وزیرستان اور حکومتِ پاکستان


کسی پہاڑ کے دامن میں ایک ہنستا بستا گھر تھا جس کی رونق چار معصوم جانوں سے تھی۔ والدین اپنے تین لاڈلوں کو آنکھ کا تارا اور جگر کا ٹکڑا جان کر سینے سے لگاتے تھے۔ وہ تینوں ان کی ہر بات پر سرجھکاتے اور حکم بجالاتے تھے۔ چو تھے بیٹے کا قصہ البتہ مختلف تھا وہ باقی تینوں کی طرح ہر بات کو آنکھیں بند کر کے قبول نہ کرتا اور ہر معاملے میں چھان پٹھک کر لیتا۔ رفتہ رفتہ والدین اپنے اس ضدی بیٹے سے بے زار ہوتے گئے۔ اسے اپنے پیار کا وہ حصہ نہ مل سکا جس کا وہ حقدار تھا۔ احساس کمتری نے اس کے دل میں گھر کر لیا اور شورشوں نے اس کے سینے میں خیمے گاڑ لئے۔ یہی حکایت حکومت پاکستان کی بھی ہے جس نے اپنے مضبوط، بہادر اور کچھ ضدی قبائیلی بیٹوں سے منہ پھیر لیا اور انھیں غیروں کا ہدف بننے کے لئے تنہا چھوڑ دیا۔

وزیرستان کے حلات کافی بہتر ہوگئے ہیں! میرانشاہ جاتے ہوئے ساتھی صحافی نے بات شروع کی۔ ”بالکل ایسا ہی ہے“ میں نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ضرب عضب آپریشن کے بعد پاک فوج کی کوششوں سے وزیر ستان میں کسی قدر امن آچکا ہے۔ یہ تو ہے کہ آپ قدرے بے خوف گھوم پھر سکتے ہیں، مگر سماجی مسائل اتنے ہیں کہ بیان کرنے کے لئے الفاظ کم پڑجائے گے۔ میرانشاہ میں داخل ہوتے وقت انٹری کرانے کے لئے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سکیورٹی چیکنگ اتنی سخت ہے کہ نئے آدمی کاوزیرستان داخل ہونا محال ہی نہیں بالکل ناممکن امر ہے۔ گورنر ماڈل سکول کو دیکھ کر میری خوشی وابساط کی انتہا تھی۔ سکول بہت حسین اور متعدد سہولیات سے آراستہ ہے تقریباً گیارہ سو (1100 )سے زائد طالب علم تعلیم سے فیض یاب ہورہے ہیں۔

میری خوشی ناقابلِ بیان ہوگئی جب میرانشا ہیڈ کوراٹر میں داخل ہوا۔ ایسا ہسپتال تو میں نے بڑے بڑے شہروں میں بھی نہیں دیکھا، جدید مشینری کے ساتھ مریضوں کے لیے آرام دہ ماحول تھا۔ خواتین کے لیے ایک لیڈی ڈاکٹر تمام تر ذمہ داریاں نبھا رہی تھیں، اس وقت ساری خوشی پر پانی پھر گیا جب مجھے معلوم ہوا ، گورنر ماڈل سکول اور میرانشاہ ہیڈ کواٹر ہسپتال کے علاوہ عام لوگوں کے لئے اس طرح کی کوئی سرکاری و نجی سہولت میسر نہیں۔ یہ حیران کن بات ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے شام کو گھپ اندھیرا راج کرتا ہے اور IED بم کے باعث گھروں سے باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں۔

متاثرین وزیرستان اب بھی اپنے گھروں میں واپس نہیں گئے ہاں البتہ میڈیا اور دفتری ریکارڈ کی حد تک 80% متاثرین وزیرستان اپنے گھرواپس لوٹ چکے ہیں۔ حکومت کی غلط بیانیوں کے پردے چاک ہورہے ہیں اور اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ میر علی اور میرانشاہ تک وہ لوگوں کی آبادی اور پہلے جیسی چہل پہل نظر ندارد ہے۔ جو گھر مسمار ہوئے ان کی تعمیر ایک طرف، حسرت تعمیر کا سوچنے والا بھی کوئی نہیں۔ آج بھی ( IDPS ) دربدر کی ٹھوکر یں کھارہے ہیں۔ کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ قبائلیوں نے دہشت گردوں کا ساتھ دیا اور ان کی شکل و صورت دہشت گردوں سے ملتی جلتی ہیں ب یہ بات کچھ حد تک ٹھیک ہے کہ چند قبائلوں نے دہشت گردوں کے ساتھ ہمدردی دکھائی لیکن سوال یہ ہے کہ 2004 ءکے بعد آخر ایسے کون سے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ جس کے باعث سے قبائلیوں کے ذہن بے قابو ہوتے گئے اور وہ غیروں کے شکنجے میں پھنستے گئے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر ریاست قبائلیوں کو تعلیم سے محروم نہ کرتی، ان کو باقی شہریوں جیسے حقوق دیتی تو کیا ایسے حالات پیدا ہوسکتے تھے۔ رہی بات یہ کہ قبائلیوں کی شکل و صورت شدت پسندوں سے ملتی ہیں تو جناب صورتوں کا ملنا ایسا کوئی جواز نہیں ہیں ان کے مشترکہ لباس کی بات کی جائے یہ تو قبائیلیوں کے صدیوں سے ان کی انمٹ ثقافت کا حصہ ہے۔ اب بھی وزیرستان کے لوگ بے شمار مسائل اور تکالیف سے دوچار ہورہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کی قربانیوں کے بدلے میں کم از کم کیے ہوئے وعدے تو وفا کریں۔ ہمیں اگر واقعی جدید ریاست اور ترقی یافتہ سماج قائم کرنا ہے تو ہمیں اپنے اصولوں ضابطوں اور نظریات کا جائزہ لینا ہوگا خوشحال پاکستان کے لئے ترقی یافتہ اور FCR سے پاک وزیرستان ناگزیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).