یہ جو آپ اپنے سے لگتے ہیں ناں
”تم کہاں ہو فوری پہنچو موٹر وے پر ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہے“۔ فون پر بات سن کر دوست کو کہا گاڑی خراب ہو گئی ہے تو میں کیا کروں۔ پشاور میں ہوتے تو مجھے بلاتے، تمھیں کیوں بلاتے خود ہی کچھ کر لیتے۔ یہاں بھی خود ہی کچھ کر لو۔ ایسا سا ایک فون پہلے بھی آیا تھا جو بے نیازی سے ہم نے سنا ہی نہیں۔
تعلق نہیں ٹوٹا قائم دائم ہے مستحکم ہے۔ جو فون سنا نہیں اس کو پوچھنے پر بتا دیا تھا کہ میرا دماغ خراب نہیں کہ فون سن کر چار پانچ لوگوں کی میزبانی کرتا۔ اس نے کہا ہم چار پانچ نہیں صرف سات تھے۔ مہمان نوازی مدد اور ساتھ کھڑے ہونا یہ قبائلی مزاج کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ دونوں فون قبائلی دوستوں کے تھے۔ سیدھی صاف بات بھی اسی مزاج کی نشانی ہے۔
بندہ فاٹا کا ہو تو دوستی ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ہم چار دوست ایک چیٹ بکس میں اکٹھے ہیں۔ ڈھائی سال بعد عدنان نے پوچھا کہ تم شیر یار کو شہریار کیوں کہتے ہو۔ ہیں اس کا نام شیر یار ہے؟ میں اسے شہریار کیوں کہتا ہوں؟ شیر یار سے پوچھا کہ تم نے بتایا کیوں نہیں تو ملک نے روایتی بے نیازی سے جواب دیا کہ میں سمجھا تم نے میرا نام یہ رکھا ہوا ہے۔ ہم چار دوست نیٹ پر مل کر کیا کرتے ہیں یہ مت پوچھیں۔ بس یہ سمجھ لیں کہ ہم ایک خالی ٹرالر چلاتے ہیں وہ بھی ویسے چلاتے ہیں جیسے تازہ خان چلاتا ہے۔ تازہ خان کو جب ٹرالر حوالے کیا گیا تو اسے بس اتنا کہا گیا کہ ”دہ سڑک دے“ یعنی یہ سڑک ہے، ”دہ ٹرک دے“ یہ ٹرک ہے ”او دہ تہ اے“ اور یہ تم ہو۔
سارا دن نیٹ پر جو ایک کام نہایت دل لگا کر کرتا ہوں۔ وہ کپتان اور اس کے مداحوں کو کدوکش کرتے رہنا ہے۔ سندھ میں میرا ایک مہربان دوست ہے۔ جس نے یہ جان کر کہ میں وہیں پیدا ہوا مجھے اپنا مان رکھا ہے۔ کچھ ہفتے گزرے آدھی رات کو اس کا پیغام آیا۔ میں پی پی چھوڑنا چاہ رہا ہوں کپتان کی پارٹی میں جانا ہے۔ اس رات پھر نیند نہیں آئی بس یہ سوچتا رہا کہ تیس چالیس سال کا تعلق توڑنے چلا ہے یار۔ یہ سوچا کہ مشورہ بھی کس سے کر رہا جو معلوم مخالف ہے اب ان سے کیا کہوں۔ کسی کا یوں اعتماد کر لینا، بات تو اعزاز کی ہی ہے لیکن یہ اعتماد آتا کیسے ہے۔ تعلق تو تب بھی برقرار پکے رہتے جب آپ موٹر وے پر خوار دوست کی مدد سے انکاری رہتے ہو۔ ایسا کیسے کیوں ہوتا ہے ایسے تعلق بنتے کیسے ہیں۔
فاٹا والے تو خیر سمجھ آتی ہے۔ دن رات سکول کالج ہمسائیگی کا کھیل کا تعلق لڑنے ملنے کا تعلق۔ ویسے جس نے میرے اس مزاج کو اپنا کیا تھا وہ آٖفریدی دوست اپنے گھر کے پاس مارا گیا تھا، مذہب کے نام پر ہم نے کیسے کیسے ہیرے مٹی کر دیے۔ دوسرا شنواری تھا جس نے اٹھنا بیٹھنا سکھایا وہ باہر چلا گیا۔ جاتے ہوئے گلے ملا تو کمبخت رو رہا تھا۔ اس نے سکھایا تھا کہ مشکل میں روتے نہیں اس کا سامنا کرتے ہیں۔ بات یاد رکھ لی دوست نئے ڈھونڈ لیے ویسے سے ہی ہیں۔ پشین کے سود خوروں سے فیض پانے والوں کی جو نشانی ہاتھ آئی ہے وہ تو چکری بھی ہے۔ جب کچھ نہ کرنا ہو تو ایسی بیٹھی ہوئی آواز میں بات کرے گا کہ لگتا اسے اٹھایا تو گزر جائے گا۔
صرف مرد حضرات کی ہی باتیں ہو رہی ہیں۔ تو کچھ ذکر پروشوں کا اک پردہ دار سی حسینہ نے تھینک یو بولا ہے ابھی کچھ دن پہلے۔ کافی لمبی تقریر لکھ کر بھجوائی کہ کیسے اس کی باتیں سننے کو اپنے کان بغیر کرائے کہ فراہم کیے رکھے۔ بھئی دو کان ہیں اگر باتیں نہیں سنیں گے تو کیا ان میں کان کنی ہوگی۔ اب اسے کیسے بتاؤں ان حسینوں کے چکر میں تو ہم ان کے آدھے پاگل بھائیوں نوکروں کے بھی تابعدار رہے ہیں ہمیشہ۔
وہ فرانس رہتی تھی جس سے کبھی گپ لگی تھی۔ اس کی شکل دیکھ کر دل ڈوب سا گیا تو اس نے تاڑ لیا تھا۔ اس نے کہا کہ دیکھ میرا اک بدو دوست ہے زیادہ امید نہ رکھنا۔ ایسا کرو کہ میرے بھائی سے بات کیا کرو۔ اس کا چھوٹو سا بھائی جسے دیسی پاکستانی کے طور پر بڑا کیا جا رہا تھا۔ سکول جاتے روتا تھا۔ اس سے میں باتیں کرتا رہتا حسینہ کے فون پر۔ وہ بچہ بتاتا بھائی آپ کو پتہ ہے میرے سکول میں کوئی اردو بولتا ہی نہیں۔ کوئی میری باتوں پر ہنستا ہی نہیں، سب مجھ پر ہی ہنستے ہیں۔ مجھے پاکستان میں سکول جانا ہے۔ فون کا بل زیادہ آیا تو حسینہ کو اس کی اماں نے مرغا بنا دیا کہ پاکستان میں شاید وسی بابے کے ساتھ سیٹ ہو رہی۔ حسینہ نے کہا یار تھینکس، کہانی کچھ گڑ بڑ ہو گئی جب بھی پیرس آؤ تو ڈانس کریں گے اکٹھے۔ اسے کہا مر جانی اے مینوں نچنا آؤندا نہیں۔
ابھی پنڈ گیا تو مولوی سے ملا اس نے بھی گلہ ہی کیا۔ وسی تو باز آ جا ہر دھماکے کے بعد مجھے فون مت کیا کر پچیس سال ہو گئے میں نے چھوڑ دی یہ لائن۔ اس ظالم نے افغانستان کسی افغانی سے زیادہ گھوما ہوا ہے۔ اسے غصہ کر کے شاید کتھارسس ہوتا ہے۔ ہم باتیں کر رہے تھے اتنے میں شور مچ گیا کہ گاڑیاں ہٹاؤ بیل گاڑی آ رہی ہے۔ نوکر کدھر دفع ہو گیا سنڈا اکیلا ہی بیل گاڑی کھینچتا آ رہا۔ مولوی نے کہا بیٹھا رہ آرام سے اس ڈنگر کو تم سے اچھی گاڑی چلانی آتی۔ سنڈا صاحب بہت آرام سے گاڑیوں کے درمیان سے اپنی گاڑی گزار کر ڈنگر خانے میں پارک ہو کر ہانپنے لگ گئے۔ مولوی اس سنڈے کو مجھ سے اچھی گاڑی ہی نہیں چلانی آتی تم سے زیادہ ہوشیاری سے ٹکروں سے بچ جاتا ہے۔
اپنا اک دور کا تایا یاد آ گیا جو اب لندن ہوتا۔ اس نے کہا تھا کہ وسی مٹی کے ساتھ مٹی ڈنگر کے ساتھ ڈنگر ہونا پڑتا تب فصل اگتی پھل پکتا ہے۔ مولوی سے پوچھا تایا کیسا ہے؟ اس نے کہا کہ اسے کچھ ہو گیا ہے۔ اس کے بیٹے نے بتایا کہ رات کو نیند میں بولتا رہتا ہے۔ پنڈ کی باتیں کرتا ہے کبھی فصل اٹھانے کا بولتے ہیں۔ کبھی بارش سے دانے بچا رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی کے ساتھ پانی لگانے پر لڑ رہے ہوتے ہیں۔ زیادہ سینٹی نہ ہوں یہ تایا نہیں بچنا، لندن بھی اسی تائے کے ہاتھوں نہیں بچنا اب دیسی ہو کر رہے گا، تائے جیسوں کو اس مٹی میں شامل تو ہونے دیں۔
شہر لوگ ایسے ہی اپنے نہیں ہو جاتے۔ کیسے کیسے کہاں کہاں سے جا ملتے ہیں تب اپنے لگتے ہیں۔ عباس تابش نے کہا تھا کہ
یہ جو مجھ پر کسی اپنے کا گماں ہوتا ہے
مجھ کو ایسا نظر آنے میں بڑی دیر لگی۔
یہ جو آپ اپنے سے لگتے ہیں نہ یہ جو آپ سے گلے ملنے کو دل کرتا ہے نہ تو وجہ وہ سانجھے سے دکھ اور خوشیاں ہیں جو ہم آپ دیکھ کر آن ملے ہیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).