مغربی دنیا میں سائنس نے بہت ترقی کی ہے۔ سائنس کی دنیا میں چارلز ڈارون جیسے ماہرین حیاتیات‘ سگمنڈ فرائیڈ جیسے ماہرینِ نفسیات‘ کارل مارکس جیسے ماہرینِ سماجیات اور سٹیون ہاکنگ جیسے ماہرینِ افلاکیات نے گرانقدر اضافے کیے ہیں۔ ان تحقیقات نے جہاں انسانوں کی زندگی کو بہتر سمجھا ہے اور ان کے مسائل کا عقلی حل تلاش کیا ہے وہیں اس کا ایک اثر یہ بھی ہوا ہے کہ ساری دنیا میں خدا اور مذہب کو نہ ماننے والوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 1900ء میں ساری دنیا میں خدا اور مذہب کو نہ ماننے والوں کی تعادا ایک فیصد تھی 2000ء  میں ان کی تعداد بیس فیصد ہو گئی ہے۔ سکنڈے نیوین ممالک میں یہ تعداد پچاس فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے۔

خدا اور مذہب کو ماننے والے زندگی کے ہر پہلو کو گناہ و ثواب کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اگر وہ گناہ کرتے ہیں تو ان کے اندر احساسِ گناہ پرورش پاتا ہے۔ وہ دوزخ کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں خدا اور مذہب کو نہ ماننے والے چونکہ حیات بعدالموت پر یقین نہیں رکھتے اس لیے وہ کرہِ ارض پر ہی جنت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہین امید ہے کہ جوں جوں انسانوں کا انفرادی ضمیر اور اجتماعی شعور بڑھے گا تو ہم سب مل کر اس دنیا میں پرامن معاشرہ قائم کر سکیں گے۔ سیکولر معاشروں میں انسان جمہوری روایت کا احترام کرتے ہوئے قوانین بناتے ہیں اور جب حالات بدلتے ہیں تو قوانین بھی بدل جاتے ہیں۔ انہیں قوانین بنانے میں کسی آسمانی کتاب کی BLESSING کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مذاہب کے پیروکار چاہے وہ VATICAN کے عیسائی ہوں اسرائیل کے یہودی ہوں یا پاکستان کے مسلمان ایسی ریاست بنانے کے خواب دیکھتے ہیں جہاں خدا کے احکام کی حاکمیت ہوگی۔ ان کے مقابلے میں سیکولر لوگ ایسی ریاست بنانا چاہتے ہیں جہاں مذہب انسانوں کا ذاتی آدرش بن جائے گا اور ریاست کے سارے شہریوں کو‘ خاص طور پر عورتوں‘ بچوں اور اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ کسی انسان سے اس کے نظریات کی وجہ سے ناانصافی یا تعصب نہ برتا جائے گا۔ اگر ہم اکیسویں صدی کی مذہبی اور سیکولر ریاستوں کا انسانی حقوق کے حوالے سے موازنہ کریں تو ہمیں ان میں نمایاں فرق نظر آئے گا۔

دس دسمبر 1948ء کو اقوامِ متحدہ نے اپنی جنرل اسمبلی کے تیسرے اجلاس میں UNIVERSAL DECLARATION OF HUMAN RIGHTS کی منظوری دی اور ساری دنیا کے ممالک کو مشورہ دیا کہ وہ اسے اپنائیں اور اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کا احترام کریں۔ مختلف بین الاقوامی ادارے ان انسانی حقوق کی کسوٹی پر مختلف ممالک کی حکومتوں اور قوانین کر پرکھتے رہتے ہیں اور انہیں سو میں سے نمبر دیتے ہیں تا کہ ساری دنیا کے انسانوں کو اندازہ ہو کہ ان کی حکومتیں انہیں ان کے حقوق سے کس قدر محروم کر رہی ہیں۔ ان حقوق میں جان کی آزادی، امتیازی سلوک سے آزادی ، عقیدے کی آزادی، ثقافت کا تحفظ، قانونی مساوات کا حق اور صحافت کی آزادی  سمیت بہت سے حقوق شامل ہیں۔ حال ہی میں ان اداروں نے انسانی حقوق کی کسوٹی پر مختلف مالک کی کارکردگی کا جائزہ لیا ہے۔ نتائج حاضر ہیں۔ سو میں سے نمبر

سعودی عرب۔۔۔ 10

افغانستان۔۔۔۔ 24

پاکستان۔۔۔۔ 45

آسٹریلیا۔۔۔۔ 98

کینیڈا۔۔۔۔ 99

سویڈن۔۔۔۔ 100

یہاں تک کی گفتگو عمومی اور نظریاتی تھی۔ جہاں تک میری ذاتی زندگی کا تعلق ہے میں ایک ڈاکٹر اور سائیکوتھیریپسٹ ہوں اور دکھی انسانیت کی خدمت کو سیکولر عبادت سمجھتا ہوں۔ میں ایک HUMANIST بھی ہوں ۔ میں اپنی عام فہم تحریروں سے عوام کا سماجی شعور بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں تا کہ وہ اہنے جسمانی‘ نفسیاتی اور سماجی مسائل کو سمجھیں اور ان کا حل خود تلاش کریں۔ میں کسی مذہبی روایت کی پیروی نہیں کرتا لیکن تمام مذہبی اور روحانی روایتوں کو اپنا ورثہ سمجھتا ہوں، میں آسمانی کتابوں کو WISDOM LITERATURE اور دیومالائی ادب کا حصہ گردانتا ہوں۔ میں ادبِ عالیہ کی طرح ان کتابوں کے لغوی معنوں سے زیادہ ان کے استعاراتی معانی پسند کرتا ہوں۔ خدا کے بارے میں تمام تصورات میں سے میرا پسندیدہ تصور ۔ NATIVE INDIANS کا تصور ہے جو فرماتے ہیں

GOD IS A MYSTERY ۔

میں انسان دوست ہوں اور ان تمام مذہبی اور روحانی رہنمائوں کا احترام کرتا ہوں‘ جن میں جنوبی افریقہ کے ڈیسمنڈ ٹوٹو‘ امریکہ کے مارٹن لوتھر کنگ جونیر‘ ہندوستان کی مدر ٹریسا اور پاکستان کے عبدالستار ایدھی شامل ہیں‘ جنہوں نے انسانیت کی بہتری کے لیے کام کیا۔ میں ان تمام لوگوں کا احترام کرتا ہوں چاہے وہ کسی مذہبی یا روحانی‘ سیکولر یا سائنسی روایت سے وابستہ ہوں جو انسانی حقوق کے لیے کوشاں ہیں اور کرہِ ارض پر پر امن معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ میری نگاہ میں امن پسند مذہبی اور سیکولر رہنمائوں اور پیروکاروں کو اسی طرح مل کر کام کرنا چاہیے جس طرح جنوبی افریقہ میں مذہبی رہنما ڈیسمنڈ ٹوٹو اور سیکولر رہنما نیلسن منڈیلا نے اپنی قوم کے کالوں کے حقوق کے لیے جنگ لڑی اور قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی۔

میں عاصم بخشی کا شکر گزار ہوں جن کی دانشورانہ تخلیقات نے مجھے یہ کالم لکھنے کے لیے تحریک بخشی۔ اس کالم کے لیے وصی بابا چشم براہ ہیں ۔ انہیں ڈر اس بات کا ہے کہ خالد سہیل اور عاصم بخشی کا مکالمہ کہیں کچھ قارئین کا ایمان متزلزل نہ کر دے اور وہ کسی نفسیاتی بحران کا شکار نہ ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو کہیں مجھے ہیومنسٹ کی بجائے سائیکوتھیریپسٹ کا کردار نہ ادا کرنا پڑے۔

میں عاصم بخشی کا احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ بھی میری طرح انسانیت کی بہتری پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم دونوں سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافر ہیں۔ ہمارے راستے جدا سہی لیکن ہماری منزل ایک ہے۔ ایک دن میں ان کا وہ ہاتھ چوموں گا جس ہاتھ سے وہ ایسے دانشمندانہ کالم لکھتے ہیں۔

المانوی علما کے مطابق اس تصویر کے تجزیہ ہائے گیسو سے معلوم ہوتا ہے کہ مشران کرام کے فیضان اور فلسفے کے مطالعے سے مختلف نتائج برآمد ہوتے ہیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail