مشرق وسطیٰ کی غیر یقینی صورتحال کیا منظر پیش کرے گی؟


لیز ڈوسیٹ۔ چیف نامہ نگار برائے عالمی امور۔

ریاض میں تلواروں اور دور مار میزائلوں کی ایک رات نے غیرمستحکم مشرق وسطیٰ میں ایک بھونچال اور اس بارے میں ایک غیریقینی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ آنے والا وقت کیا منظر پیش کرے گا۔
سنیچر کی رات سعودی دارالحکومت ریاض میں اچانک پیش آنے والے تین واقعات کا براہ راست آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن جو بھی کہا جائے، یہ ایک ایسے وقت میں جب سعودی عرب اور امریکہ سمیت اس کے اہم اتحادی اپنے کٹر مخالف ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔

پہلی اور ممکنہ طور پر خطے کے لیے سب سے زیادہ دھماکہ خیز چیز سعد الحریری کا ریاض میں کیا گیا چونکا دینے والا اعلان تھا کہ وہ لبنان کے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفی دے رہے ہیں۔

باخبر مبصرین کا کہنا ہے کہ انھیں بیروت سے بلایا گیا اور پھر ان کے سعودی اتحادیوں نے انھیں ’برطرف‘ کر دیا۔ عرب حکومت کے وزرا نے حریری کے ٹی وی پر خطاب کے بارے میں مجھے بتایا کہ ’یہ ان کی اپنی زبان نہیں تھی۔ ‘

واضح طور پر پریشان نظر آنے والے حریری نے اپنے ہی ملک میں اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے بارے میں بات کی۔ انھوں نے ’بدامنی اور بربادی‘ کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ایران کی لبنانی اتحادی حزب اللہ جو بڑی شیعہ ملیشیا اور طاقتور سیاسی قوت ہے، ریاست کے اندر ریاست بنا رہی ہے۔

بیروت کے کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر سے وابستہ یزید سایغ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’سعودی عرب نے بلاہدف میزائل داغا ہے۔ ‘

ان کے مطابق اس کا مرکزی ہدف لبنان نہیں تھا لیکن ریاض اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں ایران خطے میں بری طرح عدم استحکام پھیلا رہا ہے۔

اس سے لبنان کے سیاسی منظرنامہ کو سب سے پہلے دھچکا پہنچا اور قومی اتحاد کی متوازن حکومت جس میں حزب اللہ اور حریری کا سنی فرقہ شامل ہے، ختم ہو گئی۔

سعد الحریری کے اعلان کے چند ہی گھنٹوں بعد ایک اصلی دور مار میزائل یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے فائر کیا گیا جسے ریاض کے شاہ خالد بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب مار گرایا گیا۔
اس سے سعودی عرب کا وہ خوف اور بڑھ گیا جس کا وہ اظہار کر چکا ہے کہ ایران اس کی سرحد تک پہنچ چکا ہے اور اب اس کے پار بھی۔

اختتامِ ہفتہ پر متحدہ عرب امارات میں ہونے والے ایک فورم کے موقع پر عریبیہ فاؤنڈیشن کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر علی شہابی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ میزائل تو صرف شروعات ہے۔ اگر مزید پانچ سال یہی صورتحال رہی تو 40 ہزار میزائل ریاض کو نشانہ بنائیں گے۔ ‘

اس وقت جب کہ خطے میں اور اس سے کہیں آگے تک سیاسی بھنبھناہٹ جاری تھی تیسرا حیرت انگیز دھماکہ آدھی رات کو ہوا جب انسدادِ بد عنوانی مہم کے تحت درجنوں شہزادوں، ارب پتیوں اور سابق وزرا کو گرفتار کر لیا گیا اور چند کو برطرف کر دیا گیا۔

یہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے امور سلطنت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے سلسلے میں ملک کے اندر اور باہر دیا جانے والا اب تک کا سب سے زیادہ دلیرانہ اشارہ تھا۔

خطے کے ایک سینیئر عرب اہلکار کا کہنا ہے کہ 32 سالہ ولی عہد کی جانب سے یہ صفائی ’ایک پیغام ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے، یا واضح طور پر ان کے قانون سے۔ ‘

سعودی ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاض گذشتہ برس کے دوران سعد الحریری کے ساتھ بےصبری سے پیش آیا ہے۔ اس دوران وہ لبنان کی نازک اتحادی حکومت پر حزب اللہ کے اثر و رسوخ کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔

گذشتہ برس 30 رکنی کابینہ کی تشکیل کے لیے مشکلوں سے کیے جانے والے معاہدے نے برسوں سے جاری سیاسی تعطل کو ختم کیا تھا۔ اس کا مقصد پڑوسی ملک شام میں جاری جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے اثرات کو کم کرنا تھا جہاں سعودی عرب اور ایران حریفوں کی مدد کر رہے ہیں۔

الشہابی کا کہنا تھا کہ ’یہ قدم اٹھا کر حریری نے اس ریاست کے لیے عزت کمائی ہے جس پر درحقیقت حزب اللہ کا قبضہ ہے۔ ‘

حریری کی حکومت کے لیے آخری تنکا جمعے کو بیروت میں حریری کی ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کے سینیئر مشیر علی اکبر ولایتی کے ساتھ ملاقات ثابت ہوئی۔
لبنانی اور ایرانی ذرائع ابلاغ نے اکبر ولایتی کی جانب سے لبنان کی اتحادی حکومت کے قیام کو ’عظیم کامیابی‘ قرار دیے جانے کو شہ سرخیوں میں جگہ دی۔ اس کے فوراً بعد سعد حریری کے قریبی ساتھیوں کے مطابق ’وہ ایک بوکھلائے ہوئے شخص تھے جو بہت جلدی میں تھے۔ ‘

سعد حریری کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک نے بتایا ’انھوں نے ہمیں جمعے اور سنیچر کی اپنی تمام مصروفیات منسوخ کرنے کا کہا اور چلے گئے۔ ‘
اس کے بعد شدت سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ آیا لبنانی اور سعودی شہریت کے حامل سعد الحریری بھی انسداد بدعنوانی مہم کی زد میں آ گئے ہیں۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟

یزید سایغ کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب نے لبنان میں کچھ شروع تو کردیا ہے لیکن وہ وہاں اقتدار کے تمام اختیارات پر قابو نہیں رکھتا۔ ‘

مشرق وسطیٰ میں سفارتکاری کے وسیع تجربے کے حامل ایک مغربی سفارتکار نے اگلے ممکنہ اقدامات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ان میں بڑے سعودی بینکوں کی رقوم نکلوانا، تجارتی پابندیاں، لبنانی فوج کی کارروائیاں ہو سکتی ہیں جس کی تربیت اور تعمیر کے لیے امریکہ اور برطانیہ کافی عرصے سے مدد کر رہے ہیں تاکہ وہ حزب اللہ کی فوج کے مدمقابل کھڑی ہو سکے۔

گذشتہ ماہ امریکی ایوانِ نمائندگان نے حزب اللہ پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی تائید کی ہے۔ یہ ٹرمپ انتظامیہ کی اس مہم کا حصہ ہے جس میں وہ ایران پر مزید دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔

ان اقدامات کو ابھی قانون کی شکل اختیار کرنی ہے جن میں یورپی یونین کی وہ قرارداد بھی شامل ہے جس میں حزب اللہ کے نہ صرف فوجی بلکہ سیاسی دھڑے کو بھی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی اپیل کی گئی ہے۔

وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو گذشتہ ہفتے اپنے سرکاری دورے پر لندن میں موجود تھے، نے کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری ایران کی جارحیت کے خلاف سخت کارروائی کرے جو شام کو ایک اور لبنان بنانا چاہتا ہے۔ ‘

حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ غیرمستحکم لبنان میں اعصاب کو قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے زور دیا کہ سعودی عرب کے سعد الحریری پر ’تھوپے‘ جانے والے فیصلے بعد ’برداشت اور سکون‘ کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
ایران بھی خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کے منصوبوں کی تیاری کے الزامات لگا رہا ہے۔

ہمیشہ سے کئی بحرانوں کے شکار غیر مستحکم پڑوس کے برابر میں واقع ملک کے لیے فکرمندی کی بات صرف جنگ نہیں بلکہ کسی تنازعے میں حادثاتی طور پر پھنس جانا بھی ہے۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے جین میری گونہینو کا کہنا ہے کہ ’حزب اللہ کو اپنی سرخ لکیر کا پتہ ہے، اور ہر اسرائیلی جرنیل فوجی کارروائی سے احتیاط برتے گا۔ لیکن آپ کو یقین نہیں کہ سیاست دان کیا کریں گے۔ ‘

اب موجودہ صورتحال کے بعد تمام حرکات کا محتاط انداز میں مشاہدہ کیا جائے۔
عرب حکومت کے وزیر کا کہنا ہے کہ ’لبنان کے بحران میں تیزی آنے کے بعد ولی عہد کو ملک کے اندر گرفتاریوں کو ملتوی کر دینا چاہیے تھا۔ اب کئی چیزیں ہوا میں ہیں۔ ‘

دیگر غیر متفق ہیں

ایک سعودی مبصر کا کہناہے کہ ’بہتر ہو گا کہ اسے ایک رات میں نمٹا دیا جائے۔ یہ مستقل رستا رہا ہے۔ ‘
اور گذشتہ ہفتے کے فیصلہ کن دن کی طرح یہ سب یکجا ہو کر کچھ مزید بڑی شکل اختیار کر لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp