نجومی کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی آ کے رہے گی


پورے ملک میں ٹیکنو کریٹ حکومت کی افواہیں جاری ہیں کہا جا رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے خلاف غیر قانونی ذرائع سے ناجائز دولت جمع کرنے اور صادق اور امین نہ رہنے سمیت مختلف الزامات کے تحت مقدمات سامنے آئیں گے۔ اور ملک کو بحران سے بچانے کے لیے ٹیکنو کریٹ طرز کی عبوری حکومت بنائی جائے گی۔ ساستدانوں سے لے کر اینکر پرسن، کالم نگار سب اپنی اپنی کہی ہوئی باتوں کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میاں نواز شریف اور اس کا خاندان اب بچ نہ سکے گا اور احتساب ہو کر رہے گا۔

پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بیان دیا کہ وہ جو کہہ رہے تھے وہ سچ ثابت ہوا اب صرف وہ وقت آنا ہے جب پورا شریف خاندان نا اہل ہو کے جیل جائے گا۔ اور اسی طرح کا رویہ پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملک کے مجموعی منظر نامے کو دیکھا جائے تو کل کے آمروں کے ترجمان آج سیاسی پارٹیوں کے ترجمان بنے بیٹھے ہیں۔ کل جو جنرل مشرف کے ترجمان تھے آج وہ میاں صاحب اور عمران خان کے ترجمان بن کر جمہورریت کو سہارا اور 20 کروڑ عوام کو مبارک بادیں دے رہے ہیں۔ کل جو بھٹو شھید کا عَلَم لے کر چل رہے تھے آج وہ عمران خان صاحب کے دست راست بن کر بھٹو کے مشن کی تکمیل پی ٹی آئی میں رہ کر کرنا چاہتے ہیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف ہی سب س ے بڑا مجرم ہے باقی سب کے دامن پاک ہیں۔ اس وقت ملک میں خوشامدیوں کے ٹولے سیاسی پارٹیوں پر راج کر رہے ہیں اور با شعور سیاسی کارکن علیل ہوکے گھر میں بستروں پر پڑے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے سیاسی پارٹیوں کے جنازے نکلنے والے ہیں اور یہ تمام ترجمان کسی اور کی ترجمانی کر رہے ہیں کیوں کہ ان سیاستدانوں نے ایک دوسرے پر اتنے الزامات لگائے ہیں اور ایک دوسرے کو نا اہل قرار دینے میں کوئی کسر نہی چھوڑی۔ تاثر یہ مل رہا ہے کہ تالاب میں ساری مچھلیاں گندی ہیں اور اب اس تالاب کو صاف کرنے کے لیے فرشتوں کی ضرورت پڑے گی۔

عوام بیچارے ٹی وی کا ریموٹ لے کر مسلسل چینلز تبدیل کرنے میں مصروف ہیں اور ہر جگہ پر وہی چہرے اور وہی پرانی بحث جاری ہے کہ سب سے بڑا چور کون ہے؟ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کو چور ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ بندر کے ہاتھ میں استرا ہے اور بندر اپنی ہی گردن کاٹ کر سکھ کا سانس لے گا۔ دوسری طرف ملک دہشتگردی کے واقعات سے لہو لہان ہے۔ میری قوم کی ماؤں اور بہنوں کے جگر کے ٹکڑوں کو دہشتگردوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ عوام غربت کے لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بے چاری جمہوریت کو مزید کمزور کرنے کے لیے سیاسی اکھاڑا تیار کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کو اس جمہوریت سے مزید نفرت ہو جائے اور ماضی کی طرح لوگ کہنے لگیں کہ اس جمہورریت کا کیا فائدہ لوگ تو یہاں ڈنڈے سے سدھریں گے۔ دیکھا جائے تو اس ملک میں ایک طرف سیاسی اور معاشی استحکام والا پرانا مسئلہ چل رہا ہے تو دوسری طرف عدم برداشت کا بازار گرم ہے۔

میرے ملک کے سیاستدان ابھی بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہیں افسوس کہ انہوں نے ماضی کے مارشل لاؤں سے بھی کچھ نہ سیکھا۔ جمہوریت کو بچانے اور 20 کروڑ عوام کی تقدیر بدلنے کے سب دعویدار ہیں۔ کوئی مذہب بیچ رہا تو کوئی ذات برادری۔ سب نے اپنی اپنی دوکان کھول رکھی ہے۔ ہم پر لسانیت حاوی ہے۔ ماضی کی طرح ابھی تک ہم اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ کرپشن سیاسی مسئلہ ہے یا پھر سماجی۔ کٹھ پتلی کے کھیل کا تماشہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ شاید کوئی دودھ کا دھلا انسان اوپر سے آئے گا اور ہمارے اس ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ اس تقدیر بدلنے اور کرپشن کے خاتمے کے لئے جو کچھ ماضی میں یہاں ہوتا آیا ہے آج تک ہمارا ملک اس کے اثرات سے نکل نہیں پایا۔ اللہ جانے آگے کیا ہونے والا ہے کچھ پتہ نہیں۔ مگر میرے ملک کے کچھ صحافی اور اینکر پرسن اور کچھ نجومی کہہ رہے ہیں کہ کچھ ہونے والا ہے۔ کچھ لوگ مارے جائیں گے کچھ کا صدقہ ہوگا اور تبدیلی آ کے رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).